برطانیہ اور امریکہ کے حالیہ سفر کے چند تاثرات

   
تاریخ : 
یکم دسمبر ۲۰۰۵ء

گزشتہ اٹھارہ بیس برس سے میرا یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ ہر سال چند ماہ کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہوں۔ احباب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، مختلف دینی اجتماعات میں شرکت ہوتی ہے، ورلڈ اسلامک فورم کے حوالے سے کچھ سرگرمیاں ہوتی ہیں، بعض تعلیمی اداروں کے معاملات میں مشاورت ہوتی ہے اور ’’سیروا فی الارض‘‘ کے حکم خداوندی پر تھوڑا بہت عمل ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک جب مدرسہ نصرۃ العلوم کی تدریسی خدمات میرے ذمہ نہیں تھیں اور مدرسہ انوار العلوم میں اپنی مرضی کے چند اسباق پڑھایا کرتا تھا جن کا دورانیہ اور اوقات طے کرے میں مجھے اختیار ہوتا تھا، بیرون ملک سفر کا شیڈول میرے ہاتھ میں ہوتا تھا اور عام طور پر گرمیوں کے تین چار ماہ برطانیہ یا امریکہ میں گزرتے تھے، مگر حضرت والد محترم مدظلہ کی معذوری کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں باقاعدہ تدریسی ذمہ داریوں کے باعث اب میرے پاس اس کام کے لیے شعبان المعظم اور اس کے ساتھ رمضان المبارک کے آٹھ دس دن کا وقت ہی فارغ ہوتا ہے یا شش ماہی امتحان کے موقع پر کھینچ تان کر دو ہفتے نکل آتے ہیں، اس لیے اپنی بیرونی سرگرمیوں کو انہی اوقات میں سمیٹنا پڑتا ہے اور اسی کا معمول ہو گیا ہے۔

اس سال مدرسہ نصرۃ العلوم کے سالانہ امتحان اور جلسہ تقسیم اسناد کے بعد ۳۰ اگست کو سفر کے آغاز کا پروگرام طے ہوا۔ میں نے ڈیڑھ ماہ قبل ہی ٹریول ایجنٹ سے کہہ دیا کہ مجھے ۳۰ اگست کو لندن کے لیے اور اس کے ایک ہفتہ بعد وہاں سے امریکہ کے لیے سفر کرنا ہے اس لیے اس کے مطابق سیٹوں کی ترتیب طے کر لی جائے۔ اس نے اپنے طور پر سیٹ پی آئی اے سے بک کرا لی جو کنفرم نہیں تھی اور ٹریول ایجنٹ کا خیال تھا کہ درمیان میں خاصا وقت ہے، اس وقت تک کنفرم ہو جائے گی۔ میں نے بھی لندن میں احباب کو مطلع کر دیا اور انہوں نے لندن، مانچسٹر، لیسٹر اور گلاسگو میں تین چار پروگرام رکھ لیے، مگر جب لاہور کے ایئر پورٹ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ سیٹ کنفرم نہیں ہے، جہاز فل ہے اور آئندہ بھی دس بارہ روز تک کوئی سیٹ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یورپ کے ممالک میں گرمیوں کی تعطیلات ختم ہو رہی ہیں اور جو افراد اور خاندان چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تھے ، وہ واپس جا رہے ہیں اس لیے بظاہر سیٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

کم و بیش ایک ہفتہ سیٹ کے حصول کے لیے تگ و دو میں گزر گیا اور بالآخر ۶ ستمبر کو الامارات کے ذریعے دوبئی اور ۷ ستمبر کو وہاں سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس دوران میں لندن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری، لیسٹر کے مولانا محمد فاروق ملا، مانچسٹر کے مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی اور گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا حبیب الرحمن فون پر مسلسل رابطے میں رہے کہ کسی طرح ان کے کسی پروگرام میں شرکت ہو جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ۷ ستمبر کو صبح لندن کے گیٹ وک ایئر پورٹ پر اترا تو کراؤلی سے مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے مجھے وہاں سے وصول کیا۔ قاری صاحب کا تعلق اچھڑیاں ہزارہ سے ہے۔ استاذ العلماء حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے ہیں، میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور ایک عرصہ سے کراؤلی کی جامع مسجد قوت الاسلام میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

