محمد سلیم سلیمانی کا انٹرویو

   
فیس بک پیج ’’کچھ لمحات سلیمانی کے ساتھ‘‘
۲۵ اپریل ۲۰۲۵ء

(انٹرویونگار کے فیس بک پیج پر ’’فلسطین کے حالات: کچھ چبھتے سوالات‘‘ کے عنوان سے نشر ہونے والا یہ انٹرویو مولانا راشدی کی نظرثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)

محمد سلیم سلیمانی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ناظرین، میں ہوں محمد سلیم سلیمانی اور آپ حضرات دیکھ رہے ہیں پروگرام ’’کچھ لمحات سلیمانی کے ساتھ‘‘۔ ناظرین، حالیہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے فلسطین کا مسئلہ کافی اٹھا ہوا ہے اور فلسطین کے اندر اسرائیلیوں کی طرف سے ایک بربریت کا سماں بنا ہوا ہے، جس پر مسلم امت کے اندر ایک بے چینی سی پائی جا رہی ہے، اور آج ہمارے پروگرام کے اندر موجود ہیں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، جن کا فلسطین کے مسئلے پر کافی گہرا مطالعہ ہے، آج ہم ان سے اسی حوالے سے گفتگو کریں گے۔

حضرت جی بہت شکریہ ٹائم دینے کے لیے۔ حضرت، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطین کا جو مسئلہ ہے، اس کو اگر ہم دیکھیں کہ ایک طرف سے سوال ہوتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں اسرائیلیوں کو بیچی ہیں، اور اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ جرم دار فلسطینی ہیں، اور ہم کہتے ہیں کہ بھئی فلسطینی اس میں مظلوم ہیں، تو کہیں نہ کہیں اگر اس سوال کو دیکھا جائے تو فلسطینیوں نے کہیں نہ کہیں اپنی زمینیں بیچی بھی ہیں۔ اگر اسی کے ساتھ دوسری بات ملا دی جائے کہ اگر بات ایسے نہیں ہے تو فلسطین کے مسئلہ کے اصل عوامل کیا ہیں اور اس کی بنیاد کیا ہے؟

مولانا راشدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ فلسطین کے مسئلہ کے اصل عوامل تو یہ ہیں کہ یہودیوں نے آج سے ایک صدی سوا صدی پہلے فلسطین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم نے یہودیوں سے نہیں لیا تھا، حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہم نے عیسائیوں سے لیا تھا۔ بیت المقدس پر پہلے قبضہ بخت نصر نے (۵۸۶ سال قبل مسیح) کیا تھا، پھر عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے کم و بیش ایک صدی کے بعد طیطس رومی کی قیادت میں قبضہ کیا تھا اور یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا تھا، اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا تھا۔ پھر ایک موقع پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے چھڑوایا، تب سے بیت المقدس مسلمانوں کی تحویل میں ہی چلا آ رہا تھا۔

جب یہودیوں نے یہ فیصلہ کیا تو اس کے لیے پہلے رابطہ کیا سلطان عبد الحمید ثانی سے، جو عثمانی خلیفہ تھے، کہ ہمیں وہاں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ سلطان عبد الحمید ثانی نے کہا کہ نہیں! انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ یہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس وقت پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے پانسہ پلٹا اور برطانیہ سے معاہدہ کیا جس کو ’’بالفور ڈکلیریشن‘‘ کہتے ہیں، کہ آپ ہمیں سپورٹ کریں اور فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تو اعلانِ بالفور میں برطانیہ نے ذمہ داری اٹھائی کہ ہم یہاں یہودیوں کو بسائیں گے۔

اس میں فلسطینیوں کا یہ کردار ضرور ہے کہ انہوں نے ایک مرحلہ میں کچھ زمینیں بیچی ہیں اور علماء کے فتوے کے باوجود بیچی ہیں۔ مفتی اعظم فلسطین نے فتویٰ دیا تھا کہ چونکہ یہودی یہاں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمینیں بیچنا جائز نہیں ہے۔ ہمارے دو بزرگوں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے بھی فتویٰ دیا تھا۔ لیکن وہ بہت محدود سا مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ یا صدر ٹرمپ اس موقف پر قائم ہیں؟ اس وقت اسرائیل نے جتنے علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے، کیا یہ ساری خریدی ہوئی ہیں اس نے؟ یہ تو جنگ کے ذریعے قبضہ کیا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں بھی اور ۱۹۶۷ء میں بھی جنگ کے ذریعے قبضہ کیا تھا اور اب بھی جنگ کے ذریعے ہی سب کچھ کر رہا ہے، اور دھمکیاں دے رہا ہے کہ سارا قبضہ کر لیں گے۔

میرا اقوام متحدہ سے سوال یہ ہے، ٹرمپ سے بھی، کہ جو تم نے فیصلے کیے تھے، کیا اسرائیل ان کو تسلیم کر رہا ہے؟ چلو ہم تسلیم نہیں کر رہے، لیکن اقوام متحدہ نے جو فیصلے کر رکھے ہیں، کیا اسرائیل اس کے مطابق اپنی سرحد تسلیم کرنے کو تیار ہے؟ اس دھاندلی کا کیا جواز ہے کہ اس دھاندلی پر ٹرمپ ان کے پیچھے کھڑا ہے اور اقوام متحدہ اس کے پیچھے کھڑی ہے۔ وہ کسی قانون کو نہیں مان رہے، کسی معاہدے کو نہیں مان رہے، کسی فیصلے کو نہیں مان رہے۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی برادری یا جو بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں، ان کے پاس کوئی اخلاقی، سیاسی، قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ مسئلہ زمینوں کی خریداری کا نہیں، یہ اسرائیل کے قبضے کا ہے، جو انہوں نے ۱۹۴۸ء میں قبضہ کیا تھا، ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا، اور اب قبضہ کیے جا رہا ہے۔ یہ سارا طاقت کے بل پر ہے اور امریکہ کی پشت پناہی پر ہے۔ اس کو خوامخواہ ان سوالات کے ذریعے گول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پہلا اور اصل سوال یہ ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ کی تقسیم جائز تھی؟ چلو بالفرض جائز بھی تھی، تو کیا یہ موجودہ صورتحال اس کے مطابق ہے؟ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جو قراردادیں پاس کر رکھی ہیں، اسرائیل مان رہا ہے ان کو؟ عالمی عدالت نے جو فیصلے کیے ہوئے ہیں، اسرائیل ان کو مان رہا ہے؟ تو اس پر ان کا موقف کیا ہے؟

محمد سلیم سلیمانی: اچھا حضرت، دیکھیں، جیسے آپ نے کہا کہ اسرائیل کے پیچھے امریکہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ امریکہ میں یہودی کنٹرول ہے اور اسرائیل یہودی ہے۔ دوسری طرف عیسائی ہیں تو عیسائی ان سے زیادہ ہیں۔ جبکہ عالمی ماحول پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو بھی پوری دنیا پر یہودیوں کا تسلط قائم ہے۔ تو کیا ان کا یہ تسلط نزولِ عیسٰیؑ تک ہی رہے گا؟

مولانا راشدی: نہیں لڑائیاں چلتی رہیں گی، تسلط ضروری نہیں، روایات کے مطابق ہمارا آخری راؤنڈ ہو گا لُد کے مقام پر جہاں ایک مسیح دوسرے مسیح کو قتل کرے گا۔ اس وقت تک یہ لڑائیاں چلتی رہنی ہیں۔ اس کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحمِ کبریٰ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کا آغاز ہو چکا ہے، اتار چڑھاؤ آتا رہے گا اور سب کچھ ہوتا رہے گا، لیکن ان شاء اللہ فائنل راؤنڈ اس کا ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لُد کے مقام پر مسیح بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام مسیح دجال کو قتل کریں گے اور پھر یہ لڑائی ختم ہو جائے گی۔ یہ لُد تل ابیب کا پرانا نام ہے، وہاں تک جنگ چلنی ہے اور سارے اتار چڑھاؤ کے ساتھ چلنی ہے۔

