(فیس بک چینل ’’اخلاق نشریات‘‘ پر ۲۰ ستمبر ۲۰۲۲ء کو نشر ہونے والی گفتگو)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ٹرانسجینڈر پرسن کے حوالے سے ایک قانون پر کچھ دنوں سے دینی حلقوں میں بحث چل رہی ہے۔ یہ قانون ۲۰۱۸ء میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں پاس ہوا تھا، جس کا عنوان تھا ’’خواجہ سرا اور اس قسم کے دیگر افراد کے حقوق کا تحفظ‘‘ (The Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018) ۔ خواجہ سرا ملک میں موجود ہیں، بہت تھوڑی تعداد میں، لیکن ہیں۔ کچھ اوریجنل ہیں، کچھ تکلف کے ساتھ ہیں، اور کچھ کو تکلف کے ساتھ اب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اللہ رب العزت نے مرد اور عورت دو جنسیں بنائی ہیں، تیسری جنس اللہ نے تو کوئی بنائی نہیں ہے، یہ خواجہ سرا، یا خنثیٰ مشکل، یہ اصل میں معذور افراد ہیں۔ جیسے نابینا معذور ہے، کوئی جنس نہیں ہے۔ بہرا (جو) پیدائشی بہرا ہے، وہ معذور ہے، وہ کوئی الگ جنس نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی گونگا ہے پیدائشی، وہ الگ جنس نہیں ہے، معذور ہے۔ جیسے کان سے محروم، آنکھوں سے محروم، زبان سے محروم، معذور ہیں، معذورین کا ٹائٹل رکھتے ہیں لیکن الگ جنس نہیں ہیں۔
اسی طرح خواجہ سرا بھی معذور افراد ہیں کہ ایک صلاحیت سے اور ایک بات سے وہ محروم ہیں، تو وہ معذورین کے دائرے میں ہیں، اور یہ کوئی الگ جنس نہیں ہے کہ اس کو مستقل جنس کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ ان کے حقوق ہیں، شریعت بھی ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، ان کے معاملات کا فیصلہ کرتی ہے، بڑی تفصیل سے کرتی ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ سن ۲۰۱۸ء میں ایک الگ عنوان دے کر، ایک جنس بنا کر ان کو پیش کیا گیا، ان کے لیے تحفظِ حقوق کے نام سے۔ اصولی غلطی تو یہ تھی کہ خواجہ سرا کوئی الگ جنس نہیں ہیں، معذور افراد کا ایک ٹائٹل ہے، جس طرح گونگے ہیں، بہرے ہیں، نابینا ہیں، لنگڑے ہیں، اس طرح یہ بھی معذور ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ ان کا حق ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس عنوان سے جو قانون سازی کی گئی، اسی ٹائٹل کے مغالطے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی، حالانکہ قومی اسمبلی میں جب یہ قانون پیش ہوا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں دو خواتین ممبران، جمعیۃ علماء اسلام کی نعیمہ کشور صاحبہ نے اور جماعتِ اسلامی کی عائشہ سیدہ صاحبہ نے تفصیل کے ساتھ اس سے اختلاف کیا کہ بھئی یہ شریعت کے خلاف ہے، علماء سے پوچھا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل سے بات کی جائے۔ لیکن اسمبلی کے آخری سیشن میں، جس کے ساتھ اسمبلی ڈیزالو (تحلیل) ہو گئی اور الیکشن کا ہنگامہ شروع ہو گیا، اس میں اس کو رواروی میں پاس کر دیا گیا اس لیے لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی۔ جوں جوں توجہ ہوئی، لوگوں نے پڑھا، انہوں نے اس پہ بات کی کہ یار یہ تو شریعت کے خلاف ہے، اور شریعت کے خلاف ہے تو ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ اس پر کچھ دنوں سے بات چل رہی ہے۔ پہلے بھی حضرات نے لکھا ہے، علماء نے، لیکن توجہ اس وجہ سے نہیں ہوئی کیونکہ:
- ایک تو اسمبلی تحلیل ہو گئی تھی، اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی اس پر تفصیل سے،
- اور دوسری بات یہ ہے کہ ٹائٹل اس کا کچھ معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا تھا، اس ٹائٹل کی ہمدردی کے نیچے سارا کچھ چھپ گیا۔
اب ظاہر ہو رہا ہے تو اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ مختلف دینی حلقے اس پر احتجاج کر رہے ہیں کہ بھئی یہ شریعت کے خلاف ہے۔ مثلاً اس میں یہ کہ ہر شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جو شخص بالغ ہو وہ نادرا (نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) میں درخواست دے تو اپنی جنس خود طے کرے گا کہ میں مرد ہوں یا عورت۔ اور وہ جو طے کر دے گا، نادرا پابند ہے کہ اس کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کرے۔ ایک شخص حلفیہ بیان دیتا ہے نادرا میں کہ میں عورت ہوں، نادرا تحقیق نہیں کرے گی، اس کے حلفیہ بیان پر اس کو عورت کا شناختی کارڈ جاری کرے گی۔ کوئی اپنا حلف نامہ داخل کرتا ہے کہ میں مرد ہوں، نادرا کے ذمے تحقیق نہیں ہے۔
بہت سے ملکوں میں یہ قانون ہے، اور ملکوں میں بھی، لیکن وہاں میڈیکل چیک اپ شرط ہے، کہ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ میں عورت ہوں تو میڈیکل چیک اپ ہو گا۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن خالی دعوے پر حلفیہ بیان پر کہ میں عورت ہوں، نادرا پابند ہے کہ وہ اس کو عورت کا شناختی کارڈ جاری کرے۔ اور پھر تمام قوانین اس شناختی کارڈ کے مطابق لگیں گے:
- حتیٰ کہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص خود کو نادرا میں عورت رجسٹر کروا لیتا ہے، جو بہت مشکل نہیں ہے، صرف حلفیہ بیان کافی ہے، اور وہ کسی مرد سے شادی کرتا ہے تو یہ شادی قانوناً درست ہو گی۔ یہ مرد کی مرد سے شادی ہو گی جو قانوناً درست ہو گی، صرف ریکارڈ کے فرق کے ساتھ۔
- کوئی عورت خود کو مرد لکھوا لیتی ہے تو وہ مرد کی طرح برابر کی وراثت کی حقدار قانوناً ہو گی۔ شرعاً ہے یا نہیں ہے، قانوناً ہو گی۔
یہ بہت سے مفاسد ہیں جو اِس کے سامنے آ رہے ہیں۔ جوں جوں ایک ایک پرت اس کا کھل رہا ہے، اس کی خرابیاں واضح ہو رہی ہیں۔ اس پر کل، گزشتہ روز لاہور میں تمام مذہبی مکاتبِ فکر کا ایک مشترکہ فورم ہے ’’ملی مجلسِ شرعی پاکستان‘‘، اس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ سب شامل ہیں، ہم سب اس میں شریک ہیں، اس قسم کے مسائل آتے ہیں تو اس میں ہم مل کر ایک رائے قائم کرتے ہیں، اس سے متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں، اس پر پھر تھوڑی سی کمپین کرتے ہیں۔ کل جوہر ٹاؤن لاہور میں ہماری مشترکہ میٹنگ ہوئی، اتفاق سے اس ملی مجلسِ شرعی کے مشترکہ فورم کا صدر میں ہوں، الحمد للہ، اور تھوڑی بہت خدمت کی اللہ توفیق دے دیتے ہیں۔ ہم نے کل لاہور میں متفقہ طور پر اس قانون کو مسترد کیا ہے، شریعت کے خلاف قرار دیا ہے، دستور کے خلاف قرار دیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں دو مطالبے چل رہے ہیں:
- اس وقت سینٹ میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد صاحب نے ترمیمی بل پیش کر رکھا ہے کہ اس میں یہ یہ ترامیم کر دی جائیں تو کسی درجے میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی دعویٰ کرتا ہے کہ میں عورت ہوں، تو اس کے دعوے پر اس کو شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جائے، میڈیکل چیک اپ کروایا جائے، یہ ایک مثال ہے۔ تو سینیٹر مشتاق احمد صاحب نے کچھ ترامیم پیش کر رکھی ہیں۔
- ہمارے ایک اور سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن صاحب، جمعیۃ علماء اسلام کے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی ہیں، انہوں نے تو قرارداد پیش کی ہے کہ اس کو منسوخ کیا جائے اور اس کی جگہ متبادل قانون لایا جائے۔
ہم نے کل کے مشترکہ اجلاس میں ان دونوں سینیٹر حضرات کے موقف کی تائید کا اعلان کیا ہے، اور اس قانون کے غیر شرعی اور غیر دستوری ہونے کا اعلان کیا ہے، اور ملک بھر میں اس کے خلاف کمپین چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری تمام مکاتب فکر کے علماء سے، اور صرف علماء سے نہیں وکلاء سے بھی، ڈاکٹر صاحبان سے بھی، آج میں نے ڈاکٹر صاحبان سے رابطہ کیا کہ میڈیکل فورم سے بھی یہ بات آنی چاہیے کہ وہ کیا کہتے ہیں اس بارے میں، کہ جو اپنے آپ کو عورت کہہ دے وہ عورت ہے، اور جو مرد کہہ دے وہ مرد ہے؟
تو بہرحال، یہ ہم نے کل اجتماعی فیصلہ کیا ہے، اس کے مطابق ہم ملک میں ایک کمپین کا آغاز کر رہے ہیں، تو میں سب حضرات سے، علماء، وکلاء، تجار، جو بھی قوم سے ملت سے تعلق رکھتا ہے، جس کا بھی قرآن و سنت پر، شریعت کے احکام پر یقین ہے، اس سے درخواست ہے کہ اس میں شریک ہو، تعاون کرے، اللہ پاک ہم سب کو مل جل کر اپنے ملک کے قوانین کو مغرب کی تہذیب کے منحوس اثرات سے بچا لینے کی توفیق عطا فرمائے، اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