میری خواہش ۱۱ ستمبر سے قبل نیویارک پہنچنے کی تھی اور میں نائن الیون کے حوالے سے اس روز کی سرگرمیاں دیکھنا چاہتا تھا، اس لیے لندن زیادہ دن نہ رک سکا۔ جمعہ کراؤلی میں پڑھایا، ایک دن ساؤتھ آل میں گزارا اور ایک دن مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ہاں قیام رہا۔ اسی سال جون میں دو ہفتے کے لیے لندن آیا تو اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کے ایک اجلاس میں ہم نے طے کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جو ستمبر میں ہو رہا ہے، اس میں اس سال اقوام متحدہ کے نظام میں کچھ اصلاحات کی تجاویز بھی زیر بحث آنے والی ہیں، اس لیے اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اقوام متحدہ اور عالم اسلام کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کر کے شائع کی جائے جس میں عالم اسلام کے ساتھ اقوام متحدہ کے جانب دارانہ طرز عمل اور مسلم ممالک کی مشکلات و مسائل کے بارے میں اس عالمی ادارے کی سرد مہری کا جائزہ لیتے ہوئے اصلاح احوال کے لیے تجاویز سامنے لائی جائیں۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ لندن میں مسلم ملکوں کے سفارت خانوں کو باضابطہ طور پر بھجوائی جائے اور عالمی پریس میں بھی اس کی اشاعت کی کوشش کی جائے۔ اس رپورٹ کی تیاری میرے ذمے تھی، مگر جب اس رپورٹ کی تیاری کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی تہی دامنی کا احساس ہوا کہ سوائے جذبات، احساسات اور تخیلات کے، دامن میں کچھ بھی نہ تھا اور اس رپورٹ کے لیے جو معلومات اور حوالہ جات درکار تھے، ان تک اتنے عرصے میں رسائی ممکن ہی نہ تھی، اس لیے رپورٹ سے نیچے اتر کر ’’میمورنڈم‘‘ پر اکتفا کرنے میں عافیت سمجھی اور ۸ ستمبر کو جب ہم اس سلسلے میں لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے اجلاس میں بیٹھے تو اس میمورنڈم کا ہلکا سا خاکہ طے کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔

اس میمورنڈم میں ہم نے عالم اسلام کے بارے میں اقوام متحدہ کے جانب دارانہ طرز عمل اور دوہرے معیار کا شکوہ کرتے ہوئے اصولی طور پر تین گزارشات پیش کی ہیں:

  • انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض دفعات قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جبکہ مسلم دنیا پر اس چارٹر کو من وعن تسلیم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو غیر منصفانہ بات ہے، اس لیے اس چارٹر پر نظر ثانی کی جائے۔
  • ایٹمی توانائی اور جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی پر چند ممالک کی اجارہ داری اور باقی دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو اس سے محروم رکھنے کے قوانین غیر منصفانہ ہیں، ان پر نظر ثانی کی جائے اور انہیں متوازن بنایا جائے۔
  • سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ویٹو پاور میں مسلم دنیا کی نمائندگی بالکل نہیں ہے جو عالم اسلام کی حق تلفی ہے، اس لیے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں ویٹو پاور کے ساتھ مسلم دنیا کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔

ان اصولی گزارشات کی بنیاد پر میمورنڈم کی تیاری اور اسے متعلقہ اداروں تک بھجوانے کی ذمہ داری ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے سپرد کی گئی اور میں ۱۰ ستمبر کو لندن سے نیویارک کے لیے پرواز کر گیا۔ مجھے ۱۰ ستمبر کو رات آٹھ بجے کے لگ بھگ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر اترنا تھا اور اس کے تقریبا چار گھنٹے کے بعد نائن الیون شروع ہونے والا تھا، اس لیے مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ ایئر پورٹ پر چیکنگ اور پوچھ گچھ کا نظام پہلے سے خاصا سخت ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب میں امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا تو ایک سیاہ فام افسر سے سامنا ہوا جس نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور ایک آدھ سوال کے بعد مجھے امیگریشن آفس میں پہنچا دیا جہاں مجھ سے پاس پورٹ لے کر ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ وہاں ایک خاتون اور دو مرد آفیسر تھے جو باری باری مجھ سے سوالات کرتے رہے، سامان کا بیگ تفصیل سے چیک کیا اور ٹیلی فون پر ان تفصیلات کی کسی اور جگہ رپورٹ بھی دیتے رہے۔ اس دوران میں اور بھی افراد باری باری وہاں لائے گئے مگر تھوڑی بہت انکوائری کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا، مگر میں مسلسل دو گھنٹے تک اسی ماحول میں رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کہیں اور سے میرے بارے میں ’کلیئرنس‘ لی جا رہی ہے۔ بالآخر دو گھنٹے کی مسلسل پوچھ گچھ اور تلاشی کے بعد گیارہ بجے کے لگ بھگ مجھے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

میرے پاس امریکہ کا پانچ سالہ ملٹی پل ویزا تھا جو میں نے نائن الیون سے پہلے حاصل کیا تھا اور اسی پر تین سال سے سفر کر رہا تھا۔ اس کی میعاد اٹھارہ ستمبر کو ختم ہو رہی تھی اس لیے اس ویزے پر میرا یہ آخری سفر تھا اور میرے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اس کے بعد امریکہ کا سفر نیا ویزا ملنے کی صورت میں ہی ہو سکے گا۔ بہرحال جب ان مراحل سے گزر کر میں ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ میرے انتظار میں پریشان کھڑے تھے۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، ڈھاکہ کے المرکز الاسلامی کے سربراہ مولانا محمد شہید الاسلام کے متعلقین میں سے ہیں جو وہاں کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور بہت بڑا رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں ڈھاکہ میں ان کے مرکز میں حاضر ہو چکا ہوں اور ان کی رفاہی سرگرمیوں سے آگاہ ہوں۔ مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ کے قریب کوئنز کے علاقے میں دار العلوم نیویارک کے نام سے دینی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں پہلے بھی متعدد بار وہاں حاضر ہوا ہوں۔ میں نے نیویارک حاضری کی اطلاع کسی اور دوست کو دی تھی، مگر ان دوستوں کو پتہ چلا تو اس دوست کو یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم خود ایئر پورٹ سے وصول کر لیں گے اور دار العلوم لے آئیں گے۔ تقریباً ایک ہفتہ دار العلوم میں قیام رہا۔ ہمارے گوجرانوالہ کے ایک دوست مولانا حافظ محمد اعجاز صاحب بھی اسی دار العلوم سے منسلک ہیں۔ حافظ صاحب موصوف جامعہ اشرفیہ کے فاضل ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ تفسیر کیا ہے، حافظ آباد روڈ گوجرانوالہ کی مسجد فضل میں ایک عرصہ تک امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب چند سالوں سے نیویارک میں مقیم ہیں۔

۱۱ ستمبر کو میں نے ان دوستوں سے عرض کیا کہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے علاقے میں جانا چاہتا ہوں اور وہاں کے مناظر کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے تاثرات بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ شام کو وہاں یادگاری تقریب ہوگی، اس موقع پر یا اس سے قبل وہاں جانا مناسب نہیں ہوگا۔ رات نو بجے کے بعد وہاں چلیں گے اور جو دیکھنا ہوگا، دیکھ لیں گے۔ چنانچہ رات کو نو بجے کے بعد وہاں پہنچے تو ہزاروں افراد مختلف ٹولیوں کی صورت میں اس علاقے میں گھوم رہے تھے۔ وہ جگہ خالی میدان کی صورت میں ہے اور وہیں تھوڑی دیر قبل یادگاری تقریب ہوئی تھی جس میں نیو یارک کے لارڈ میئر کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے بھی شرکت کی تھی۔ تھوڑی دیر ہم وہاں گھومے پھرے، ایک مرحلہ پر ارادہ ہوا کہ گاڑی سے نیچے اتر کر ان ٹولیوں سے بات چیت کریں مگر پھر خیال آیا کہ چار پانچ باریش افراد کا اس طرح گاڑی سے اترنا سارے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا جس سے کوئی مسئلہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے، اس لیے گاڑی میں گھومتے پھرتے ہی ہم وہاں کے مختلف مناظر کا مشاہدہ کرتے رہے۔