محمد سلیم سلیمانی: فلسطین کی جو موجودہ صورتحال ہے، جو احادیث کے اندر پیشین گوئیاں ہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ پائی جا رہی ہیں؟

مولانا راشدی: وہ رفتہ رفتہ ہو رہی ہیں۔ ایک تو قرآن پاک نے کہا تھا نا کہ ’’اذا جاء وعد الاٰخرۃ جئنا بکم لفیفا‘‘ (الاسراء ۱۰۴) جب تمہاری آخری باری آئے گی تو ہم دنیا بھر سے تمہیں لپیٹ کر لے آئیں گے۔ لپیٹ کر تو یہ لائے جا چکے ہیں۔ باقی بھی آہستہ آہستہ ان شاء اللہ ہوں گی۔ لیکن اس میں یہ ہے کہ علامتیں اپنی جگہ پر ہیں، لیکن ہمارے فرائض کیا ہیں؟ پیشین گوئیوں کے پردے میں ہم اپنے فرائض کو نہیں بھلا سکتے۔ جو فقہی اعتبار سے شرعی اعتبار سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہم نے وہ پوری کرنی ہے، ہم اس کے مکلف ہیں، ہم پیشگوئیاں پوری کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔

محمد سلیم سلیمانی: اچھا حضرت، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حماس اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، فلسطین کے اندر بھی اگر ہم فلسطینی حکومت کو دیکھیں، یا کچھ لوگ ایسے ہیں، کیونکہ حماس نے خود بھی ایسے لوگ پکڑے ہیں جو حماس کے خلاف سازشیں کر رہے تھے، ان کی خبریں یہودیوں تک پہنچا رہے تھے، یا اسرائیلی فوجیوں تک پہنچا رہے تھے، تو وہاں کے لوگ بھی کچھ خلاف ہیں، ہم بھی یہاں کے کچھ صحافی حضرات کو دیکھتے ہیں کہ وہ بھی حماس کے خلاف بولتے ہیں، یا بعض دانشور حضرات بھی یہ کہتے ہیں کہ بھئی حماس دہشت گرد ہے۔ اور ایک سوچ یہ بھی پائی جا رہی ہے کہ حماس بھی غیروں کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔

مولانا راشدی: دیکھیں، جو جنگ ہمارے سامنے ہے وہ تو یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اور اسرائیل کے ایجنڈے کو روکنے کے لیے وہ محنت کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں، اس ایجنڈے پر ہمیں ان سے کیا اختلاف ہے؟ باقی بہت سی باتیں ہوتی ہیں، کئی باتوں سے اختلاف ہو گا، کئی باتوں سے اتفاق ہو گا، ضروری نہیں کہ حماس کی ہر بات سے متفق ہوں، لیکن اس وقت وہ جس ایجنڈے پر ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کو غزہ میں پیش قدمی سے روکا ہوا ہے، اور غزہ کی آزادی کے لیے اور فلسطین کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، اس موقف میں وہ صحیح ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

محمد سلیم سلیمانی: حضرت، سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۲۱ میں آتا ہے ’’یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم‘‘ تو کچھ لوگ یہاں سے استدلال کرتے ہیں کہ یہاں سے مراد یہ تھا کہ یہودیوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم بیت المقدس کے اندر داخل ہو جاؤ، یہاں کی ملکیت تمہیں ملے گی، تو اس کو اس پر قیاس کر رہے ہیں۔

مولانا راشدی: تورات میں اس وقت جو احکام تھے آج سے دو ہزار سال پہلے، ان کا ہم پر اطلاق ہوتا ہے؟ یعنی یہ کیا بات ہوئی؟ آدم علیہ السلام کے زمانے کی شریعت کے احکام اب نافذ کریں گے آپ؟ آج کے احکام، آج کے احکام ہیں، آج کے قوانین، آج کے قوانین ہیں۔ وہ اُس وقت تھا۔ اور اس وقت تو انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ اب ان کو یاد آیا ہے؟ ’’فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھاھنا قاعدون‘‘ (المائدۃ ۲۴) انہوں نے انکار کر دیا تھا تو انکار سے بات ختم ہوئی۔ اب جس حکم کا وہ انکار کر چکے، اس کے بعد دس دفعہ خراب ہوئے، اب اس حکم کو دوبارہ لے کر کیسے آ سکتے ہیں؟ یہ اُس وقت کی بات تھی۔

محمد سلیم سلیمانی: اچھا حضرت، ایک تو یہ ہے کہ فلسطین کے اندر جو مظالم ہو رہے ہیں، یہ تو کافی عرصے سے ہو رہے ہیں کہ اسرائیل آیا ہے اور غزہ کی پٹی پر ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے بھی حملے کیا کرتے تھے۔ اب جو موجودہ حالات کو اگر ہم دیکھتے ہیں تو اس کو بھی تقریباً‌ ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ تو اب جا کر علماء نے جو فتویٰ دیا ہے تو عام جو سیکولر طبقہ ہے ان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بھئی علماء دیکھتے رہے، دیکھتے رہے، ظلم ہوتے رہے، اب جب غزہ ملیامیٹ ہو گیا، اب کچھ نہ رہا تو اب جا کر وہ جہاد کے فتوے دے رہے ہیں۔

مولانا راشدی: یہ بات بالکل غلط ہے۔ آغاز میں جو سوا سال پہلے (اسلام آباد میں) کانفرنس ہوئی تھی، اس میں بھی جہاد کی بات کی تھی ہم نے۔ یہ یاددہانی کی کانفرنس تھی۔ اس کو یوں تعبیر کریں کہ یہ دوسری کانفرنس یاددہانی کی تھی، جہاد کے فتوے کی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اُس کانفرنس کے بعد ہم نے قوم کو توجہ دلائی تھی، اِس میں حکمرانوں کو توجہ دلائی ہے، حکمرانوں نے جو توجہ نہیں دی تو ان کو یادد ہانی کے لیے کہ فلسطین صرف قوم کا نہیں تمہارا بھی ہے۔ تو ڈیڑھ سال کے بعد جہاد کا فتویٰ نہیں دیا انہوں نے، فتویٰ تو ہمارا پہلے سے موجود ہے۔ کیا پچھلی کانفرنس میں ہم نے جہاد کی بات نہیں کی تھی؟ تو پھر یہ کہاں سے نکال لیا کہ اب جہاد یاد آیا ہے۔

محمد سلیم سلیمانی: اچھا، اسی ضمن میں ایک اور سوال کیا جاتا ہے کہ علماء فتوے دیتے ہیں تو علماء پہلے خود جائیں، ہم بھی پیچھے سے آئیں گے۔

مولانا راشدی: ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں ہم سے کیا معاہدہ کیا ہے انہوں نے؟ یہی کہ جہاد آپ نہیں کریں گے، ہم کریں گے۔ یہی ہم کہتے ہیں کہ فتویٰ آپ نہیں دیں گے، ہم دیں گے۔

محمد سلیم سلیمانی: یعنی فتویٰ ہم نے دے دیا تو جہاد کے لیے آپ کو جانا چاہیے۔

مولانا راشدی: اس میں تو ہمارا ان کے ساتھ معاہدہ ہے، ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں، کہ ہم جہاد کا فتویٰ دیں گے، جہاد آپ کریں گے۔ ہم نے فتویٰ دے دیا، اب کرو نا، یہ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

محمد سلیم سلیمانی: اچھا حضرت، آج مفتی ریاض صاحب کی میزبانی میں آپ کا جو پروگرام منعقد ہوا اس میں جو راولپنڈی کی سرکردہ تنظیمیں ہیں ان کے تاجر حضرات بھی آئے، اس میں آپ نے جو گفتگو کی بائیکاٹ کے حوالے سے، تو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بائیکاٹ بائیکاٹ کا ویسے ہی تم لوگوں نے نعرہ لگایا ہوا ہے، اس کے فوائد کچھ نہیں ہیں۔

مولانا راشدی: میں نے وہاں بھی یہ بات کہی ہے کہ فائدہ یا نقصان کی بات نہیں ہے، غیرت کے اظہار کی بات ہے۔ یہ ہماری ملی غیرت کی بات ہے، قومی حمیت کی بات ہے۔ فائدہ ہو یا نہ ہو، لیکن ایک بارے میں میری غیرت کا تقاضا ہے تو کیا میں فائدہ پہلے دیکھوں گا کہ غیرت کا اظہار کروں گا تو یہ فائدہ یہ فائدہ ہو گا۔ یہ فائدہ اور نقصان کی بنیاد پر نہیں، ملی حمیت کی بنیاد پر، اور اپنا موقف اور اپنی پوزیشن واضح رکھنے کے اعتبار سے ہے۔

محمد سلیم سلیمانی: حضرت، فلسطین کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں کہ عرب ممالک بھی ہیں، دیگر عجم ممالک بھی ہیں، تقریباً‌ ستاون اسلامی ممالک ہیں، فلسطین کے عوام کو اگر ہم دیکھتے ہیں یا دیگر مسلم امت کو دیکھتے ہیں تو ان کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ تو اب تک جو پاکستان کا کردار ہے تو کیا پاکستان نے اس ضمن میں اپنے کردار کا حق ادا کیا ہے؟

مولانا راشدی: پاکستان نے اپنا اصولی موقف تو قائم رکھا ہوا ہے۔

محمد سلیم سلیمانی: جو قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا۔

مولانا راشدی: جو قائد اعظم کا تھا، وہی ہے ہمارا۔ عوام کا بھی وہی ہے، دینی حلقوں کا بھی وہی ہے، ریاست کا بھی وہی ہے۔ لیکن اس موقف کے جو تقاضے ہیں وہ ہمارے حکمران پورے نہیں کر رہے۔ ہم نے فتوے میں یہی یاد دلایا ہے کہ اس موقف کے تقاضے آپ کے ذمے ہیں، اس میں سفارتی جنگ بھی ہے، میڈیا کی جنگ بھی ہے، عالمِ اسلام کو اکٹھا کرنے کی جنگ بھی ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ وہاں ایٹمی حملہ کر دیں، لیکن جو تقاضے بتدریج آپ کے بنتے ہیں، آپ ان کو پورا کریں۔ اور یہ بات درست ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھتی ہے۔ اور پاکستان جو موقف طے کرتا ہے، پاکستان کو اپنی اس حیثیت کا احساس کرنا چاہیے کہ دنیا جب ہماری بات سنتی ہے تو ہمیں بروقت موقف دینا چاہیے۔

محمد سلیم سلیمانی: اچھا حضرت، ایک سوال یہ بھی ہے کہ دیکھیں یہ ذمہ داری تو اب حکمرانوں کی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کریں، حکمرانوں کا انتخاب اگر دیکھیں تو یہ جمہوری ملک ہے، حکمرانوں کا انتخاب ہم نے کیا ہے، اب اگر حکمران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو کیا اس کا وبال، یا یوں کہہ لیں کہ گناہگار اس کے ضمن میں ہم عوام ہوں گے؟

مولانا راشدی: عوام بھی تکلف ہی کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ انتخاب ہم نے کیا ہے، اس تکلف کو چھوڑ دیں۔

محمد سلیم سلیمانی: چھوڑ دیتے ہیں، ٹھیک ہے حضرت، بہت شکریہ، آخر میں، ستائیس اپریل (۲۰۲۵ء) کو مینارِ پاکستان کے اندر جو کانفرنس ہونے جا رہی ہے اس حوالے سے کوئی پیغام۔

مولانا راشدی: دیکھیں، مختلف جماعتیں کام کر رہی ہیں، چھبیس کی ہڑتال کی اپیل جماعتِ اسلامی نے اور تاجروں نے کی ہے، ہم نے مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، ستائیس مارچ کی اپیل حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے ملین مارچ کی ہے، اس کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی فضا بن رہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کر رہے ہیں، اس فضا کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر جو کوئی بھی قدم اٹھاتا ہے ہمیں ساتھ دینا چاہیے، اور ہم قدم اٹھاتے ہیں تو ان سے ساتھ لینا چاہیے، یہ اچھی فضا ہے۔

محمد سلیم سلیمانی: بہت شکریہ حضرت، جزاک اللہ۔

2016ء سے
Flag Counter