(پنجاب یونیورسٹی لاہور کے کلیہ علومِ اسلامیہ شیخ زاید اسلامک سنٹر کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان ’’القدس اور ملتِ اسلامیہ کی ذمہ داریاں‘‘ سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں شکرگزار ہوں پنجاب یونیورسٹی کا اور شعبۂ علومِ اسلامیہ کا، کہ القدس کے اہم ترین مسئلے پر اصحابِ فکر و دانش کی اس محفل میں مجھے بھی شرکت کا موقع فراہم کیا، بہت سے اصحابِ دانش کے ارشادات سنے، کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائیں اور ہم سب کے لیے اس مسئلے پر اپنا رخ، اپنا کردار اور اپنا عمل صحیح کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
مجھے جس عنوان پر گفتگو کے لیے کہا گیا ہے وہ ہے ’’القدس اور پاکستان کی ذمہ داری‘‘۔ میں اپنی گفتگو کا آغاز؛ ابھی دو تین روز پہلے پاکستان تشریف لانے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی [کے اجلاس نمبر ۷۵] کے صدر وولکن بوزکر نے اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس منسٹری کے سیمینار سے خطاب کیا ہے، ہمارے صدر محترم جناب عارف علوی صاحب سے ملاقات کی ہے، اور فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کیا ہے، میں ان کے دو جملوں سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہوں گا۔ تازہ ترین ہیں، پاکستان میں کہے گئے ہیں، اور جنرل اسمبلی کے صدر نے کہے ہیں۔
- پہلی بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ اقوام متحدہ کی بے عملی، فلسطین کے مسئلے پر بھی اور کشمیر کے مسئلے پر بھی، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے لیے ساکھ کو خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ میں جنرل اسمبلی کے صدر کی زبان سے ان کا یہ اعتراف، میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
- دوسری بات انہوں نے کہی ہے کہ فلسطین کے علاقے جو اسرائیل نے قبضہ کر رکھے ہیں، ان کو آزاد کرانے کے لیے، اور اسرائیل کا قبضہ چھڑانے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔
یہ دو جملے انہوں نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر کہے، میں یہاں سے گفتگو کا آغاز کروں گا کہ فلسطین کی، فلسطین سے زیادہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ معروضی صورتحال کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے، ہم کیا کر رہے ہیں، اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
معروضی صورتحال یہ ہے، ایک تو ایمانی باتوں پر ایمانی تقاضوں پر مجھ سے پہلے فاضل مقررین بہت خوب باتیں کر چکے ہیں، میں اس کو دو جملوں میں سمیٹنا چاہوں گا کہ قرآن پاک نے یہ فرمایا ہے ’’لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیھود والذین اشرکوا‘‘ (المائدۃ ۸۲) یہودی مسلمانوں کی دشمن ترین قوم ہے، اور اب تک چلی آ رہی ہے۔ اور دوسری بات جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو انہوں نے یہودیوں کے حوالے سے، مستقبل کے حوالے سے، پیشگوئیوں کی صورت میں، قیامت سے پہلے مسلم یہودی کشمکش کی صورت میں، اور بیت المقدس کے حوالے سے بیان فرمائے ہیں، وہ ہماری ایمانی اساس ہیں۔ اصل مسئلہ تو ہمارا ایمان کا ہے، یقین کا ہے، قرآن پاک کے ارشادات کا ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا ہے۔ اور وہ کشمکش تب تک رہے گی جب تک معاملات نمٹ نہیں جاتے، ہمارے عقائد کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول ہو گا، امام مہدیؒ کا ظہور ہو گا، اور ایک فیصلہ کن راؤنڈ ہو گا، اس کے بعد پھر صورتحال صحیح رخ پہ آئے گی۔ یہ تو ہمارا ایمانی پہلو ہے اور بالکل ایمان اور یقین کے ساتھ ہم اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ایک معروضی صورتحال ہے، معروضی صورتحال اس وقت، جس کی طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر اشارہ کیا ہے، میں اس کے حوالے سے دو تین گزارشات کرنا چاہوں گا۔
❶ فلسطین کے حوالے سے اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اس وقت چار موقف میرے خیال میں بین الاقوامی فورم پر ہیں:
- ایک موقف تو ہمارا ہے، سعودی عرب کا ہے، فلسطین کے عوام کا ہے، اور ان سب سے پہلے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور کا تھا، جو انہوں نے اسرائیل کے قیام کے وقت فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اس کا وجود ہم تسلیم نہیں کرتے۔ ایک موقف تو یہ ہے اور اب تک ہمارا اصولی موقف یہی ہے۔
- دوسرا موقف، اقوام متحدہ کی تقسیم [۱۹۴۷ء] جو اقوام متحدہ نے کی تھی، دو ریاستی حل، وہ چل رہا ہے۔
- تیسرا موقف ۱۹۶۷ء کے اسرائیل کے حملے کے بعد جن علاقوں پہ قبضہ کیا اسرائیل نے، اور بیت المقدس بھی اسی میں شامل ہے، ابھی ہمارے بھائی کہہ رہے تھے کہ اصلاً تو یہ اردن کی تحویل میں تھا اور اردن کے بادشاہ اس کے متولی تھے۔ یہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے جو علاقے قبضہ کیے تھے، ان علاقوں کو خالی کرنے کی صورت میں، [اس کی] شرط پر بعض حضرات نے تسلیم کر رکھا ہے۔ یہ تیسرا موقف ہے۔
- لیکن اس سے آگے بڑھ کر بیت المقدس، یروشلم، جو متنازعہ تسلیم کیا جا رہا ہے، امریکہ ایک نئے رخ پہ بات ڈالے ہوئے ہے کہ وہاں اپنے سفارتخانے کا قیام کر کے یروشلم کو اسرائیل کا قانونی حق تسلیم کروانے کے لیے امریکہ اپنا زور استعمال کر رہا ہے۔ یہ ایک چوتھا موقف ہے۔
آج کل عمومی جمہوری موقف دنیا کا یہی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین، دو ریاستی حل، یہ میرا موقف نہیں ہے، میں لیکن دنیا کا عمومی موقف عرض کر رہا ہوں۔ میرا موقف وہی ہے جو قائد اعظم کا تھا، اور وہی ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کا اس وقت اصولی موقف ہے۔ لیکن بہرحال ایک موقف یہ بھی ہے۔
اس تناظر میں ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ پہلی ذمہ داری تو ہماری بحیثیت مسلمان کے ہے، قرآن پاک کے ارشادات کے حوالے سے ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے حوالے سے ہے، کہ ہم خود کو اس تاریخی تناظر سے اور اس متوقع مستقبل، نہیں، یقینی مستقبل سے ہم خود کو الگ نہیں کر سکتے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے؛ اور ہمیں اس پر قائم رہتے ہوئے اپنا کردار، اپنا عمل، اپنا ورک طے کرنا ہے۔ یہ تو ہمارا اصولی موقف ہے۔ لیکن دو تین باتیں ہمیں اس کے ساتھ معروضی صورتحال میں بھی [دیکھنی ہیں]۔
قائد اعظم مرحوم نے جو یہ کہا تھا، اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اب تک ہمارا سرکاری موقف یہی ہے، لیکن اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں اس طرف سب سے پہلے توجہ دلانا چاہوں گا کہ پاکستان کے اس موقف کو، جو قائد اعظم کا موقف ہے، اور جو امتِ مسلمہ کا اجتماعی موقف ہے، اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے اہلِ علم کو، پاکستان کے اہلِ دانش کو اس کمزوری کو روکنا ہو گا جو مختلف جہات سے اندر آ رہی ہے اور ہمارے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں مضبوطی کے ساتھ قائد اعظم مرحوم و مغفور کے اس موقف پہ کھڑا ہونا ہو گا، ہم کھڑے تو ہیں لیکن کھڑے رہنا ہو گا، کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
❷ دوسری بات، مسجدِ اقصیٰ کی حرمت، تقدس، ہمارے ایمان اور یقین کا مسئلہ ہے، ہمارے ایمانی جذبات کا مسئلہ ہے، اس کی حرمت اور تقدس کے لیے عالمِ اسلام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہو گا۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں معروضی حقائق سے خود کو الگ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نہ اپنا ماضی نظرانداز کر سکتے ہیں، نہ فلسطین کا ماضی نظرانداز کر سکتے ہیں، نہ بیت المقدس کا ماضی نظرانداز کر سکتے ہیں۔ ہمیں امتِ مسلمہ کو، ہمیں یہ بات نوٹ کر لینی چاہیے، میں پاکستان کے حوالے سے یہ بات کرنا چاہوں گا، کہ پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس سے کسی حوالے سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا، اس کی کوشش ہو رہی ہے۔
ہمارا تہذیبی اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟ ہم نے آزادی کی مسلح جنگیں فتوے کی بنیاد پر لڑی ہیں، اور جو پر اَمن تحریکِ آزادی تھی وہ خلافت کی بنیاد پر شروع کی تھی ہم نے۔ ہم اپنے اس ماضی سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس برصغیر کی آزادی کی جو مسلح جنگیں تھیں، جہاد کے عنوان سے، وہ فتووں کی بنیاد پر تھیں، جس کی بیس مذہب پر ہے۔ اور ہم نے جب پراَمن جدوجہد کا آغاز کیا ہتھیار کے بغیر، سیاسی جدوجہد کا، اس کا نقطۂ آغاز تحریکِ خلافت ہے، مولانا محمد علی جوہرؒ ہیں، مولانا شوکت علیؒ ہیں، ہم اپنے اس پس منظر سے خود کو کیسے الگ کر سکتے ہیں۔
اور پھر پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر، مسلم تہذیب کی شناخت پر، مسلم تہذیب کے امتیاز پر، مسلم تہذیب کے احیا کے لیے، مسلم تہذیب کو دنیا سے دوبارہ روشناس کرانے کے لیے، یہ ہماری اساس ہے۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے نظریاتی ماضی سے، پس منظر سے، اور بنیادوں سے الگ ہونے کی کوششیں کرنے کی بجائے اس پر مضبوطی سے کھڑا ہونا ہو گا۔ اور اس نظریاتی اساس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے جو کچھ ہم کر سکتے ہوں اس سے گریز نہ کریں۔ میں یہ نہیں تجویز کر رہا کہ یہ کریں، جو ہم کر سکتے ہیں، اللہ پاک بھی ہمیں اپنی وسعت اور دائرے کے مطابق [مکلف بناتے ہیں]۔
لیکن عالمِ اسلام کیا نہیں کر سکتا؟ دوسرا سوال میرا یہ ہے۔ عالمِ اسلام اگر متحد ہو جائے، او آئی سی اگر سیریس ہو جائے، میرا ایک ہی سوال ہے، او آئی سی صرف سیریس ہو جائے، عالمِ اسلام کے مسائل پر، فلسطین کے مسئلے پر، مسجد اقصیٰ کے مسئلے پر، کشمیر کے مسئلے پر، عالمِ اسلام کی وحدت پر، عالمِ اسلام کے تہذیبی تحفظ پر، اگر سیریس ہو جائے تو ہم کیا کچھ نہیں کر سکتے؟ میں سمجھتا ہوں کہ صرف ہمارا سیریس نہ ہونا، بلکہ ہمارا اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا، یہ ہمارے المیے کی بنیاد ہے۔ تو ہمیں، پاکستان کو یہ کرنا چاہیے کہ او آئی سی اور عالمِ اسلام، مسلم امہ۔ مسلم امہ پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، مسلم امہ پاکستان کی طرف نگاہیں اٹھا کر ٹکٹکی لگا کے دیکھ رہی ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر کیا کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں وہ کردار نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کرنا ہو گا۔ میں یہ بات عرض کروں گا کہ ہمیں وہ بالآخر کرنا ہو گا، ہم اس کردار سے خود کو الگ نہیں کر سکتے، جو مرضی کر لیں، آج سے بیس سال بعد کریں، دس سال بعد کریں، آج کر لیں، ہمیں اپنا تہذیبی اور نظریاتی اساس پر جو ہمارا کردار بنتا ہے، ہمیں ادا کرنا ہو گا، میں عرض کروں گا کہ ہمیں ابھی سے تیار ہو جانا چاہیے۔
❸ تیسرے نمبر پر، ہم ان عالمی اداروں کے ممبر ہیں اور متحرک ممبر ہیں۔ ہم اقوام متحدہ میں بھی ہیں، رکن ہیں، ہم جنرل اسمبلی میں بھی ہیں، تمام تر شکایات کے باوجود ہیں، تمام تر تحفظات کے باوجود ہیں۔ ایک فورم ہے وہ، مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے، مسئلے پر گفتگو کے لیے، عالمی رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے، اور جو بھی دنیا کی انصاف پسند قوتیں ہیں، دنیا بالکل خالی نہیں ہے، انصاف پسند لوگ، انصاف پسند قوتیں موجود ہیں، ہمیں ان کو اپروچ کرنا ہو گا، ہمیں لابنگ کرنی ہو گی، ہمیں سفارتی جنگ لڑنی ہو گی۔
میں اس کے ساتھ شامل کرنا چاہوں گا، سچی بات یہ ہے، میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے، ایک مسلمان کی حیثیت سے، ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے، بالکل دیانتداری سے کہتا ہوں، ہم پاکستان، پاکستان کی اسٹبلشمنٹ، پاکستان کے حکمران طبقات، ہمیں فلسطین کے مسئلے پر، مسجدِ اقصیٰ کے مسئلے پر، اور کشمیر کے مسئلے پر جو کچھ ہمیں کرنا چاہیے اور جو ہم کر سکتے ہیں، ہم نہیں کر رہے، بالکل نہیں کر رہے، ہم زبانی جمع خرچ پہ گزارا کر رہے ہیں، ہم سٹیٹس کو پہ کھڑے ہیں کہ یہ صورتحال اس طرح چلتی رہے۔ میں اپنے حکمرانوں سے، اور اصل حکمرانوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا، تھوڑے سے سیریس ہو جائیں، پاکستانی قوم، علماء کرام، پاکستان کے دانشور، پاکستان کے اہلِ فکر اس کو محسوس کریں، اور پاکستان کی نظریاتی اور تہذیبی ضروریات کو محسوس کریں، اور مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ اپنے تعلق اور ایمانی جذبات کو محسوس کریں، اور اس کے لیے سیریس ہو کر اپنی صفوں کو منظم کریں، ہمیں، سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