خطابت: دعوت و دفاعِ اسلام کا ذریعہ

   
مجلس صوت الاسلام پاکستان
۲۰۱۴ء

(مجلس صوت الاسلام کے زیر اہتمام ۲۰۱۴ء کے دوران ’’کل کراچی بین المدارس تقریری مقابلہ‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضراتِ علماء کرام، محترم بزرگو، دوستو، بھائیو اور ساتھیو۔ سب سے پہلے مجلس صوت الاسلام کو، مجلس کے روحِ رواں مفتی ابوہریرہ صاحب کو، ان کے رفقاء کی ساری ٹیم کو، اور ان کے سرپرستِ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محی الدین صاحب کو اس مسلسل پیشرفت پر مبارکباد دیتا ہوں۔ جب مجلس تشکیل پائی تھی تب بھی میں حاضر ہوا تھا، وقتاً‌ فوقتاً‌ حاضر ہوتا رہا ہوں، اور اس درخت کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی ہے۔ پھر ان طلباء کو، جو مختلف انعامی مقابلوں سے گزرتے ہوئے آخری مقابلے میں آئے ہیں، ان کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ’’اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ‘‘۔ اللہ پاک ان کو دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں، مواقع نصیب فرمائیں، اسلوب عطا فرمائیں، ذوق نصیب فرمائیں، نتائج و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، اور قبولیت و رضا عطا فرمائیں۔

خطابت کا اظہار تھا یہ۔ خطابت اِبلاغ کے ذرائع میں ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ دعوت کے میدان کی بھی ایک بڑی ضرورت ہے اور دفاع کے میدان کی بھی ایک بڑی ضرورت ہے۔ ابلاغ کے ذرائع میں آج بھی سب سے مؤثر خطابت ہی ہے۔ روبرو گفتگو جو اثر انداز ہوتی ہے۔ میں صرف اس کے ایک پہلو پر دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی سنتِ نبویؐ میں اہمیت کیا ہے؟ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ بابرکت میں خطابت کا رول کیا تھا، کردار کیا تھا؟ اس پر دو واقعات عرض کر کے، اپنا حصہ ڈال کر اجازت چاہوں گا۔

غزوۂ خندق جب ختم ہوا ہے۔ متحدہ محاذ بنا تھا۔ مدینے کی ایک چھوٹی سی آبادی کے خلاف عرب قبائل کا متحدہ محاذ بنا تھا۔ متحدہ محاذ نے گھیرا ڈال لیا تھا، حصار کر لیا تھا، محاصرہ رہا۔ اور قرآن پاک نے کیفیت یہ بیان کی ’’اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا‘‘ (الاحزاب ۱۰) میں اس تفصیل میں نہیں جاتا۔ لیکن محاصرہ تھا۔ ’’ھنا لک ابتلی المؤمنون وزلزلوا زلزالا شدیدا‘‘ (الاحزاب ۱۱) ان تمام مراحل سے گزر کر محاصرہ ناکام ہو گیا۔ جو لوگ بدر میں آئے تھے حملہ آور ہو کر، اُحد میں آئے تھے، پھر خندق میں آئے تھے، جب یہ متحدہ محاذ مدینہ منورہ کے محاصرے میں ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ قرآن پاک نے کہا، اللہ پاک کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم نے تھوڑی سی ہوا تیز کر دی ’’فارسلنا علیھم ریحا وجنودا لم تروھا‘‘ (الاحزاب ۹) ہم نے کچھ ہوا تیز کر دی وہ سارا معاملہ اکھڑ گیا۔

خیر، جب یہ قبائل واپس جا رہے تھے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبے کے دو جملوں کی طرف اہلِ علم کو توجہ دلانا چاہوں گا۔ ایک بات تو بخاری نے نقل کی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا بھئی، ان کا زور لگ چکا، اب یہ نہیں آئیں گے، جب بھی جائیں گے ہم جائیں گے۔ یہ اپنا زور لگا چکے، بدر میں، اُحد میں، خندق میں۔ ان کا آخری زور یہی تھا کہ عرب قبائل کا متحدہ محاذ بنائیں اور ہم پر چڑھائی کر دیں۔ ان کا زور لگ چکا، اس سے زیادہ یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اب یہ کبھی مدینے پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب جب بھی جائیں گے ہم جائیں گے۔ ایک اعلان یہ فرمایا۔

