بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضراتِ محترم، قرآن پاک کے حوالے سے آج میں اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا، آج دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے منایا گیا ہے جس کو محبت کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ یومِ محبت ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے، میں اس طرف نہیں جاؤں گا۔ محبت کا لفظ کیا ہے؟ قرآن پاک نے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا کیا مفہوم بیان کیا ہے، کیا دائرے بیان کیے ہیں، کیا حدود متعین کی ہیں؟ ان کا تھوڑا سا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ لیکن پہلے دو اصولی باتیں۔
ایک بات تو یہ کہ اللہ رب العزت نے انسان کو اس کے جسم میں، دل میں، دماغ میں جو صلاحیتیں دی ہیں، اللہ پاک نے اس کی نفسیات میں جو جو بات رکھی ہے، کوئی بھی بے مقصد نہیں رکھی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کے دل و دماغ میں، انسان کے مزاج میں، نفسیات میں ایک تقاضا رکھا ہو اور اس کا کوئی مصرف اور اس کا کوئی حل نہ رکھا ہو، ایسا نہیں ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں، انسان کی صلاحیتوں میں، انسان کی استعدادات میں اللہ پاک نے بے شمار چیزیں رکھی ہیں اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مصرف، کوئی نہ کوئی دائرہ، کوئی نہ کوئی حد متعین فرمائی ہے۔ پہلی گزارش میں یہ کر رہا ہوں۔ انسان میں غصہ ہے، نفرت ہے، محبت ہے، رواداری ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں اللہ پاک نے ایک دوسرے کی مدد، ایک دوسرے سے تعاون، تمدن، کلچر، معاملات، سب کچھ اللہ پاک نے انسان میں رکھا ہے۔ اور کوئی بھی خصلت ایسی نہیں رکھی جس کا دائرہ متعین نہیں کیا، جس کی حدود طے نہیں کیں اور جس کے جواز، عدمِ جواز، حلال حرام کے دائرے بیان نہیں فرمائے، کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے۔ ایک تو اصولی بات یہ ہے۔
محبت بھی انسان کی ایک فطرت ہے، ایک خصلت ہے، جائز بھی ہے، ناجائز بھی ہے۔ جس طرح غصہ انسانی فطرت ہے۔ کہاں جائز ہے، کہاں ناجائز ہے، یہ حدود بیان فرمائی ہیں۔ نفرت بھی انسان کی ایک فطرت ہے، اس کی بھی حدود بیان فرمائیں، کہاں نفرت جائز ہے، کہاں ناجائز ہے۔ محبت بھی انسان کی ایک خصلت ہے، اس میں بھی حلال حرام، جائز ناجائز کے ضوابط اللہ پاک نے بیان فرمائے ہیں۔ ایک بات ہمیں یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ محبت اللہ کا عطیہ ہے، اللہ کی نعمت ہے، اللہ کی طرف سے دیا ہوا ذوق ہے، اللہ کی مہربانی اور فضل ہے، لیکن اللہ کی ہر نعمت کے استعمال کی کچھ حدود بھی متعین ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے نعمت دی ہے اور کھلی چھٹی دے دی جو مرضی کرو۔ نہیں۔ حدود طے کی ہیں۔