۱۷ ستمبر کو دار العلوم نیویارک کا سالانہ جلسہ تھا جس کے لیے وہاں رکنا پڑا۔ اس دوران میں جمعہ، مکی مسجد بروکلین میں پڑھایا جو نیویارک میں پاکستانیوں کا ایک بڑا دینی مرکز ہے اور مولانا حافظ محمد صابر صاحب کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ لانگ آئی لینڈ میں مولانا عبد الرزاق عزیز کے ہاں حاضری ہوئی۔ ان کا تعلق ہزارہ سے ہے، میرے بعد جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں اور اب لانگ آئی لینڈ کے اسلامک سنٹر میں خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ہل سائیڈ کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اگلے روز نیویارک آنا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔ ان کے سیاسی مخالفین وہاں جمع تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دورے کو خراب کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ میں اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ تقریب کے بعض شرکاء نے مجھے پہچان لیا اور گفتگو میں شرکت کے لیے کہا۔ میرا اقتدار اور اپوزیشن کی سیاست سے ایک عرصہ سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس حوالے سے ان کی گفتگو میں خاموش تماشائی بنا رہا، البتہ جب مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو میں نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں ورلڈ اسلامک فورم کے میمورنڈم کی طرف شرکائے محفل کو توجہ دلائی اور یہ گزارش کی کہ آپ حضرات ان مسائل کی طرف توجہ دیں اور نیویارک میں بیٹھ کر عالم اسلام کے اجتماعی مسائل اور اقوام متحدہ کے طرز عمل کے بارے میں آواز اٹھائیں۔

ہل سائیڈ ایونیو کے قریب ہی ’’شریعہ بورڈ‘‘ کا دفتر ہے جو میری دلچسپی کا مرکز تھا اس لیے کہ میں ۱۹۸۷ء اور ۱۹۸۸ء سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو توجہ دلا رہا تھا کہ امریکی دستور میں انہیں اپنے پرسنل لاز اور بزنس لاز میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور اس کے لیے نیم عدالتی نظام قائم کرنے کا جو حق حاصل ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور دستور کے مطابق عدالتی یا مصالحتی ادارے قائم کر کے مسلمانوں کو کم از کم پرسنل لا میں دینی راہ نمائی کی سہولت ضرور فراہم کریں۔ اس سال مجھے معلوم ہوا کہ شکاگو میں ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے نام سے اس نوعیت کا ایک ادارہ کئی برسوں سے کام کر رہا ہے اور اب نیویارک میں بھی ’’شریعہ بورڈ‘‘ قائم کر دیا گیا ہے جو رجسٹریشن اور منظوری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس بورڈ میں ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی روح الامین، حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی محمد نعمان اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حافظ محمد اعجاز خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ باہمی شکررنجی اور تنازعات کا شکار ہونے والے مسلمان جوڑے ان سے رجوع کرتے ہیں، وہ ان میں شرعی گنجائش کے مطابق مصالحت کراتے ہیں اور تنازعات کا تصفیہ کراتے ہیں۔ یہ کام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی اور طریق کار کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے بعض معاملات میں مشورے بھی دیے۔

