(بعد نمازِ عصر ہفتہ وار درس کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ’’ولا تکن للخائنین خصیما‘‘ اور ’’ولا تجادل عن الذین یختانون انفسھم‘‘ (النساء ۱۰۵، ۱۰۷) جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ آپؐ خیانت کاروں کی طرفداری نہ کریں اور ان کی وکالت نہ کریں۔ مفسرین کرامؒ نے اس کا شانِ نزول ایک خاص واقعہ کو قرار دیا ہے جو مختلف محدثین کرام اور مفسرین عظامؒ نے اپنے اپنے انداز میں ذکر فرمایا ہے۔
تفسیر مظہری میں حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر بغوی کے حوالہ سے یوں ذکر کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں عام لوگوں کی خوراک کھجور اور جو ہوتی تھی۔ گندم کی روٹی خاص خاص لوگوں کو ہی میسر ہوتی تھی جو شام یا دوسرے مقامات سے آنے والی گندم خرید کر پسوا کر رکھ لیتے تھے اور اس کی روٹی کبھی کبھی کھایا کرتے تھے۔ حضرت قتادہ بن نعمانؓ کے چچا حضرت رفاعہ بن زیدؓ نے اپنے گھر کے چوبارے میں گندم کا آٹا ایک کمرے میں سٹور کر رکھا تھا جس کے ساتھ ان کے جنگی ہتھیار بھی رکھے رہتے تھے۔ ایک دن کسی نے ان کے چوبارے میں نقب لگا کر آٹا اور ہتھیار چوری کر لیے۔ معلوم ہونے پر تلاشی ہوئی تو اندازہ لگایا گیا کہ قریب ہی طعمہ بن ابیرق اور ان کا خاندان رہتا ہے جو کلمہ تو پڑھتے تھے مگر ان کا شمار منافقین میں کیا گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کے گھر میں رات چولہا جلتا رہا ہے اس لیے آٹا انہوں نے ہی چوری کیا ہو گا۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور قسمیں اٹھائیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ محلہ میں رہنے والے ایک یہودی کے بارے میں کہا کہ شاید اس نے یہ حرکت کی ہے۔ جبکہ ہوا یہ تھا کہ طعمہ نے رات ہی چوری کیا ہوا سامان اس یہودی کے پاس لے جا کر بطور امانت رکھوا دیا تھا، اور اتفاق سے آٹے کی بوری میں سوراخ ہونے کے باعث پورے راستے میں آٹا گرنے کے نشانات بھی موجود تھے، یعنی کھوج اس یہودی کے گھر جاتا تھا۔
اس لیے جب رفاعہؓ کے خاندان کے لوگ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ناراضگی کا اظہار کر دیا کہ خواہ مخواہ ایسے لوگوں پر الزام کیوں لگاتے ہو؟ حضرت قتادہ بن نعمانؓ فرماتے ہیں کہ ہم بہت پریشان ہوئے کیونکہ صورتحال درحقیقت مختلف تھی اور معاملہ سارے کا سارا چوری کرنے والوں کی بجائے اس یہودی کے کھاتے میں پڑ رہا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیات نازل فرما دیں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات تو یہ فرمائی کہ ’’ولو لا فضل اللہ علیک ورحمتہ‘‘ (النساء ۱۱۳) اگر اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل اور رحمت نہ ہوتی تو منافقوں کا یہ گروہ آپ کو اپنی باتوں سے متاثر کر چکا تھا، لیکن چونکہ وحی کا سلسلہ جاری ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حقیقتِ حال واضح فرما دی ہے کہ اس معاملہ میں مذکورہ یہودی قصور وار نہیں ہے بلکہ چوری ان منافقوں نے ہی کی ہے اور اسے خواہ مخواہ یہودی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ خیانت کاروں کی طرفداری نہ کریں اور ان کی طرف سے وکالت نہ کریں، جس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلا کر قرآن کریم کے ارشادات سنائے اور اصل صورتحال کی وضاحت فرما دی۔
یہ واقعہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری معاشرتی خرابیوں میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم صورتحال معلوم کیے بغیر کسی گروپ کے طرفدار بن جاتے ہیں اور اسی کی وکالت شروع کر دیتے ہیں جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، جبکہ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ اگر یہودی بھی کسی معاملہ میں بے گناہ ہو تو اس کو خواہ مخواہ پھنسانے کی کوشش نہ کرو اور اصل مجرم تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احوال کی اصلاح اور کوتاہیوں کی تلافی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