دوسری بات، ہماری آج کی جو عالمی نفسیاتی اور فکری اور تہذیبی صورتحال ہے، اس میں ایک بات بنیادی سمجھنے کی ہے کہ آج ہر چیز کو ہر بات کو الٹ معنیٰ دے دیا گیا ہے۔ آج کے نفسانی فلسفے نے ہر چیز کو الٹ معنیٰ دے رکھا ہے۔ جس طرح باقی چیزیں اپنے معنی سے ہٹ کر منفی طور پر استعمال ہو رہی ہیں، اسی طرح محبت کا لفظ یا محبت کا فلسفہ، یہ بھی اصلی معنی سے ہٹ کر منفی معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ اور اس سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سارے سسٹم میں آج ایک بات الٹا دی گئی ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایک بات فرمائی کہ آسمانی تعلیمات، وحی الٰہی، پیغمبروں کے ارشادات، یہ دائرہ جو ہے یہ نور کا دائرہ ہے، روشنی کا دائرہ ہے۔ اور اس دائرے سے ہٹ کر انسان اگر اپنی خواہش سے، اپنی مرضی سے زندگی گزارے گا تو یہ ظلمات کا دائرہ ہے۔ آسمانی تعلیمات، پیغمبروں کے ارشادات، وحی الٰہی، یہ نور اور روشنی کا دائرہ ہے۔ اور انسانی خواہشات خواہ فرد کی ہوں خواہ طبقے کی خواہ سوسائٹی کی، آسمانی تعلیمات سے ہٹ کر اس کے مقابلے پہ انسانی خواہشات، انسانی سوچ، وہ فرد کے دائرے میں ہو، طبقے کے دائرے میں ہو، سوسائٹی کی دائرے میں ہو، وہ ظلمات ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر یہ اصول واضح کیا ہے ’’اللہ ولی الذین اٰمنوا یخرجھم من الظلمات الی النور والذین کفروا اولیآءھم الطاغوت یخرجونھم من النور الی الظلمات‘‘ (البقرۃ ۲۵۷) اللہ انسانوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، وحی کے ذریعے، پیغمبروں کے ذریعے۔ اور شیطانی نظام انسانوں کو نور سے، وحی سے نکال کر ظلمات کی طرف لے جاتا ہے، تاریکیوں کی طرف۔ گویا قرآن پاک یہ کہتا ہے: آسمانی تعلیمات، وحی الہی، اللہ کے احکامات، رسولوں کی تعلیمات، یہ نور اور روشنی کا دائرہ ہے۔ اور اس کے مقابلے پر انسانی خواہشات، انسانی سوچ، یہ ظلمات اور تاریکی کا دائرہ ہے۔
لیکن آج آسمانی تعلیمات سے انحراف کو، انسانی خواہشات کو، خواہ وہ فرد کے درجے میں انڈیویجوئلزم کے نام سے ہو، یا طبقے کے دائرے میں ہو، یا سوسائٹی کے اجتماعی دائرے میں ہو سوسائٹی کیا چاہتی ہے۔ آج انسانی تعلیمات کی طرف واپسی کو تاریکی کا دور کہا جاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی طرف دوڑنے کو روشنی اور روشن خیالی اور نور کا دور کہا جاتا ہے۔ بالکل اصولی طور پر بات کو پلٹا دیا گیا ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی آپ آسمانی تعلیمات کی بات کریں گے، پیغمبروں کے ارشادات کی بات کریں گے، قرآن پاک کی یا آسمانی کتابوں کی بات کریں گے تو ایک جملہ بڑی آسانی سے کہا جاتا ہے: یہ تاریکی کے دور کی طرف واپس جانا چاہ رہے ہیں۔ اور آپ جتنا انحراف کر دیں گے آسمانی تعلیمات سے، قرآن پاک سے، سنت سے، اتنے ہی زیادہ روشن خیال سمجھے جائیں گے، اتنا ہی زیادہ اس کو لائٹ کہا جائے گا، روشنی کہا جائے گا، نور کہا جائے گا۔ پوری صورتحال بدل دی گئی ہے۔
اسی پس منظر میں ہر اصطلاح، ہر لفظ، انسان کی ہر خصلت کو الٹے معنوں میں لیا جا رہا ہے۔ محبت کا لفظ ہے۔ قرآن پاک نے بیسیوں مقامات پر محبت کا لفظ استعمال کیا ہے، اس کی تلقین فرمائی ہے، اس کا ذکر کیا ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں محبت کا ذکر کیا ہے، اس کے دائرے بیان کیے ہیں، اس کی حدود بیان فرمائی ہیں، اس کے تقاضے بیان کیے ہیں، جائز محبت اور ناجائز محبت کا فرق بیان کیا ہے۔ لیکن سارے دائرے کو، سارے تناظر کو نظرانداز کر کے ایک پہلو صِرف، کہ مرد اور عورت کا آپس میں رابطہ، اور وہ بھی جائز ہونا ضروری نہیں، جائز ناجائز کے فرق کے بغیر، اِس کو آج محبت قرار دیا جا رہا ہے، اور ویلنٹائن ڈے اسی کی علامت ہے۔
محبت قرآن پاک کہتا ہے کرو۔ کس سے کرو؟ ذرا قرآن پاک سے سنیے قرآن پاک کیا کہتا ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے ایک مسلمان کی محبت کا سب سے بڑا مرجع اللہ کی ذات ہے ’’والذین اٰمنوا اشد حبا للہ‘‘ (البقرۃ ۱۶۵) ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ کس سے ہے؟ اللہ سے۔ اللہ پاک سے محبت کرو بھی، اللہ سے محبت چاہو بھی۔ اللہ پاک کے ساتھ انسان محبت کرے بھی۔ ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ کس کے ساتھ ہونی چاہیے؟ اللہ کے ساتھ۔ ’’والذین اٰمنوا اشد حبا للہ‘‘۔ اور یہ یکطرفہ نہیں ہے، اللہ بھی محبت کرتا ہے۔ بندہ بھی اللہ سے محبت کرتا ہے، اللہ بھی بندے سے محبت کرتا ہے۔ اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ‘‘ (اٰل عمران ۳۱) اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے، اے لوگو! اگر اللہ کی محبت چاہتے ہو کہ اللہ کی محبت تمہیں ملے، اس کا راستہ یہ ہے کہ میری پیروی کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے، اس سے اللہ کی محبت ملتی ہے۔ حضورؐ کی اتباع سے ’’یحببکم اللہ‘‘ اللہ تم سے محبت کرے گا بھئی۔ اللہ سے محبت کرو بھی، اللہ کی محبت مانگو بھی۔ یہ پہلا دائرہ ہے۔
دوسرا دائرہ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین‘‘ (بخاری) تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہے جب تک میرے ساتھ یعنی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ اس کی محبت اس کی جان سے، اس کی اولاد سے، اس کی بیوی سے، یا بیوی کو خاوند سے، سب سے زیادہ حضورؐ سے محبت نہیں ہو گی۔ یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ساری محبتوں پر غالب نہیں ہو گی، فرمایا ’’لا یؤمن‘‘ تمہیں مومن کہلانے کا حق نہیں ہے۔
اللہ کی ذات کے بعد دوسرا دائرہ محبت کا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ اور اس کا معیار کیا ہے؟ آج جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعویدار تو ہم میں سے ہر ایک ہے۔ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کا معیار کیا بتایا ہے؟ خود فرمایا ’’من اطاعنی [احب سُنتی] فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ‘‘ (مشکوٰۃ) جس نے میری اطاعت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرا ساتھی ہو گا۔ تو دوسرا دائرہ میں نے بیان کیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔
ایک مقام پر قرآن کریم نے بھی محبتوں کا تقابل کیا ہے۔ انسانی محبت ہوتی ہے، کس کس چیز کے ساتھ ہوتی ہے، قرآن پاک نے بیان کیا ہے۔ محبتوں کا ذکر، انسان کی محبت کس کے ساتھ ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے، پھر تقابل کیا ہے، ان کے درمیان تناسب کیا ہے؟ فرمایا ’’قل‘‘ کہہ دیجیے:
’’ان کان آبآءکم وابنآءکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونھآ احب الیکم من اللہ ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتیٰ یاتی اللہ بامرہ‘‘ (التوبۃ ۲۴)