ایک ہفتہ نیویارک میں گزار کر ۱۸ ستمبر کو واشنگٹن پہنچا اور ۱۰ اکتوبر تک وہاں قیام رہا۔ اس دفعہ میرا قیام چھوٹے بیٹے ناصر الدین عامر کے ہاں تھا جو کرائے کے ایک کمرے میں سپرنگ فیلڈ میں رہائش پذیر تھا۔ دار الہدیٰ وہاں سے قریب ہے، اس لیے نمازوں میں حاضری اور دار الہدیٰ کے پرنسپل مولانا عبد الحمید اصغر کی فرمائش پر مختلف نمازوں کے بعد درس حدیث کا سلسلہ قائم رہا۔ اس دوران کے تین جمعے وہیں پڑھائے اور بخاری شریف کی ثلاثیات کا سلسلہ وار درس بھی کم و بیش تین ہفتے تک چلتا رہا، البتہ ۳۰ ستمبر کو امریکی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم جانا ہوا جہاں سے ۳ اکتوبر کو واپسی ہوئی۔ یہ برمنگھم امریکی وزیر خارجہ مس کونڈو لیزا رائس کا شہر ہے اور امریکہ میں کالوں اور گوروں کی کشمکش کے حوالے سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ برمنگھم کے قریب ’’ہوور‘‘ نامی بستی میں میرے بچپن کے دوست افتخار رانا قیام پذیر ہیں جن کا تعلق گکھڑ سے ہے اور مسلکاً خاندانی اہل حدیث ہونے کے باوجود حضرت والد محترم مدظلہ کے ساتھ گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ ہمارا آپس میں بھائیوں جیسا معاملہ ہے، اس لیے امریکہ آنے پر مجھے ان کے ہاں ایک دو روز کے لیے لازماً جانا ہوتا ہے۔ اس دفعہ انہوں نے اپنی ایک بچی کا نکاح بھی میری حاضری کی مناسبت سے طے کر رکھا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ نکاح میں پڑھاؤں چنانچہ دو تین روز ان کے ہاں رہا، نکاح کی تقریب میں شرکت کی اور وہاں کے حضرات چونکہ سعودی عرب کے ساتھ روزہ اور عید کا اہتمام کرتے ہیں، اس لیے منگل کا پہلا روزہ افتخار رانا کے گھر میں ہی رکھا۔

افتخار رانا زندہ دل آدمی ہیں اور میرے ذوق سے واقف ہیں، اس لیے انہوں نے مجھے تاریخی اہمیت کے دو تین مقامات دکھانے کا پروگرام بنا لیا اور ہمارے دو تین روز خاصے مصروف گزرے۔ برمنگھم کسی زمانے میں ’’آئرن سٹی‘‘ کہلاتا تھا کہ وہاں سٹیل کی آٹھ نو ملیں رہی ہیں۔ زیر زمین لوہے اور کوئلے کے خاصے ذخائر ہیں۔ جس زمانے میں وہاں سٹیل ملیں کام کر رہی تھیں، اسے ’’میجک سٹی‘‘ اور ’’آئرن سٹی‘‘ کے نام سے یاد کیا جا تا تھا اور ملوں کے دھویں کی وجہ سے دن کو بھی سورج کی روشنی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اب ان ملوں کی یادگار ایک مجسمے کی شکل میں محفوظ کر دی گئی ہے۔ وولکن کے نام سے ۵۶ فٹ کا بلند و بالا مجسمہ ۱۲۴ فٹ کے پیڈسٹل پر کھڑا شہر کے چاروں طرف سے دکھائی دیتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کے اوزار ہیں اور وہ اس دور کی یاد دلاتا ہے جب ان اوزاروں سے مشینری بنانے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس مجسمے کے نیچے ایک میوزیم میں اس دور کی متعدد یادگاریں محفوظ کی گئی ہیں اور مووی کے ذریعے سے اس زمانے کی بھٹیوں میں لوہے کو پگھلانے کا عمل دکھایا جاتا ہے جسے دیکھ کر مجھے گوجرانوالہ کی وہ بھٹیاں یاد آ گئیں جہاں آج بھی اسی طریقے سے لوہے اور تانبے کو پگھلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا آغاز سٹیل ملوں ہی کے حوالے سے ۱۸۷۰ء میں ہوا تھا لیکن ۱۹۲۷ء تک آبادی خاصی بڑھ گئی تو ماحولیاتی مشکلات کے باعث لوگوں کے مطالبہ پر سٹیل ملیں وہاں سے ہٹا لی گئیں۔

اس شہر کی ایک اہمیت سیاہ فام اور سفید فام آبادی میں کشمکش کے حوالے سے بھی ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ نے ۱۹۶۳ء میں سیاہ فام آبادی کے لیے برابر کے شہری حقوق کے حصول کی جدوجہد کا آغاز یہیں سے کیا تھا اور پانچ سال کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں وہ سیاہ فاموں کے لیے ووٹ کے حق کے ساتھ ساتھ برابر کے شہریوں کا استحقاق منوانے میں کامیاب ہو گیا تھا، ورنہ اس سے پہلے سیاہ فاموں کو امریکہ میں ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور کالوں کو گوروں کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ کالوں کی بستیاں گوروں سے الگ تھیں، ان کے ہسپتال، اسکول، ہوٹل، دکانیں اور پارک گوروں سے الگ تھے۔ بسوں میں ان کے لیے الگ سیٹیں ہوتی تھیں اور وہ گوروں کے ساتھ کسی سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہوٹلوں، پٹرول پمپوں اور دیگر بہت سے مراکز پر باقاعدہ بورڈ آویزاں ہوتے تھے کہ سیاہ فام افراد کو یہاں سروس مہیا نہیں کی جاتی۔

سفید فام مذہبی گروپوں کے نقاب پوش جتھے سیاہ فاموں کے چرچوں پر حملے کرتے تھے، انہیں بسوں سے اتار کر قتل کر دیتے تھے اور اتوار کو کسی بھی سیاہ فام کو راستے میں پکڑ کر درخت پر سولی سے لٹکا دیتے تھے اور اردگرد کھڑے تماشا دیکھا کرتے تھے۔ الاباما کے دار الحکومت منٹگمری میں ایک اٹھارہ سالہ سیاہ فام لڑکی روزا پارک بس میں بیٹھی تھی کہ ایک سفید فام شخص بس میں داخل ہوا۔ قانون کے مطابق اس لڑکی کو وہ سیٹ اس سفید فام کے لیے خالی کرنا تھی، مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس پر اسے وہیں سیٹ سے گرفتار کر کے پولیس نے جیل پہنچا دیا۔ اس واقعہ نے منٹگمری کے سیاہ فاموں میں تحریک پیدا کی اور وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

برمنگھم میں سیاہ فاموں کے ایک بپٹسٹ چرچ میں دوران عبادت سفید فاموں کے نقاب پوش جتھے نے بم پھینک دیا جس سے چار جوان بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس سے سیاہ فام آبادی میں اشتعال پھیل گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ کا تعلق ریاست جارجیا کے دار الحکومت اٹلانٹا سے تھا۔ وہ وہاں کا مذہبی راہنما تھا اور سیاہ فاموں کے شہری حقوق کے لیے آواز بلند کیا کرتا تھا۔ برمنگھم کے اس واقعہ کے بعد وہ وہاں پہنچا اور اس چرچ کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے سیاہ فاموں کے لیے برابر کے شہری حقوق کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اسے وہیں سے گرفتار کر کے جیل پہنچا دیا گیا۔ اس مقام پر اب اس کے نام سے پارک ہے اور جس مقام پر کھڑے ہو کر اس نے جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، وہاں اس کا مجسمہ نصب ہے۔ اس کی گرفتاری کے بعد سیاہ فام لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ اس پارک میں مجسموں کے ذریعے سے ان مناظر کو محفوظ کیا گیا ہے کہ کس طرح سیاہ فام نہتے مظاہرین پر خونخوار کتے چھوڑے جاتے تھے اور کس طرح فائرنگ کر کے انہیں منتشر اور ہلاک کیا جاتا تھا۔ ریاستی جبر اور پولیس کے وحشیانہ تشدد کے باوجود مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی تحریک کو پرامن رکھنے اور مزاحمت نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے انڈیا جا کر مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک کا مطالعہ کیا اور اسی کی روشنی میں پرامن جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ اٹلانٹا میں مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم کیے جانے والے میوزیم کے سامنے پارک میں اس حقیقت کے اعتراف کے طور پر مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب ہے۔

مارٹن لوتھر کنگ نے پر امن رہنے، مزاحمت نہ کرنے اور تشدد کو برداشت کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں پورے امریکہ میں سیاہ فام منظم ہونے لگے، ان کی گرفتاریاں ہونے لگیں، جیلیں بھری جانے لگیں اور بالآخر واشنگٹن میں سیاہ فاموں کی ایک بہت بڑی ریلی کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے مارٹن لوتھر کنگ کو مذاکرات کے لیے وائٹ ہاؤس بلایا اور اس سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز کیا۔

