قرآن مجید صرف ماضی کی نہیں مستقبل کی بھی کتاب ہے

   
جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام، جہلم
دسمبر ۲۰۱۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ایک بات جو ہم رواروی میں بسا اوقات کہہ دیتے ہیں، یہ ہے کہ مدارس میں قدیم تعلیم ہوتی ہے اور سکول کالج یونیورسٹی میں جدید تعلیم ہوتی ہے۔ بظاہر تناظر یہی ہے۔ مجھے جدید تعلیم سے انکار نہیں ہے، کالج یونیورسٹی کی تعلیم کا میں بھی قائل ہوں اور اسے قوم اور سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن اس تقابل میں قرآن و سنت کی تعلیم کو قدیم کہنے میں مجھے اشکال ہے۔ علماء بیٹھے ہیں، میں قدیم اور حادث کی بحث میں نہیں جا رہا، قدیم اور جدید کی بحث میں جا رہا ہوں۔ جہاں قدیم اور حادث کی بات ہو گی وہاں قرآن قدیم ہے، یہ ہمارا ایمان ہے۔ لیکن قدیم اور جدید کے حوالے سے میری زبان پر قرآن مجید کے لیے قدیم کا لفظ نہیں چڑھتا۔

قدیم اسے کہتے ہیں جس کا زمانہ گزر چکا ہو، اور جدید اسے کہتے ہیں جو اس کی جگہ نئی چیز آئے۔ کیا قرآن مجید کا زمانہ گزر گیا ہے؟ دیکھیں پاکستان میں تین دستور نافذ ہوئے: ۱۹۵۶ء کا، ۱۹۶۲ء کا، اور اب ۱۹۷۳ء کا ہے۔ پہلے دو ختم ہو گئے اس لیے قدیم دستور ہیں، اور ۱۹۷۳ء کا باقی ہے تو یہ موجودہ دستور ہے۔ تورات کو آپ قدیم کہہ لیں، انجیل کو قدیم کہہ لیں، زبور کو قدیم کہہ لیں، قرآن مجید قدیم نہیں ہے۔ قرآن مجید کل بھی تازہ تھا، آج بھی تازہ ہے، قیامت تک تازہ رہے گا۔ قرآن مجید جب صفا کی پہاڑی پر نازل ہونا شروع ہوا تھا، اس وقت سے لے کر جب قیامت سے پہلے آخری نشانی کے طور پر قرآن مجید کے اوراق سے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے، تب تک قرآن مجید کا زمانہ ہے، اس لیے قرآن مجید کو قدیم اور جدید کے حوالے سے قدیم کہنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔

میں اس سے ایک قدم آگے بڑھوں گا کہ اگر تقابل کرنا ہے تو تھوڑا سا تقابل مزید کر لیا جائے۔ میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا قائل ہوں اور اسے سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن کالج اور یونیورسٹی جو تعلیم دیتے ہیں وہ حال کی تعلیم ہے، جبکہ قرآن مجید مستقبل کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ ہمارے ہاں کالج میں جو سائنس آج پڑھائی جاتی ہے، کیا ایک سو سال پہلے یہی تھی ؟اور ایک سو سال بعد یہی ہو گی؟ یہ حال کی سائنس ہے۔ اسی طرح جو ریاضی پڑھائی جاتی ہے وہ حال کی ریاضی ہے۔ ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی ہے، سو سال پہلے کی ٹیکنالوجی اور تھی، آج کی ٹیکنالوجی اور ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ پچاس سال بعد بھی یہی ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی رہے گی۔ اس لیے اگر تقابل کرنا ہے تو آج ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے یہ حال کی تعلیم ہے، مستقبل میں اس تعلیم کا اس شکل میں باقی رہنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید آج سے ہزار سال پہلے بھی اسی شکل میں تھا، آج بھی اسی شکل میں ہے، اور اگر ہزار سال اور باقی ہیں، جو اللہ کو پتہ ہے، تو ہزار سال بعد بھی قرآن اسی شکل میں رہے گا۔

اس لیے قرآن مجید کے حوالے سے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ قدیم تعلیم نہیں ہے، یہ تو مستقبل کی تعلیم بھی ہے۔ اور اس بات کو آج کا عالمی دانشور بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پہلے بھی کئی بار یہ حوالہ دے چکا ہوں، آج بھی دوں گا، پاپائے روم نے کچھ عرصہ قبل ایک کمیٹی بنائی دنیا کے معاشی نظام کا جائزہ لینے کے لیے۔اس کمیٹی نے رپورٹ دی کہ دنیا کا موجودہ معاشی نظام زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے، اگر دنیا کو صحیح معنی میں کوئی معاشی نظام دینا ہے تو ان اصولوں کو اپنانا ہو گا جو قرآن بیان کرتا ہے۔ آج کی جدید عالمی دانش یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہماری مستقبل کی علمی، فکری، اخلاقی ، روحانی ضروریات اگر کہیں سے پوری ہو سکتی ہیں تو قرآن سے ہو سکتی ہیں۔ اس لیے قرآن مجید تو ایڈوانس سٹڈی ہے، یہ مدرسے مستقبل کی اور آنے والے دور کی ضروریات کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں پورے ایمان کے ساتھ کہتا ہوں کہ آنے والا دور قرآن مجید کا ہے۔ دنیا کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید کے اصولوں کی طرف آئے، سیاست میں بھی، معاشرت میں بھی، معیشت میں بھی، اخلاقیات میں بھی، اور روحانیات میں تو ہے ہی۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن مجید کو قدیم اور جدید کی تقسیم میں نہ ڈالیں، قرآن مجید ماضی کی کتاب بھی ہے، حال کی کتاب بھی ہے، اور مستقبل کی کتاب بھی ہے۔

مغربی دانشوروں سے جب کبھی بات کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ تمہیں تو مدرسے کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جس تعلیم کی ضرورت مغرب آج محسوس کرنے لگا ہے، اس کا تسلسل کون قائم رکھے ہوئے ہے؟ کیا آج عیسائی بائبل پڑھا رہے ہیں سکول یونیورسٹی میں؟ انجیل یا تورات پڑھائی جا رہی ہے؟ قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے اور ان شاء اللہ یہ دنیا کی گلوبل سوسائٹی کے فکری، علمی، دینی، روحانی، اخلاقی تقاضے پورے کرے گا۔

دوسری بات یہ کہ دنیا کے بہت سے لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ دین اس لیے باقی ہے کہ مدرسہ باقی ہے۔ اسی لیے وہ مدرسے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ اس کو محدود کرو، دباؤ میں رکھو، بلکہ ہو سکے تو بند ہی کر دو۔ یہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ مغرب ایک بات سمجھے بیٹھا ہے کہ اس مادر پدر آزاد سوسائٹی کے دور میں دنیا پر غلبے کے راستے میں رکاوٹ صرف دین ہے۔ جب تک یہ دین باقی ہے کم از کم مسلم سوسائٹی میں تو مغرب کا فکری اور ثقافتی غلبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا بریکر ہے۔ دوسرا ان کے ذہن میں یہ ہے کہ دین باقی ہے مدرسے کی وجہ سے، اس لیے دین کو سوسائٹی سے بے دخل کرنے کے لیے مدرسے کو قابو کرو۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ آپ کو مغالطہ ہے۔ قرآن مدرسے کی وجہ سے نہیں ہے، مدرسہ قرآن کی وجہ سے ہے۔ یہ مغالطہ جتنی جلدی دور کر لو بہتر ہے کہ مدرسہ نہیں رہے گا تو قرآن نہیں رہے گا۔ قرآن مجید تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے حوالے ہی نہیں کیا۔ پہلی کتابیں تورات اور انجیل انسانوں کے حوالے کی تھیں ’’بما استحفظوا من کتاب اللہ‘‘ (المائدۃ ۴۴) کہ پڑھو بھی، عمل بھی کرو اور حفاظت بھی کرو۔ ان سے حفاظت کا تقاضا کیا گیا تھا جو وہ نہیں کر سکے۔ قرآن کی باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے حوالے کر رہا ہوں، فرمایا ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ (الحجر ۹)۔ اور قرآن مجید کے دو چیلنج ہیں جو چودہ سال پہلے بھی تھے، آج بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ ایک چیلنج تو وہی ہے جس کا ہم ذکر کرتے رہتے ہیں ’’ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شہداءکم من دون اللہ‘‘ (البقرۃ ۲۳) کہ اس جیسی ایک سورت لے آؤ۔ قرآن مجید کا ایک چیلنج اور بھی ہے کہ ’’انہ لکتاب عزیز۔ لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘‘ (حم السجدۃ ۴۱، ۴۲) باطل قیامت تک دائیں بائیں آگے پیچھے سے جتنا مرضی زور لگا دے اسے قرآن مجید میں گھسنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ یہ ’’کتاب العزیز‘‘ بھی ہے اور ’’کتابٌ عزیز‘‘ بھی ہے۔ یہ غالب کی کتاب تو ہے ہی، خود بھی غالب کتاب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائی ہے اور حفاظت کر رہا ہے۔ آج دنیا میں کس کتاب کے سب سے زیادہ حافظ ہیں؟ چند سال پہلے ایک امریکی ادارے نے سروے کیا اور کہا کہ قرآن مجید کے حفاظ تیرہ ملین (ایک کروڑ تیس لاکھ) ہیں۔کیا یہ قرآن مجید کا اعجاز نہیں ہے؟ قرآن مجید ہے اور یہ رہے گا، اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے اور وہ بے نیاز ہے۔ لندن میں انڈیا آفس لائبریری جانے کا اتفاق ہوا، حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ صاحب کے ساتھ، بڑے باذوق آدمی تھے، ان کا کتابی ذوق تو بہت بلند تھا، ویسے بھی بڑے آدمی تھے، تو وہاں ہم نے ’’مصحفِ عثمانی‘‘ دیکھا جو قرآن مجید کے اوریجنل چار پانچ نسخوں میں سے ایک ہے۔ میں نے اسے خود ہاتھوں میں اٹھا کر دیکھا اور اس پر لکھا ہوا یہ پڑھا ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘ کہ یہ قرآن حضرت عثمانؓ نے لکھا ہے۔ اور میں نے اس پر بادشاہوں کی مہریں دیکھیں، (خلافتِ عثمانیہ کے) سلطان سلیم اول کی، (مغلوں کے) جہانگیر اور شاہجہان کی، (ایران کے) اسماعیل صفوی کی مہریں بھی دیکھیں۔ یہ نسخہ بادشاہوں کے پاس سے ہوتا ہوا آیا ہے۔ میں قرآن مجید ہاتھوں میں اٹھا کر دیکھ رہا تھا، ورق گردانی کر رہا تھا اور آسمان کی طرف میری نگاہ تھی کہ یا اللہ! تو کتنا بے نیاز ہے کہ قرآن مجید کے اوریجنل نسخے کی حفاظت کن لوگوں سے کروا رہا ہے۔ اور وہاں ایک سند موجود ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ قرآن مجید کا یہ نسخہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان نے لکھا تھا اور فلاں فلاں ذریعے سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے اور ہم نے یہاں حفاظت سے رکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا یا اللہ! صرف حفاظت ہی نہیں کر روا رہا اس کی اوریجنلیٹی کی گارنٹی بھی ان لوگوں سے دلوا رہا ہے۔

قرآن مجید کی حفاظت اللہ خود کر رہا ہے اور جب تک قرآن مجید ہے تو مدرسے بھی ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں بھی یہ مغالطہ ہو جاتا ہے کہ ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں، دین کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے، ہم تو قرآن مجید کے ساتھ جڑ کر، دین کے ساتھ وابستہ ہو کر خود اپنی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہم کشتی ٴ نوح میں بیٹھ کر کشتی کو کیا فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ ہم خود اپنا بچاؤ کر رہے ہیں۔ اپنی دنیا کی حفاظت بھی کر رہے ہیں، آخرت کی حفاظت بھی کر رہے ہیں۔ ان کو بھی یہ مغالطہ دور کر لینا چاہیے جو مدرسوں کے پیچھے اس لیے پڑے ہوئے ہیں کہ مدرسہ بند ہو گا تو قرآن مجید کی تعلیم محدود ہو گی۔ اور ہمیں بھی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے، یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم اسباب ہیں، یہ اللہ کی نعمت ہے، ناشکری بھی نہیں ہے، نا قدری بھی نہیں ہے۔ ایک فارسی کا شعر ہے :

منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت

یعنی بادشاہ کی خدمت کا موقع ملتا ہے تو بادشاہ پر احسان مت جتاؤ کہ میں تمہاری خدمت کر رہا ہوں، بادشاہ کا احسان مانو کہ تمہیں اپنی خدمت کا موقع دے رہا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنی نیت اور اپنا رخ صحیح رکھنا چاہیے کہ ہم قرآن مجید کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی حفاظت کر رہے ہیں۔ خدا کی قسم میں تو حق الیقین درجے کی بات کرتا ہوں کہ قرآن مجید کے ساتھ وابستہ ہو کر جتنی عزتیں ملتی ہیں دنیا کی کسی چیز سے نہیں ملتیں۔

پہلی بات میں نے عرض کی تھی کہ قرآن مجید صرف ماضی ہی کی تعلیم نہیں ہے، یہ حال کی تعلیم بھی ہے، مستقبل کی تعلیم بھی ہے، یہ ایڈوانس سٹڈی ہے کہ مستقبل کی ضروریات بھی قرآن پوری کر رہا ہے۔ اور دوسری بات کہ قرآن مجید مدرسوں کی وجہ سے نہیں ہے، مدرسے قرآن مجید کی وجہ سے ہیں، ہم قرآن مجید کی حفاظت نہیں کر رہے، قرآن مجید کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی حفاظت کر رہے ہیں۔

(روزنامہ اسلام، کراچی ۔ ۱۹ جون ۲۰۲۵ء)
2016ء سے
Flag Counter