جن چیزوں کے ساتھ انسان کی محبت ہوتی ہے وہ چیزیں گنی ہیں۔ پانچ رشتے گنے ہیں، تین چیزیں گنی ہیں۔ ’’ان کان آباءکم‘‘ آباؤاجداد۔ ’’وابنآءکم‘‘ بیٹے بیٹیاں۔ ’’اخوانکم‘‘ بہن بھائی۔ ’’ازواجکم‘‘ میاں بیوی۔ ’’عشیرتکم‘‘ قبیلہ برادری۔ یہی انسان کے محبت کے تعلقات کے مظاہر ہیں۔ ماں باپ، اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، قبیلہ برادری، یہ پانچ رشتے گنے۔ تین چیزیں گنیں: ’’واموال ن اقترفتموھا‘‘ انسان کی محبت مال سے ہوتی ہے جو کماتا ہے، وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں۔ ’’وتجارۃ تخشون کسادھا‘‘ انسان کا کاروبار جس میں گھاٹے کا ڈر لگا رہتا ہے ہر وقت، پتہ نہیں نقصان نہ ہو جائے۔ ’’ومساکن ترضونھا‘‘ وہ مکانات کوٹھیاں جائیدادیں جن کو تم پسند کرتے ہو جن کو تم دوست رکھتے ہو۔
پانچ رشتے، تین چیزیں، انسان کی محبت کے جو ظاہری مراکز ہیں، گنے ہیں۔ فرمایا، یاد رکھو اگر یہ آٹھ چیزیں ایک طرف، ’’احب الیکم من اللہ ورسولہ‘‘ اگر اللہ اور رسول سے زیادہ تمہیں یہ چیزیں محبوب ہیں، اور جہاد سے، ’’فتربصوا حتیٰ یاتی اللہ بامرہ‘‘ اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ قرآن پاک مانتا ہے ماں باپ سے بھی محبت ہوتی ہے، اولاد سے بھی ہوتی ہے، دولت سے بھی ہوتی ہے، جائیداد سے بھی ہوتی ہے، کاروبار سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے یہ محبت کی چیزیں ہیں، ان کی نفی نہیں ہے۔ ماں باپ کے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ، اولاد کے ساتھ، میاں بیوی کا آپس میں معاملہ، برادری کے ساتھ، تجارت کے ساتھ، کمائی اور مال کے ساتھ، جائیداد کے ساتھ، یہ نفی نہیں کی۔ فرمایا ان کے ساتھ بھی تمہاری محبت ہے اور ہونی چاہیے۔ ہاں، اللہ رسول کی محبت ان سے زیادہ ہونی چاہیے ’’احب الیکم من اللہ ورسولہ‘‘۔
اس کے بعد قرآن کریم نے انسان کی محبت کا دائرہ بیان فرمایا۔ اس کے ماں باپ، اولاد، میاں بیوی، خاندان۔ خاندان کے افراد کی آپس میں محبت۔ محبت کا ایک دائرہ یہ ہے: ماں باپ، ماں سے محبت، باپ سے محبت، ان کی اطاعت، ان کی فرمانبرداری۔ اور ماں کی محبت تو دنیا کی بے مثال محبت ہے۔ ماں جیسا شفیق رشتہ دنیا میں نہیں ہے، کائنات میں نہیں ہے، اللہ اور رسول کی ذات کے بعد۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر ذکر کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں تین سے زیادہ مقامات پر اپنے بعد ماں باپ کا ذکر کیا ہے: ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا‘‘ (النسآء ۳۶) اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے ساتھ شریک نہ کرو کسی کو، ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ ’’وقضیٰ ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا‘‘ (بنی اسرآئیل ۲۳) اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو، ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ ’’ان اشکر لی ولوالدیک‘‘ (لقمان ۱۴) اللہ کہتا ہے میرا شکر ادا کرو، ماں باپ کا شکر ادا کرو۔