مارٹن لوتھر کنگ کی اس پرامن سیاسی جدوجہد کے ساتھ اسے ایک قابل وکیل سٹال ورتھ کی رفاقت میسر آ گئی جس نے یہی جنگ عدالتوں میں لڑی اور مسلسل عدالتی اور قانونی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ سیاہ فام بھی امریکہ کے باشندے ہیں اور سفید فاموں کی طرح برابر کے شہری حقوق کے حق دار ہیں۔

سیاہ فاموں کو ووٹ اور برابر کے شہری حقوق ۱۹۶۸ میں باضابطہ طور پر حاصل ہوئے۔ اس جدوجہد کے مختلف مراحل اور مناظر بلکہ اس سے قبل سیاہ فاموں اور سفید فاموں کی الگ الگ زندگی کے مناظر اور ان کے درمیان مراعات اور سہولتوں کے تفاوت کو برمنگھم اور اٹلانٹا، دونوں جگہ مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم کیے جانے والے اداروں میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور میں نے اس سفر میں افتخار رانا کے ساتھ یہ دونوں میوزیم دیکھے ہیں۔

امریکہ کی موجودہ وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ برمنگھم سے چالیس میل دور ٹسگہ لوسا نامی ایک بستی میں پیدا ہوئیں۔ ٹسگہ لوسا ریڈ انڈینز کے ایک قبیلے کا نام ہے جس کے حوالے سے اس علاقے کا نام ٹسگہ لوسا ہے۔ جب یورپین آباد کاروں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو ریڈ انڈینز کو اسلحے کے زور پر وہاں سے بھگا کر اپنے سیاہ فام غلاموں کو وہاں آباد کیا تاکہ وہ ان کے لیے زمینیں آباد کر سکیں۔ مس کونڈو لیزا رائس انہی سیاہ فاموں میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کو بھی ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے لمبی عدالتی جنگ لڑنا پڑی تھی اور وہ بڑی مشکل سے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں عدالت کے ذریعے سے ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

میں افتخار رانا کے ساتھ اٹلانٹا بھی گیا جہاں مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم میوزیم دیکھا اور اس کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ انسٹیٹیوٹ اور ریسرچ سنٹر بھی گیا۔ اگرچہ دفتری اوقات ختم ہو گئے تھے مگر سنٹر کے ریسیپشن کے عملے نے ہمیں ضروری معلومات فراہم کیں اور سنٹر کے طریق کار کے بارے میں آگاہ کیا۔

افتخار رانا نے مجھے برمنگھم میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے الگ الگ چرچ دکھائے جہاں آج بھی یہ فرق موجود ہے کہ سیاہ فاموں کے چرچ میں کوئی سفید فام نہیں آتا اور سفید فاموں کے چرچ میں کوئی سیاہ فام داخل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے سیاہ فاموں کے ایک بپٹسٹ چرچ میں اتوار کی ہفتہ وار دعا میں شرکت کی اور چرچ کے ذمہ دار حضرات سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ جیمز نامی ایک مسیحی راہنما سے ہم نے شراب کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ شراب ہمارے نزدیک حرام ہے، مگر ہم جنس پرستی کے بارے میں سوال کا جواب دینے میں اس نے ہچکچاہٹ سے کام لیا۔ پہلے امریکی دستور کا حوالہ دیا، پھر انسانی حقوق کے فلسفے کا ذکر کرنے لگا، لیکن جب ہم نے کہا کہ ہم صرف چرچ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو بڑے تردد کے ساتھ اس نے بالآخر یہ کہا کہ چرچ اسے حرام سمجھتا ہے اور اسے condemn کرتا ہے۔

امریکہ کے اس سفر کے تاثرات کے بہت سے پہلو ابھی تشنہ ہیں، مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اگلے سال اگر امریکہ کے سفارت خانے نے ویزا دے دیا اور صحت و توفیق شامل حال رہی تو اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter