قرآن مجید کا تعارف اور موضوع کیا ہے

   
ادارۃ الحسنات میڈیا آفیشل
۵ جولائی ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ادارۃ الحسنات کا تقاضہ ہے کہ قرآن مجید کے ترجمہ اور تشریح کے حوالے سے کچھ تسلسل کے ساتھ پروگرام کا آغاز کیا جائے۔ ہمارے عزیز حافظ عمر فاروق بلال پوری میرے بہت اچھے ساتھی ہیں، ساری ٹیم ما شاء اللہ بڑی متحرک اور اچھی ٹیم ہے۔ آج اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اب میری عمر کا یہ مرحلہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ شروع کریں گے تو پتہ نہیں مکمل ہو گا یا نہیں ہو گا، لیکن کارِ خیر ہے، انکار بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے آج گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں، جب تک اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، جتنی توفیق دی، کچھ نہ کچھ ہر ہفتے کو گزارشات پیش کر دیا کروں گا، قرآن مجید کے ترجمے کے حوالے سے اور ہلکی پھلکی وضاحت کے حوالے سے۔ آج کی تمہیدی گفتگو میں دو باتیں عرض کروں گا۔ ایک یہ کہ قرآن مجید کا تعارف کیا ہے؟ اور دوسرا قرآن مجید کا موضوع کیا ہے، ایجنڈا کیا ہے؟ یہ دو باتیں آج عرض کروں گا، باقی پھر سہی ان شاء اللہ العزیز۔

قرآن مجید کا تعارف قرآن مجید نے خود بالکل آغاز میں کیا ہے ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدً‌ی للمتقین‘‘ (البقرۃ ۱، ۲) یہ کتاب جو شک و شبہ سے بالاتر ہے، ’’ھدً‌ی‘‘ ہے۔ ھدً‌ی: ڈائریکشن، رہنمائی۔ یہ ھدً‌ی کی وضاحت بھی قرآن مجید نے خود کی ہے۔ اسی سورت (البقرۃ ۲۴، ۳۸، ۳۹) میں آگے چل کر یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جب آدم علیہ السلام کو اور حوا علیہا السلام کو جنت سے زمین پہ بھیجا تھا تو دو تین باتیں ابتدا میں فرما دی تھیں۔

’’اھبطوا منھا جمیعا‘‘ جنت سے زمین پر اتر جاؤ، کچھ عرصہ تک وہاں رہو گے۔ اس کے اصولی متعلقات بھی ساتھ ہی بیان کر دیے تھے۔ ایک تو یہ کہا تھا ’’بعضکم لبعض عدو‘‘ جب تک زمین پہ رہو گے آپس میں لڑتے ہی رہو گے، تمہاری آپس کی دشمنیاں چلتی رہیں گی۔ اور ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین‘‘ تمہارے لیے زمین میں مستقر، رہنے کی جگہ بھی ہو گی، متاع، زندگی کے اسباب بھی ہوں گے، لیکن ’’الیٰ حین‘‘ ایک مدت تک، ہمیشہ کے لیے نہیں۔

پہلی بات یہ فرمائی کہ تمہارا آپس میں جھگڑا چلتا رہے گا، دوسری بات یہ فرمائی کہ رہنے کی جگہ ٹھکانہ ملے گا۔ زمین تمہارے رہنے کی جگہ ہے، زندگی کے اسباب، کھانا پینا، چلنا پھرنا، میسر ہوں گے۔ لیکن یہ سب کچھ کیا ہو گا؟ ’’الیٰ حین‘‘ ایک مدت تک۔ ایک فرد کا حین ساٹھ سال، ستر سال، اسی سال۔ ایک نسل کا حین بیس سال، پچیس سال، تیس سال۔ اور کائنات کا حین قیامت تک۔ نہ اللہ رب العزت نے فرد کو بتایا ہے کہ کتنا رہنا ہے، یہ کہا ہے کہ مدت ہے، جو نہ کسی فرد کو بتائی ہے، نہ نسلِ انسانی کو بتائی ہے۔ موت بھی اچانک آتی ہے، قیامت بھی اچانک آئے گی۔

یہ باتیں فرما کر ’’اما یاتینکم منی ھدی‘‘ میری طرف سے ہدایات آئیں گی۔ تمہارا دنیا میں رہنے کا ایجنڈا کیا ہو گا؟ ’’من تبع ھدای‘‘ جس نے میری ہدایات کی پیروی کی ’’فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ وہ خوف اور غم سے نجات پائیں گے اور اپنے پرانے گھر واپس آئیں گے جنت میں۔ ’’والذین کفروا و کذبوا باٰیاتنا‘‘ جنہوں نے انکار کر دیا، ہمارے احکام کو جھٹلا دیا، ان کے لیے ایک اور ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔

یہ ساری نسل انسانی کی زندگی کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ اور قرآن مجید کا یہ جو ھدً‌ی ہے کہ میری طرف سے ہدایات آئیں گی، ظاہر بات ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے ذریعے، آدم علیہ السلام سے بات شروع ہوئی، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی آتی رہی۔ کتابیں بھی آئیں، صحیفے بھی آئے، احکام بھی آئے، بہت سی باتیں آئیں، پیشین گوئیاں بھی ہوئیں، تو وہ ہدایات جو انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے ذریعے وقتاً‌ فوقتاً‌ نازل ہوتی رہیں، اس کا آخری ایڈیشن قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید کے بعد اب تک کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، نہ قیامت تک نازل ہو گی، تو یہ وحی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے تعارف کی پہلی بات یہ ہے کہ وہ ھدً‌ی جو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام سے کہا تھا کہ میں ہدایات بھیجتا رہوں گا، وہ ہدایات آتی رہیں اور اس کا مکمل، فائنل اور آخری ایڈیشن قرآن مجید ہے۔

قرآن مجید نے اس کے بعد اپنا ایک تعارف اور کروایا ہے۔ اللہ رب العزت نے ایک مقام پر اس وحی کا تسلسل بیان کیا، کتابوں کا تسلسل بیان کیا، فرمایا ’’انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدً‌ی و نور‘‘ (المائدۃ ۴۴) ہم نے توراۃ نازل کی تھی، ہدایت بھی تھی، نور بھی تھا، برکت بھی تھی۔ پھر فرمایا کہ زبور نازل کی، انجیل نازل کی، اور سب سے آخر میں قرآن مجید نازل کیا۔ ’’انزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ‘‘ (المائدۃ ۴۸) قرآن مجید نے خود کو آخری کتاب قرار دیا، پہلی کتابوں کی تعلیمات کا مصدق قرار دیا کہ میں پہلی کتابوں کی اصل تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہوں، نفی کرنے والا نہیں ہوں۔ اور صرف تصدیق کرنے والا نہیں، ’’ومھیمنا علیہ‘‘ ان تعلیمات کا محافظ بھی ہوں۔ یہ قرآن مجید نے اپنا تعارف کروایا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی تمام تعلیمات کا نچوڑ، خلاصہ، فائنل ایڈیشن، اور تمام انبیاء کی تعلیمات کا محافظ قرآن مجید ہے۔

پھر قرآن مجید نے انسانی سوسائٹی کے لیے اپنا ایجنڈا بیان کیا، میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید میں توراۃ کا ذکر ہے، بڑی پہلی کتاب وہ تھی ’’انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور‘‘ ہم نے توراۃ نازل کی، ہدایت بھی تھی، رہنمائی اور روشنی بھی تھی ’’یحکم بھا النبیون‘‘ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات اس کے مطابق حکم کرتے تھے، فیصلے کرتے تھے، لوگوں کے معاملات طے کرتے تھے، رہنمائی کرتے تھے، یہ حکم کی کتاب ہے، فیصلوں کی کتاب ہے۔ توراۃ کا ذکر ہوا تو وہاں یہی فرمایا کہ ’’یحکم بھا النبیون‘‘ یہ حکم اور قانون کی کتاب ہے۔ پھر زبور کا ذکر ہوا، داؤد علیہ السلام پہ نازل ہوئی تھی، داؤد علیہ السلام سے یہ کہا ’’یا داوٗد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق‘‘ (ص ۲۸) ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے، اس لیے بنایا ہے کہ لوگوں کے فیصلے حق کے ساتھ، وحی کے ساتھ، آسمانی تعلیمات کے ساتھ کریں آپ۔ پھر انجیل کا ذکر کیا ’’ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ‘‘ (المائدۃ ۴۷) ہم نے انجیل نازل کی اور انجیل والوں کو یہ حکم دیا کہ وہ بھی اس کے مطابق فیصلے کریں گے۔ سوسائٹی کے ضابطے، قانون، حکم؛ توراۃ، زبور، اور انجیل۔ جب قرآن مجید کا ذکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ ’’وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینھم بما انزل اللہ‘‘ (المائدۃ ۴۸) آپ بھی اس کے مطابق حکم کریں گے، فیصلے کریں گے، اس کو نافذ کریں گے۔

گویا انسانی سوسائٹی کا عملی ایجنڈا کیا ہے؟ یہ آسمانی تعلیمات ہیں۔ توراۃ تھی، زبور تھی، انجیل تھی، اب قیامت تک کے لیے کیا ہے؟ قرآن مجید ہے۔ پورا تسلسل بیان کیا ہے۔ اور اس کی تشریح ایک مقام پر یوں کی: ’’ثم جعلناک علیٰ شریعۃ من الامر فاتبعھا ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون‘‘ (الجاثیۃ ۱۸) اللہ رب العزت نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا، تسلسل بیان کرتے ہوئے انبیاء کرامؑ کا، ہم نے آخر میں آپ کو شریعت پر یعنی احکام کے قوانین کے ضوابط کے مجموعے پر آپ کو کھڑا کیا، کہ اس کی پیروی کرنی ہے آپ نے۔ ’’ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون‘‘ جو لوگ علم نہیں رکھتے، جانتے نہیں ہیں، ان کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلنا آپ نے۔ قرآن مجید کا ایجنڈا یہ بتایا کہ قرآن مجید نے انسانی سوسائٹی پہ حکم اور قانون کے طور پر نافذ ہونا ہے۔ یہ قرآن مجید کا تعارف ہے جو خود قرآن مجید نے کیا ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، مکہ مکرمہ میں غارِ حرا سے آغاز ہوا، پہلا دور تھا تبلیغ کا، لیکن اس دعوت و تبلیغ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عملی نفاذ کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے، لمبی تاریخ ہے، حضورؐ نے مختلف اقوام اور قبائل کو دعوت دی، صرف یہ نہیں کہ دین قبول کرو، بلکہ دین کی عملی تنفیذ کا موقع دو۔ طائف بھی اسی لیے گئے تھے، دنیا کے، عرب کے دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ اس تیرہ سال کی محنت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید عملی طور پر سوسائٹی میں نافذ کرنے کے لیے مدینہ منورہ میں ماحول میسر آیا، حضورؐ ہجرت کر کے تشریف لائے اور دعوت و تبلیغ اور عبادات کے ساتھ تنفیذ کا کام آتے ہی شروع کر دیا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آتے ہی مدینہ منورہ اور اس کے گرد ماحول میں ریاستِ مدینہ قائم ہوئی، جو آہستہ آہستہ پھیلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نو دس سال میں پورے جزیرۃ العرب کا احاطہ کر چکی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ہیں تو یہ ایک سمندری پٹی تھی، چھوٹا سا علاقہ تھا، اور جب دس سال کے بعد حضورؐ کا وصال ہوا ہے تو جزیرۃ العرب اس کے کنٹرول میں تھا۔

قرآن مجید اللہ کی وحی کا نام ہے، قرآن مجید آسمانی تعلیمات کے خلاصے اور نچوڑ کا نام ہے، اور اس کا ایجنڈا سوسائٹی پر حکم اور قانون کا ماحول قائم کرنا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا، آپؐ سے پہلے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات نے قائم کیا۔ آج دنیا آسمانی تعلیمات سے منحرف ہو گئی ہے، آج پھر قرآن مجید کا ایجنڈا یہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کو سوسائٹی میں عملاً‌ واپس لایا جائے اور آسمانی تعلیمات کی عملداری قائم کی جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس مقصد کے لیے اپنے اپنے دائرے میں کچھ نہ کچھ محنت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

2016ء سے
Flag Counter