اللہ نے اپنے بعد ماں باپ کا ذکر کیا۔ میرا شکر ادا کرو، ماں باپ کے شکرگزار رہو۔ محبت کا ایک دائرہ یہ ہے۔ یہاں ایک بڑی لطیف بات مفسرین فرماتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے میرا شکر ادا کرو اور میرے بعد تمہاری شکر گزاری کے سب سے زیادہ مستحق کون ہیں؟ ماں باپ۔ اس کی ایک حکمت بیان کرتے ہیں۔ انسان کے پاس سب سے بڑی نعمت زندگی ہے، باقی نعمتیں زندگی کے ساتھ ہیں۔ زندگی ہے تو نعمتوں کا فائدہ بھی ہے۔ زندگی دینے والا خدا ہے۔ زندگی کا ذریعہ ماں باپ ہیں۔ دنیا میں آنے کا بھی اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک دنیا میں رہنے کا بھی۔ صرف آنے کا نہیں۔ ماں باپ دنیا میں آنے کا ذریعہ بھی ہیں اور جب تک انسان اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو جائے، اس کے دنیا میں نشوونما کا ذریعہ بھی ماں باپ ہی ہیں۔ یہ تیسرا دائرہ بیان کیا۔ اس دائرے میں ماں باپ بھی شامل ہیں۔ ماں کے ساتھ باپ کے ساتھ محبت کا اپنا دائرہ ہے۔
میاں بیوی کی محبت تو سب سے منفرد ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے مرد اور عورت میں یہ محبت پیدا کی ہے، اسی پر ساری نشوونما، ساری ترقی اور تمدن کا مدار ہے۔ پھر اولاد کے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ، قریبی رشتہ داروں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ، سوسائٹی کے تمام افراد کے ساتھ آپس میں جوڑ۔ ایک بات یہاں میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ بھی آج کی معاشرتی زندگی کا اور آج کی سماجیات کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ قرآن پاک صلہ رحمی کو سوسائٹی کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ آپس میں جوڑ۔ قرآن پاک فردیت کو نہیں، انڈویجوئلزم کو نہیں، جوڑ کو اور جوائنٹ سسٹم کو سوسائٹی کا مدار کہتا ہے۔ اور کہتا ہے جب یہ آپس کے تعلقات رشتے ختم ہوں گے فساد پھیلے گا۔ اور ’’فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم‘‘ (محمد ۲۲) سوسائٹی کا مدار، تمدن کا مدار رشتوں پر ہے، رشتوں کے جوڑ پر ہے، آپس میں تعلقات کے باقی رہنے پر ہے۔ اور جہاں رشتے ختم ہو جائیں، جہاں تعلقات کا احترام ختم ہو جائے، جہاں تعلقات کی بنیاد ہی نہ رہے۔ ایک درمیان میں بات کہنا چاہوں گا۔ قرآن پاک رشتہ داروں کی درجہ بندی کرتا ہے۔ ماں باپ ہیں، ذوی الارحام ہیں، چچا ہے، پھوپھی ہے، بھتیجا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی وقت ایسا آجائے، خدا نہ کرے، ویسے آ تو گیا ہے، کہ انسان کو باپ ہی کا پتہ نہ ہو تو باقی رشتے کدھر سے آئیں گے؟ آج یہ ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ انڈویجوئلزم، فردیت، فرد کی آزادی۔ فرد کی آزادی کو اور فرد کی خودمختاری کو اس مقام پر لے جایا گیا ہے کہ رشتے ختم ہو گئے ہیں، تعلقات ختم ہو گئے ہیں۔ اسلام تو یہ کہتا ہے، پڑوسیوں کے حقوق، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ما زال يوصينی جبريل بالجار حتی ظننت انہ سيورثہ‘‘ (مسلم) جبریل علیہ السلام اتنی بار میرے پاس آئے پڑوسیوں کے حقوق کی بات لے کر، مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔
ایک فرق کی طرف ذہن دوڑائیے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! پڑوس کی حد کیا ہے؟ فرمایا دس گھر اِدھر، دس ادھر، دس ادھر، دس ادھر، چالیس گھر۔ اور آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ لبرٹی، آزادی اور فردیت اور انڈویجوئلزم کے نام پر ہمیں اپنے پڑوسی کا پتہ نہیں ہوتا۔ سالہا سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں، درمیان میں چند فٹ کا فاصلہ ہے۔ یا اُس گھر میں شادیانے بجیں شادی کے، یا جنازہ اٹھے، تب پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ دس دس پندرہ پندرہ سال ہمیں دائیں پڑوسی کا پتہ نہیں ہوتا، بائیں پڑوسی کا پتہ نہیں ہوتا۔ آج ہر چیز کو الٹ معنیٰ دے دیا گیا ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے جب رشتوں کا احترام ختم ہو جائے گا سوسائٹی میں فساد پھیلے گا ’’فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم‘‘۔
پھر محبت کا ایک دائرہ، قرآن پاک کہتا ہے آپس میں محبت کرو لیکن اللہ کی رضا کے لیے ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ دو انسانوں میں تعلق اور محبت کی بنیاد اللہ کی رضا ہونی چاہیے۔ اور نفرت بھی فطرت ہے، نفرت ہو تو وہ بھی اللہ کی رضا کے لیے ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ (ابوداود) یہ اخلاقِ حسنہ میں سے، حسنِ اخلاق میں سے ہے۔
اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بات یوں فرمائی ہے۔ فرمایا، قیامت کے دن حشر کے میدان میں اللہ کے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ جن لوگوں کو اللہ کے عرش کے سائے میں پناہ ملے گی، جگہ ملے گی، ان میں وہ لوگ ہوں گے جن کی آپس کی دوستی، آپس کی محبت اللہ کی رضا کے لیے۔ دوستی کی بنیاد بھی اللہ کی رضا اور دوستی ترک کرنے کی بنیاد بھی اللہ کی رضا۔ نفرت کی بنیاد بھی اللہ کی رضا، محبت کی بنیاد بھی اللہ کی رضا۔ ایک دوسرے سے محبت کرو، درجہ بدرجہ، ایک عام انسان سے محبت کرو۔ ان محبتوں میں سے، ان محبتوں کے بیسیوں دائروں میں سے ایک دائرہ مرد اور عورت کی محبت ہے، فطری ہے، لیکن جائز ناجائز کی حدود قرآن پاک نے بیان کی ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے، نہ خدا کی محبت کا پتہ ہے، نہ رسول کی محبت کا پتہ ہے، نہ قرآن کی محبت کا پتہ ہے، نہ ماں باپ کی محبت کا پتہ ہے، نہ رشتہ داروں کی محبت کا پتہ ہے، نہ سوسائٹی کی محبت کا پتہ ہے، کسی محبت کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ ایک بات یاد ہے کہ کسی لڑکی سے دوستی کیسے کرنی ہے۔ صرف ایک بات ہے کہ کسی لڑکی نے لڑکے سے دوستی کیسے کرنی ہے، لڑکے نے لڑکی سے دوستی کیسے کرنی ہے۔ وہاں بھی مثبت جذبہ نہیں، منفی۔ پورے محبتوں کے وسیع تناظر کو ہم نے ایک پہلو میں آ کے بند کر دیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی میں دوستی کیسے ہو گی۔ اور وہ بھی جائز ناجائز کی پرواہ کیے بغیر، حلال حرام کا تصور باقی رکھے بغیر۔ یہاں بھی اللہ اور اس کے رسول نے محبت بتائی ہے۔ ماں کے ساتھ محبت، بہن کے ساتھ محبت، بیٹی کے ساتھ تو حضورؐ نے ایسی محبت کر کے دکھائی ہے کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ہے۔ بیٹی کے ساتھ محبت کیا ہوتی ہے؟ بہن کے ساتھ محبت کیا ہوتی ہے؟ بیوی کے ساتھ محبت کیا ہوتی ہے؟ ماں کے ساتھ محبت کیا ہوتی ہے؟ ان چاروں محبتوں کا ہمیں پتہ نہیں ہے، ہم نے پانچویں محبت نکال لی ہے۔
مرد اور عورت کی محبت قرآن پاک نے اللہ کے رسول نے چار دائروں میں بیان کی ہے: ماں کی محبت، بہن کی محبت، بیوی کی محبت، بیٹی کی محبت۔ یہ چاروں ہم بھول گئے ہیں۔ ہم نے ایک پانچویں محبت نکال دی ہے، اس کے لیے پھول تقسیم کرتے ہیں، گفٹ دیتے ہیں، دن مناتے ہیں، شور مچاتے ہیں، پروگرام نشر کرتے ہیں۔ اور الزام مولوی پر لگتا ہے جی محبت کا مخالف ہے یہ۔ جو مولوی ماں کی محبت، بہن کی محبت، بیوی کی محبت، بیٹی کی محبت، اللہ رسول کے احکام کے مطابق بیان کرتا ہے، وہ محبت کا منکر ہے، محبت کا مخالف ہے۔ اور جہاں جائز ناجائز کا فرق کیے بغیر لڑکی اور لڑکے کے اختلاط کو فروغ دیا جاتا ہے، یہ محبت کے علمبردار ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں، ہمیں کہاں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
قرآن پاک کیا کہتا ہے، سنیے قرآن پاک سے۔ لڑکے اور لڑکی کا ایسا تعلق جو جائز حدود میں نہ ہو قرآن پاک نے اس کو ’’ولا متخذات اخدان‘‘ (النسآء ۲۵) ’’ولا متخذی اخدان‘‘ (المائدۃ ۵) کہا ہے، نفی کی ہے اس کی۔ محرم غیر محرم کا فرق رکھا ہے۔ آپس میں روابط کی حدود بیان کی ہیں۔ میرے یہ بھائی غصے میں تو کہتے ہیں ناجائز نہیں ہونا چاہیے، محبت میں نہیں کہتے کہ یہ ناجائز نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں غصہ ہو، کہتے ہیں جی غصہ نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں غصہ ناجائز نہیں ہونا چاہیے، نفرت ناجائز نہیں ہونی چاہیے، محبت بھی ناجائز کی گنجائش نہیں ہے۔ معنیٰ ایک ہونا چاہیے۔ غصے کی بات آتی ہے، غیرت کی بات آتی ہے، کہتے ہیں نہیں نہیں نہیں، یہ نہیں ہونی چاہیے۔ غیرت کا ناجائز استعمال، اس پہ مقالے لکھے جاتے ہیں، پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ اور محبت کے ناجائز استعمال کو فروغ دیا جاتا ہے، پروگرام منائے جاتے ہیں، دن منائے جاتے ہیں۔
محبت بھی انسانی فطرت ہے، نفرت بھی انسانی فطرت ہے، غیرت بھی انسانی فطرت ہے، ان کا بھی ناجائز استعمال غلط ہے بھئی۔ جس طرح غیرت اور غصے اور نفرت کا ناجائز استعمال غلط ہے، محبت کا ناجائز استعمال بھی غلط ہے۔ یہ معنے الگ الگ کیوں ہیں؟ قرآن پاک کہتا ہے ’’ولا متخذی اخدان‘‘، ’’ولا متخذات اخدان‘‘ نہ کسی لڑکی کو حق ہے کہ وہ خفیہ دوستیاں کرتی پھرے، نہ کسی لڑکے کو حق ہے کہ وہ خفیہ دوستیاں کرے۔ مرد اور عورت کا تعلق ریکارڈ پر ہونا چاہیے، نکاح کے ذریعے، ذمہ داریاں قبول کر کے۔
آج پوری صورتحال کو، پورے ماحول کو، پوری اقدار کو بدل دیا گیا ہے۔ اور اس بغاوت کی انسانی اقدار — اسلامی اقدار تو ہیں ہی — میں ان کو انسانی اقدار کہتا ہوں، انسانی روایات، انسانی اقدار، جو انسانی سوسائٹی کی بنیاد ہیں، ان اقدار کی نفی، ان روایات کا استہزا، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام سے استہزا، اس سے انحراف اور بغاوت، اس کا نام آج آزادی ہے۔ اور اس کا ایک بڑا نمونہ آج لوگوں نے دیکھا ہے، ویلنٹائن ڈے اسی بغاوت کی علامت ہے۔ اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائیں اور ہمیں ہر چیز کو اس کے اصل تناظر میں، اس کے اصل دائرے میں، اس کے اصل مفہوم میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