دوسرا اعلان یہ فرمایا کہ تلوار کی لڑائی میں یہ شکست کھا چکے۔ اب یہ زبان کی جنگ لڑیں گے۔ اب یہ جنگ کونسی لڑیں گے؟ زبان کی، خطابت کی، شاعری کی۔ اب یہ عرب قبائل کو تمہارے خلاف بھڑکائیں گے۔ تمہیں بدنام کریں گے، تمہاری ہَجو کریں گے، تمہاری مذمت کریں گے، تمہارے خلاف پروپیگنڈا کریں گے۔ پھر حضورؐ نے پوچھا صحابہؓ سے کہ تلوار کی جنگ میں تو تم میرے ساتھ تھے، زبان کی جنگ میں کون ہو گا؟ پوچھا، تلوار کی جنگ میں تو تم میرے ساتھ تھے، بدر میں بھی تھے، اُحد میں بھی تھے، خندق میں بھی تھے، اور نتیجہ تم نے دیکھ لیا۔ اب جنگ ہو گی زبان کی، خطابت کی، شاعری کی۔ میں اس کو تعبیر کرتا ہوں حضورؐ نے فرمایا اب میڈیا وار ہو گی۔ اب کیا ہو گی؟ میڈیا وار ہو گی۔ اس جنگ میں کون میرے ساتھ ہے؟

مؤرخین لکھتے ہیں، حافظ ابن حجرؒ نے بھی لکھا ہے، ابن عبد البرؒ نے بھی لکھا ہے، ابن الاثیرؒ نے بھی لکھا ہے۔ تین آدمی کھڑے ہو گئے۔ جب حضورؐ نے فرمایا کہ میڈیا کی اس جنگ میں میرے ساتھ کون ہے بھئی؟ تین آدمی کھڑے ہو گئے۔ حسان بن ثابت، کعب بن مالک، عبد اللہ بن رواحہ، رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ تینوں انصاری تھے، تینوں اپنے دور کے بڑے شاعر تھے۔ کھڑے ہو گئے۔ یا رسول اللہ یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ تینوں نے پھر جنگ لڑی۔ ان تینوں کی جنگ پہ قرآن پاک نے تبصرہ کیا ہے۔ ’’والشعرآء یتبعھم الغاوٗن‘‘ (الشعراء ۲۲۴) ’’الا الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات وذکروا اللہ کثیرا وانتصروا من بعد ما ظلموا‘‘ (الشعراء ۲۲۷) یہ ان تین صحابہؓ کے بارے میں ہے۔ کعب بن مالک کے بارے میں ہے۔ عبد اللہ بن رواحہ کے بارے میں ہے۔ حسان بن ثابت کے بارے میں ہے۔ رضی اللہ عنہم۔ انہوں نے کہا، ہم لڑیں گے۔ اور ایسی جنگ لڑی، ایسی جنگ لڑی۔ تقسیمِ کار تھی۔

حسان بن ثابتؓ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کرتے تھے، کفار کی ہَجو کا جواب دیتے تھے۔ اس شان کے ساتھ دیتے تھے کہ مسجد نبوی ہے، منبر پر کھڑے ہو کر حسان بن ثابتؓ اسلام کا دفاع کر رہے ہیں، حضورؐ کی مدح کر رہے ہیں، اسلام کی خوبیاں بیان کر رہے ہیں، کافروں کی ہَجو کا جواب دے رہے ہیں۔ اور سامنے بیٹھے داد کون دے رہے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ بخاری کی روایت ہے۔ منبر پر کھڑے ہیں، میڈیا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اشعار میں، اُس دور کے میڈیا میں، اُس دور کے میڈیا کی زبان میں، اسلام کے اوصاف بیان کر رہے ہیں، حضورؐ کی مدح کر رہے ہیں، ہَجو کا جواب دے رہے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمے لے لی۔ کعب بن مالکؓ کفر کی مذمت کرتے تھے، اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے۔

اور عبد اللہ بن رواحہؓ نے رزمیہ شاعری کی۔ مار دیں گے، کاٹ دیں گے، اڑا دیں گے، پھینک دیں گے۔ کس شان کے ساتھ؟ عمرۃ القضاء ہے۔ پندرہ سو صحابہؓ حضورؐ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے مکے میں اُتر رہے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں ہے، احرام باندھا ہوا ہے۔ باقی لوگ تلبیہ پڑھ رہے ہیں اور یہ پڑھ رہے ہیں، کاٹ دیں گے، مار دیں گے، یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ کیوں جی، یہی ہے کہ نہیں؟ باقی سارے تلبیہ پڑھ رہے ہیں اور یہ رزمیہ شاعری کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا، قریب آئے، او خدا کے بندے! کیا کر رہے ہو؟ احرام باندھا ہوا ہے، مکے کی وادی میں اتر رہے ہو، خانہ کعبہ نظر آ رہا ہے، حضورؐ کی اونٹنی کی مہار پکڑی ہوئی ہے، عمرہ کرنے آئے ہو کیا کرنے آئے ہو؟ بس کرو۔ حضرت عمرؓ کا اپنا مزاج تھا۔ حضرت عمرؓ نے اشارے کنایے سے، اوئے بس کرو یار کیا کر رہے ہو، تم کیا پڑھ رہے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر سے دیکھ لیا، فرمایا ’’دعہ یا عمر‘‘۔ عمر چھوڑو، پڑھنے دو اس کو، اس کے اشعار کافروں کے سینوں میں تمہارے تیروں سے زیادہ نشانے پہ بیٹھ رہے ہیں۔

یہ میڈیا کی جنگ تھی۔ جنگ لڑی پھر۔ اس جنگ کے جرنیل کون تھے؟ حسان بن ثابتؓ تھے۔ کعب بن مالکؓ تھے۔ عبد اللہ بن رواحہؓ تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ میں تفصیلات میں نہیں جاتا۔ میں نے صرف بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خندق کے غزوے کے بعد، کہ تلوار کی جنگ میں یہ مار کھا چکے، اب تمہارے خلاف یہ زبان کی جنگ لڑیں گے، خطابت کی جنگ لڑیں گے، شعر و شاعری کی جنگ لڑیں گے، میڈیا کی جنگ لڑیں گے۔ اور صحابہؓ نے یہ جنگ بھی لڑی یا نہیں لڑی؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے یہ خطابت اور شاعری کی جنگ لڑی یا نہیں لڑی؟ اور جیتی یا نہیں جیتی؟

ایک واقعہ اور عرض کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف قبائل سے لوگ آتے تھے۔ اسلام قبول کرتے تھے۔ اپنے اپنے ذوق کے مطابق۔ کوئی کشتی لڑ کے کرتا تھا، کوئی کچھ کر کے کرتا تھا۔ بنو تمیم ایک بڑا پھنے خان قبیلہ تھا جناب، جس کو اپنی خطابت پہ بڑا ناز تھا۔ اپنی شاعری پہ بڑا غرور تھا کہ ہم بڑے فصیح اللسان، خطابت اور فصاحت اور طلاقتِ لسانی اور شعر و شاعری اور ادیب اور فصیح ہم لوگ ہیں۔ آگئے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ جناب ہم آئے ہیں، لیکن جناب ہم تو اپنے میدان کا مقابلہ مانگتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو مقابلہ کرو خطابت کا، ہمارے ساتھ مقابلہ کرو شعر و شاعری کا۔ مجلس جمے گی، تقریری مقابلہ ہو گا، اگر تقریری مقابلہ آپ جیت گئے تو ہم اسلام قبول کریں گے۔

یہ حضورؐ کے زمانے میں تقریری مقابلہ ہوا ہے۔ کیوں جی، ہوا ہے یا نہیں ہوا؟ صدارت کس نے کی ہے؟ انہوں نے کہا جناب ہم تو؛ جس طرح رکانہ نے کہا تھا نا، رضی اللہ عنہ، کہ جناب میں تو پہلوانی کی زبان سمجھتا ہوں۔ رکانہؓ سے جب کہا حضورؐ نے اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا جی میرے ساتھ کشتی لڑو، کشتی میں پچھاڑ لیا تو ٹھیک ہے۔ پچھاڑا۔ ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ، تین دفعہ۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام کا دفاع اور کفر کا مقابلہ۔ کفر جس میدان میں چیلنج کرے اس میدان میں اس کو قبول کرنا سنتِ رسولؐ ہے۔ کفر جس شعبے میں چیلنج کرے، اس شعبے میں اس چیلنج کو قبول کرنا، مقابلہ کرنا، سنتِ رسولؐ ہے۔ رکانہؓ نے کیا کہا تھا کہ جناب پہلوانی میں کشتی میں گراؤ گے تو مانوں گا۔ گرایا۔ ایک دفعہ گرایا۔ کہا جی وہ اتفاق ہو جاتا ہے۔ دوسری دفعہ گرایا۔ تیسری دفعہ کہا ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘۔

بنو تمیم والے آ گئے۔ جناب ہم تو مقابلہ کریں گے، مجلس جمائیے۔ خطابت کا مقابلہ ہو گا، شعر و شاعری کا مقابلہ ہو گا۔ اگر یہ تقریری مقابلہ اور مشاعرے کا مقابلہ آپ جیت گئے تو ہم کلمہ پڑھ لیں گے۔ محفل جمی۔ مقابلہ ہوا۔ اقرع بن حابس تھے، زبرقان بن بدر تھے، عطارد بن حاجب تھے۔ بڑے خطیب تھے، بڑے شاعر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف فرما ہوئے تو حضورؐ نے فرمایا، اوپنر بھی تمہی ہو بھئی، بسم اللہ کرو، لاؤ سامنے، تمہارا شاعر کدھر ہے۔ شاعر کھڑا ہو گیا۔ ہم یہ، ہم وہ، ہمارا دنیا میں یہ مقام ہے، ہمارے باپ دادا یہ تھے۔ جب بنو تمیم کا شاعر اپنی شعر و شاعری کا جادو جگا چکا۔

