دینی و ملّی تحریکات میں کامیابی کا راز

   
شیخ الہندؒ اکادمی، واہ کینٹ
جمعیت طلباء اسلام، ٹیکسلا
۱۷ مارچ ۲۰۲۳ء

(شیخ الہند اکادمی واہ کینٹ میں یونیورسٹی و کالج کے طلباء سے گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت شیخ [مولانا محمد امتیاز خان] دامت برکاتہم اور میرے نوجوان عزیز ساتھیو! میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ جے ٹی آئی کے دفتر میں … سن ۶۳ء، ۶۴ء میں جے ٹی آئی گوجرانوالہ شہر کا نائب امیر تھا، وہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا [جماعتی] زندگی کا اور یہ ہماری نرسری ہے، میں خود اس کی پیداوار ہوں۔ ہم پیداوار ہیں جے ٹی آئی کے اور جے ٹی آئی پیداوار ہے شیخ الہندؒ کے فکر کی۔ جے ٹی آئی پیداوار ہے کس کی؟ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کی۔ وہ ایک مدرسہ کے صدر مدرس تھے لیکن ان کا فکر کیا تھا؟ انہوں نے جدید تعلیم اور قدیم تعلیم کے لوگوں کو آپس میں ملایا تھا، علی گڑھ اور دیوبند کا رشتہ قائم کیا، دونوں کو اکٹھا کیا، اور تاریخ اس بات کو دیکھ رہی ہے۔

آپ ذرا اگر تاریخ پہ نظر رکھتے ہیں، تو تحریکِ خلافت لے لیں، تحریکِ آزادی لے لیں، تحریکِ پاکستان لے لیں، ان تینوں بڑی تحریکوں میں قیادت مشترک تھی قدیم تعلیم اور جدید تعلیم کی۔ تحریکِ خلافت میں مولانا محمد علی جوہرؒ علی گڑھ کے فارغ تھے اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ دیوبند کے فارغ تھے، اور مولانا ظفر علی خانؒ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ اکٹھے تھے۔ میں تاریخ کا ایک سوال ذکر کروں گا، ان کو اکٹھا کس نے کیا تھا؟ تحریکِ خلافت میں آپ کو دونوں اکٹھے نظر آئیں گے۔ ڈاکٹر [سیف الدین] کچلوؒ نظر آئیں گے، حکیم اجمل خانؒ نظر آئیں گے، اور یہ حضرات علماء کرام بھی۔ ان کو اکٹھا کس نے کیا تھا؟ تحریکِ آزادی میں آپ کو شیخ الہندؒ بھی نظر آئیں گے، اور حتیٰ کہ گاندھی بھی نظر آئیں گے، دوسرے بھی نظر آئیں گے۔ اور تحریکِ پاکستان میں آپ کو قائد اعظمؒ بھی نظر آئیں گے اور مولانا عثمانیؒ بھی نظر آئیں گے۔

یہ میرا طلباء کے سامنے بنیادی سوال ہے کہ تینوں تحریکوں میں مولوی اور مسٹر، اس کے پیچھے سوچ کیا تھی، کس نے اکٹھا کیا تھا؟ آپ کو سوائے شیخ الہندؒ کے کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آئے گا۔ دونوں کو اکٹھا بٹھایا، اکٹھے کام کرو یار۔ اور جس تحریک میں دونوں اکٹھے ہوئے ہیں، اللہ پاک نے کامیابی دی ہے۔ یہ دوسری بات، تاریخ کا طالب علم ہوں، جس تحریک میں دونوں اکٹھے ہوئے ہیں، اللہ پاک نے کامیابی دی ہے۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے۔ یہ ضرورت تب بھی تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ دونوں طبقے اکٹھے ہو کر ملک کی، قوم کی، دین کی خدمت کریں۔ ہماری آج بھی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ دونوں قوتیں اکٹھی ہوں، اکٹھے بیٹھیں، ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کریں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے اور یہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت بٹھائی گئی ہے، یہ مزاج ہمارا تقریباً‌ نچلی سطح پر ہے کہ ہم مولوی لوگ جو ہیں نا، کسی کالج والے کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں چٹا گمراہ ہے، ہمارا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے۔ اور آپ حضرات جب ہم میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ککھ پتہ نئیں اینوں‘‘۔ یہ ہمارا ابتدائی تاثر ہوتا ہے۔ یہ تاثر ہی ہے، نہ آپ گمراہ ہیں، نہ ہم بے وقوف ہیں۔ یہ مل کر بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کا پتہ چلتا ہے، ایک دوسرے کی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔

بس میں لمبی بات نہیں کرتا۔ مجھے خوشی ہو رہی ہے اس حوالے سے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں، سوچ رکھتے ہیں۔ اِس زمانے میں یہ سوچ کہ میں نے دین کی، ملک کی، قوم کی خدمت کرنی ہے، یہ سوچ اس زمانے میں بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم تو افراتفری کا شکار ہیں۔ قیامت کے دن تو نفسا نفسی ہو گی، ہم یہاں نفسا نفسی کا شکار ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نفسانفسی کیا ہو گی۔ ہم یہاں دنیا میں نفسا نفسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اپنے علاوہ کسی کی فکر، قوم کی، دین کی، ملک کی، بہت بڑی نعمت ہے۔ اس سوچ کو غنیمت جانیں اور مل جل کے کام کریں۔

ایک بات اور کہہ کہ بات سمیٹوں گا۔ ہمارے چچا محترم تھے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ، بڑوں میں سے تھے، بڑے تھے۔ میں شروع سے ہی بھاگ دوڑ کرنے والا آدمی ہوں۔ ایک دن مجھے بڑے مزے کی بات کی۔ کہتے ہیں زاہد! دیکھو، میں تمہاری حرکتیں دیکھ رہا ہوں، تمہارا آنا جانا دیکھتا ہوں۔ کبھی یہ سمجھ کر کام نہ کرنا کہ میں کر رہا ہوں، یہ ذہن میں ہو اللہ پاک مجھ سے کام لے رہا ہے۔ کبھی یہ نہ سمجھنا میں کر رہا ہوں، بڑے بڑے کچھ نہیں کرتے، چھوٹے چھوٹے بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ یہ ذہن میں رکھنا کہ اللہ پاک مجھ سے کام لے رہا ہے، اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا۔

ان دو باتوں پر کہ (۱) یہ سوچ کہ ملک کی، دین کی، قوم کی خدمت کے لیے کچھ کرنا ہے، یہ بھی اللہ کی دین ہے۔ (۲) اور اس سوچ کے لیے کچھ کام کرنے کی توفیق ہوتی ہے نا، یہ بھی کس کی دین ہے؟ اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں، اپنا کام کرتے رہیں، اور اس کے لیے جتنی محنت زیادہ کر سکیں، اس کو غنیمت سمجھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

https://www.facebook.com/share/v/1CxcrpojoS

2016ء سے
Flag Counter