بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آزادی مستقل نعمت ہے اور وطن ایک مستقل نعمتِ خداوندی ہے۔ آزادی کیا ہے؟ اس کے حوالے سے ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا جو قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔
سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرورش وقت کے سب سے بڑے اور جابر حکمران فرعون کے گھر میں ہوئی تھی۔ ان کا بچپن اور لڑکپن فرعون کے گھر کے ایک فرد کے طور پر گزرا تھا۔ شاہی محلات تھے، شاہی پروٹوکول اور شاہی سہولتیں تھی، شاہی کھانے اور لباس، سب کچھ جو بھی شاہی محلات میں ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے نبوت سے سرفراز کیا، اور نبوت کا پیغام لے کر اسی فرعون کے سامنے جب دونوں بھائی گئے، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام، تو فرعون نے اس کا طعنہ بھی دیا۔ فرعون نے کہا ’’لبثت فینا من عمرک سنین‘‘ موسیٰ! تم کتنے سال میرے گھر میں رہے ہو۔ ’’وفعلت فعلتک التی فعلت‘‘ (الشعراء ۱۸، ۱۹) جاتے جاتے ایک بندہ بھی مار گئے تھے۔ تو شاہی محلات میں، شاہی پروٹوکول میں، شاہی ماحول میں، شاہی سہولتوں میں رہنا، فرعون نے اس کا طعنہ دیا کہ تم میرے گھر میں رہے ہو اور اب مجھ سے تقاضے کر رہے ہو اور میرے سامنے مطالبات رکھ رہے ہو؟
موسیٰ علیہ السلام نے اس کا بڑا خوبصورت جواب دیا، اسی مجلس میں، فرمایا ’’تلک نعمۃ تمنھا علیّ ان عبدت بنی اسرائیل؟‘‘ (الشعراء ۲۲) فرعون! کون سا احسان جتا رہے ہو؟ کیا احسان تم نے مجھ پر کیا ہے؟ یہی کہ میری قوم کو نسلوں سے غلام بنا رکھا ہے؟ بنی اسرائیل کو، میرے خاندان کو، میری قوم کو تم نے غلام بنا رکھا ہے۔ یہی تمہارا احسان ہے؟
اس کا کیا مطلب ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے لیے سبق دیا کہ زندگی شاہی محلات میں رہنے کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی پروٹوکول کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی سہولتوں کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی کھانے پینے کا نام نہیں ہے۔ زندگی آزادی اور وقار کا نام ہے۔ ایک انسان آزادی کے ساتھ، عزت کے ساتھ، وقار کے ساتھ جو عمر بسر کرے، اس کا نام زندگی ہے، اور انسان اسی لیے دنیا میں آیا ہے۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس کے احسان کو ایک طرف جھٹکتے ہوئے کہا، میں تو یہ مطالبہ لے کر آیا ہوں ’’فارسل معنا بنی اسرآئیل ولا تعذبھم‘‘ (طہ ۴۷) میں اپنی قوم کی آزادی کے لیے آیا ہوں، میری قوم کو اپنے وطن جانے دو، ان کو غلامی کے عذاب میں مبتلا نہ رکھو۔
یہ ہے آزادی۔ آزادی افراد کا بھی اپنے دائرے میں حق ہے، قوموں کا بھی حق ہے، ملکوں کا بھی حق ہے۔ ہم دو سال سے، ایک سو نوے سال سے انگریزوں کی غلامی میں چلے آ رہے تھے۔ پہلے اس پورے جنوبی ایشیا پر، جس میں ہندوستان بھی ہے، پاکستان بھی ہے، بنگلہ دیش بھی ہے، برما بھی ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے، جو یہاں تجارت کے لیے آئی تھی، قبضہ کر لیا۔ ایک سو سال انہوں نے حکومت کی، پھر نوے سال برطانیہ نے براہ راست حکومت کی۔
ہمارے اکابر نے، ہمارے بزرگوں نے اس غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی، جو دو سو سال کی طویل جدوجہد ہے، بے شمار قربانیاں ہیں۔ اس میں عسکری تحریکات بھی ہیں، سیاسی تحریکات بھی ہیں۔ تحریکِ خلافت جیسی، تحریکِ پاکستان جیسی، تحریک آزادی جیسی سیاسی تحریکات بھی ہیں۔ دو سو سال کی طویل جدوجہد کے بعد انگریز نے اس ملک کا اقتدار چھوڑا تھا اور ہم ایک آزاد ملک کے شہری بنے تھے۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم نے جب مطالبہ کیا کہ برصغیر کے مسلمان الگ تہذیب رکھتے ہیں، الگ دین رکھتے ہیں، الگ نظریہ رکھتے ہیں، الگ پہچان رکھتے ہیں، تو ہم الگ ملک چاہتے ہیں۔ ہمارے عقیدہ اور ہماری تہذیب و ثقافت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی پہچان کو قائم رکھیں۔ اور تہذیب اور ثقافت کا تحفظ آج کی دنیا میں بھی قوموں کا مسلّمہ حق مانا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے تشخص کو قائم رکھنے کے لیے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں الگ ریاست چاہیے، تو اس مقصد کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک وجود میں آیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کا دن بھی چودہ اگست ہے، اور انگریزوں کے اقتدار کے خاتمے کا دن بھی چودہ اگست ہے۔
ہمارے لیے یہ دو بڑی نعمتیں ہیں: آزادی مستقل نعمت ہے، پاکستان مستقل نعمت ہے۔ دونوں ہماری زندگی کے مقاصد میں سے ہیں۔ آزادی بھی زندگی کا حصہ ہے، زندگی کی بنیاد ہے، جیسے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ زندگی کھانے پینے کا اور پروٹوکول کا نام نہیں ہے، زندگی آزادی اور عزت و وقار کا نام ہے، بالخصوص قوموں کے لیے۔ اور وطن کے حوالے سے بھی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ وطن تو وطن ہے، بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں اور کہی جا سکتی ہیں، ایک حوالہ دوں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مہاجرین ساتھ تھے، نیا ملک تھا، نیا علاقہ تھا، نیا ماحول تھا، اجنبی لوگ تھے۔ اور ویسے بھی یثرب، جو مدینہ منورہ کا پہلا نام ہے، یثرب موسمی لحاظ سے ٹھیک جگہ نہیں تھی، وبائی علاقہ تھا، باہر سے آنے والوں کو وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آتی تھی۔ اکثر علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ بھی بیمار ہو گئے اور حضرت بلالؓ بھی بیمار ہو گئے اس وبائی اثرات کی وجہ سے۔ اب دونوں بزرگ اپنے وطن کو اپنے اپنے انداز میں یاد کر رہے ہیں۔ وہ اشعار بھی نقل کیے ہیں حضرت عائشہؓ نے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بخار میں، اپنے انداز میں اپنے وطن کو یاد کر کے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، کہ ہم کہاں آگئے ہیں، ہر آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے، ہم اجنبی ماحول میں، پردیس میں ہیں، موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، وہ تو جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے، پتہ نہیں کس وقت موت آجائے، کیسے ماحول میں آجائے۔
اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ تو گھومتے پھرتے تھے اور مکہ کا یاد کر کے روتے تھے، کہتے تھے: ’’وہل اردن یوما میاہ مجنۃ، وہل یبدون لی شامۃ و طفیل‘‘ کیا وہ دن آئے گا کبھی کہ میں اپنے مکہ کے مجنۃ کے علاقے کے چشمے کا پانی دیکھوں گا؟ کبھی میں مکہ کے شامہ اور طفیل کے پہاڑ دیکھ سکوں گا زندگی میں؟ یہ وطن کی یاد آ رہی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ! ہمارے دونوں بزرگ وطن کی یاد میں بے چین ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی:
- ایک دعا تو یہ کی ’’اللھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد‘‘ یا اللہ! جس طرح ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے، مدینہ کی محبت بھی پیدا فرما دے، یا مکہ سے بھی زیادہ کر دے۔ آج بھی میں عرض کیا کرتا ہوں، یہ حضورؐ کی دعا کی برکت ہے کہ مکہ کے ساتھ بھی ہر مسلمان کی محبت اور عقیدت ہے، لیکن مدینہ کا نام آتے ہی مسلمان کے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ یااللہ مدینہ کی محبت مکہ سے بھی زیادہ کر دے۔
- دوسری دعا یہ کی ’’اللھم بارک لنا فی صاعھا ومدھا‘‘ یا اللہ! مدینہ کے پیمانوں میں برکت عطا فرما۔ مدینہ کی تجارت میں برکت عطا فرما۔
- اور تیسری دعا کی ’’وانقل حماھا الی الجحفۃ‘‘ یا اللہ! یہ جو وبا ہے اس کو جحفہ لے جا، بارڈر پر لے جا۔
اللہ پاک نے تینوں دعائیں قبول فرمائیں۔ میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ وطن کی محبت فطری بات ہے، آزادی ہمارا حق ہے، پاکستان ہمارا وطن ہے۔ آج ہم آزادی کے حوالے سے، قیامِ پاکستان کے حوالے سے تقریبات کر رہے ہیں، اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔ آج ہم سے ایک تقاضا آزادی کا ہے اور ایک تقاضا پاکستان کا ہے:
- آزادی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم آزادی کی قدر کریں، اللہ کی نعمت ہے، شکر ادا کریں۔ نعمت کی قدر کی جائے تو اللہ پاک کا وعدہ ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر میری نعمت کا شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، ’’ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ (ابراہیم ۷) اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔ تو سب سے پہلے یہ کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔
- اور دوسری بات یہ ہے کہ آزادی کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی حاصل کر لینا کافی نہیں ہے، دو مرحلے آگے بھی ہیں: آزادی کو مکمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا۔ میں آج یہ سوال سامنے رکھنا چاہوں گا کہ ہم نے آزادی حاصل کی تھی، جن اقوام کے لیے، جن علاقوں کے لیے، کیا سب کو آزادی مل گئی ہے؟ کیا کشمیر آزاد ہو گیا ہے؟ کیا ہمارے نقشے میں پاکستان کا حصہ ہے، ابھی وہ غلامی کے مرحلے میں نہیں ہے؟ تو اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کی تکمیل، پاکستان کی تکمیل۔ ہمارے کشمیری بھائی کس حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ پاکستان کو مکمل کرنا، آزادی کو مکمل کرنا ہمارے اہداف اور مقاصد میں سے ہے۔
- اور تیسری بات کہ پاکستان کس مقصد کے لیے قائم ہوا تھا؟ ہم نے یہ کہہ کر پاکستان بنایا تھا کہ ہم عقیدہ، تہذیب، ثقافت، روایات رکھتے ہیں اور اپنی شناخت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں الگ ملک دیا، یہ بات ہمیں بالکل یاد رکھنی چاہیے، ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا بحیثیت قوم کہ ’’یا اللہ! علیحدہ وطن دے دے، تیرے دین کا نفاذ ہم کریں گے‘‘۔ اللہ نے اپنا کام کر دیا ہے، ہم نے اپنا کام نہیں کیا۔ اللہ نے ہمیں ملک دے دیا ہے، ہم نے ناقدری کی ہے، ہم نے اپنا حصے کا کام نہیں کیا۔
اس لیے میں تین گزارشات کر رہا ہوں: پہلی بات، آزادی اور پاکستان کی دونوں نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا۔ دوسری بات، آزادی اور پاکستان کی تکمیل کے لیے، جس کا بڑا حصہ کشمیر ہے، جدوجہد کرنا۔ اور تیسری بات، آزادی کی حفاظت کے لیے، پاکستان کی حفاظت کے لیے، پاکستان کی سالمیت و وحدت کے لیے، پاکستان کے قیام کا مقصد پورا کرنے کے لیے، اپنے عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی روایات کو نافذ کرنے کے لیے اور ان کے بقا کے لیے جدوجہد کا عزم کرنا، یہ آج کے دن کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیں اس کی تکمیل کے لیے اور اس کی ترقی کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہم صلی علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