اور یہ میں عرض کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ’’ان من البیان لسحرا‘‘ کہا ہے انہی کے بارے میں کہا ہے۔ ان کی خطابت کا جادو اتنا تھا کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ان من البیان لسحرا‘‘ بیان جادو بھی ہوتے ہیں۔ اس جادو کا بیان ہوا۔ لوگ متاثر ہوئے کہ یار یہ کیا ہوا؟

پہلے شاعر نے شاعری کی۔ حضورؐ نے اپنے شاعر سے کہا اٹھو بھئی جواب دو۔ علماء کرام! کس نے جواب دیا؟ حسان بن ثابتؓ نے۔ اٹھے، اسلام کی خوبیاں بیان کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی، اسلام اور توحید کی اہمیت بیان کی، کفر کی مذمت کی۔ بیٹھ گئے۔ ہاں بھئی، خطیب کدھر ہے تمہارا؟ خطیب کو لاؤ اب۔ خطیب کھڑا ہوا جناب۔ اس نے خطابت کے جوہر دکھائے۔ او جناب چھکے چھڑا دیے۔ حضورؐ کا بھی ایک خطیب تھا۔ کون؟ ایک حضورؐ کا سرکاری شاعر تھا، شاعرِ ریاست، قومی شاعر۔ ایک قومی خطیب تھا، جس کو خطیب الانصار بھی کہا جاتا تھا، خطیب الاسلام بھی کہا جاتا تھا، خطیب رسول اللہ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ کون تھے؟ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ خطابت صحیح رخ پہ چلے تو بنو تمیم کے چھکے چھڑا دیے۔ اور یہی خطابت حضورؐ کے وصال کے بعد ایک اور مسئلے کا باعث بھی بن رہی تھی۔ حضرت عمرؓ گئے جا کر سنبھال لیا۔ میں اس طرف نہیں جاتا۔ خطابت، خطابت ہے۔ ثابت بن قیسؓ کھڑے ہوئے۔ خطیب تھے۔ اس کی باتوں کا جواب دیا، اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ عقیدۂ توحید، قیامت، عقائد پہ روشنی ڈالی، حضورؐ کے اوصاف بیان کیے۔ جب وہ بیٹھے، اقرع بن حابس سردار تھے بنو تمیم کے، اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ بخدا، تمہارا خطیب بھی ہمارے خطیب سے بڑا ہے، تمہارا شاعر بھی ہمارے شاعر سے بڑا ہے، ہم سب کلمہ پڑھتے ہیں ’’نشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘۔

میں یہ بات عرض کر کے آخری جملہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مقابلے تو جو ہو رہے ہیں اللہ پاک اُن میں بھی فتح عطا فرمائے، لیکن یہ بھی مقابلے کا میدان ہے۔ ہے یا نہیں ہے؟ میڈیا کا میدان بھی مقابلے کا ہے یا نہیں ہے؟ آج تو جنگ ہی میڈیا کی ہے۔ یہ جنگ لڑنا بھی ہمارے ذمے ہے یا نہیں ہے؟ یہ جنگ بھی سنتِ رسول ہے یا نہیں ہے؟ میں صرف اتنا پیغام دینا چاہوں گا آج کی اس محفل کی مناسبت سے، میڈیا کی جنگ، اس میں چیلنج قبول کرنا، مقابلہ کرنا، اور وہ اسباب فراہم کرنا کہ ہم چیلنج کا جواب دے سکیں اور برتری جتا سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، فریضہ ہے، سنتِ رسولؐ ہے۔

اس لیے اس پیشرفت کو اس جانب پیش قدمی سمجھتے ہوئے میں خوشی کا اظہار بھی کرتا ہوں، مبارکباد بھی دیتا ہوں، اور دعاگو بھی ہوں۔ اللہ پاک اور زیادہ ترقی، اور زیادہ ترقی، جس طرح ہمارے بھائی کہہ رہے تھے کہ ملکی سطح پر نہیں انٹرنیشنل سطح پر خدا کرے یہ وقت جائے۔ اور ہم یہ لندن میں اور واشنگٹن میں کھڑے ہو کر کہیں، آؤ بھئی کون ہے؟ ثابت بن قیسؓ کے جانشین بھی حاضر ہیں اور حسان بن ثابتؓ کے جانشین بھی حاضر ہیں۔ اُس رخ کو، اُس ہدف کو سامنے رکھ کر آگے بڑھیے، اللہ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter