(۱۰ دسمبر ۲۰۲۵ء کو جامعہ دارالعلوم کالاشاہ کاکو میں عالمی مجلس مفتیان کرام کی آن لائن نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج دس دسمبر ہے جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس چارٹر پر مختلف نشستوں میں ہم نے بات کی ہے، آگے بھی کرتے رہیں گے ان شاء اللہ، لیکن آج ایک اصولی بات کہ ہیومن رائٹس چارٹر کیا ہے، اس کے ساتھ ہمارے معاملات کیا ہیں، آج ذرا ایک جنرل قسم کی بات کروں گا۔
۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ تیس نکاتی چارٹر منظور کیا تھا، جسے ہیومن رائٹس ڈکلیریشن کہا جاتا ہے، اور اسے دنیا میں ممالک، اقوام، طبقات، اور مختلف گروہوں کے درمیان معاملات کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ یہ چارٹر خود کو معیار کے طور پر پیش کرتا ہے کہ آئندہ اقوام و ممالک کے درمیان اور مختلف طبقات کے درمیان یہ چارٹر ہی معیار ہو گا معاملات طے کرنے کا، اور کسی کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے کا۔ یہ میرا ہم عمر ہی ہے۔ میری پیدائش ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء کی ہے اور اس کی پیدائش ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کی ہے، گویا میری عمر سوا ڈیڑھ مہینہ زیادہ ہے اس سے۔ میری زندگی کے اہم موضوعات میں یہ انسانی حقوق کا چارٹر بھی ہے جس پر میں گفتگو کیا کرتا ہوں، لکھا بھی بہت ہے، بات بھی بہت کرتا ہوں، اور میرے تحفظات بھی ہیں جو میں اظہار کرتا رہتا ہوں۔ آج میں دو تین باتیں اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ کہ اس چارٹر کی بنیاد کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے تحفظات کیا ہیں؟ اور تیسری بات یہ کہ چارٹر والوں کا اپنا طرزعمل اس حوالے سے کیا ہے۔
جہاں تک اس کے پس منظر کا تعلق ہے، بات یہ ہے کہ مغرب کے جو قرونِ مظلمہ کہلاتے ہیں، ڈارک ایجز کہلاتے ہیں، بادشاہ، جاگیردار اور پاپائے روم، ان کی مشترکہ حکمرانی تھی، ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے تھے، ایک دوسرے کی سپورٹ کرتے تھے، اور باقی سارے لوگ ان کے سامنے جیسے غلام ہوتے ہیں ویسے ہوتے تھے۔ یورپ نے واقعتاً کئی صدیاں اس تکون کے مظالم کے نیچے گزاری ہیں، اس لیے ان کی بغاوت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ انہوں نے جو بغاوت کی اور اب بھی جو نفرت پائی جاتی ہے اس کے پس منظر میں وہ ظلم کی کئی صدیاں ہیں، جو بادشاہ، جاگیر دار اور پوپ نے مل کر کیے ہیں، اس تکون کے مظالم نے یورپ کو مذہب اور جاگیرداری و بادشاہت سے باغی کیا۔ ۱۷۹۰ء کے لگ بھگ فرانس کا انقلاب آیا۔ مارٹن لوتھر کا انقلاب فکری تھا۔ اور فرانس میں جو جاگیرداری اور بادشاہت کا تختہ الٹا گیا اور پوپ کو معاشرتی معاملات سے لاتعلق قرار دیا گیا، یہ انقلابِ فرانس کہلاتا ہے۔ اس کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ وہ مظالم کے خلاف ری ایکشن تھا۔ اور دوسری بات اس کی یہ ہوئی کہ پہلی جنگ عظیم جب ہوئی اور اس میں تباہی پھیلی تو جنگوں کو روکنے کے لیے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ بنی، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر، کہ ہم آئندہ اقوام و ممالک کے درمیان جنگوں کو روکیں گے، قوموں کو آپس میں نہیں لڑنے دیں گے، لیکن وہ ناکام ہو گئی، لیگ آف نیشنز کے ہوتے ہوئے بھی دوسری جنگِ عظیم ہو گئی اور اس سے زیادہ تباہی پھیلی۔
پھر ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ کے نام سے یہ نئی تنظیم بنی، جس کا ہیڈکوارٹر نیویارک میں ہے، اور اس میں تقریباً دنیا کے اکثر ممالک شریک ہیں۔ انہوں نے اپنے اصول کے طور پر ہیومن رائٹس چارٹر منظور کیا تھا، جس کے تیس نکات ہیں۔ اور قومی، سیاسی، معاشرتی، سماجی، تہذیبی مسائل اس میں تقریباً سارے سمیٹے گئے ہیں، اور اس پر مغربی نقطۂ نظر کی بنیاد پر قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں اور اس کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے دنیا کے اقوام کے درمیان جب بھی کوئی معاملہ ہوتا ہے تو ہیومن رائٹس چارٹر کی بنیاد پر اس پر غور کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق پورے کرتے ہیں یا نہیں کرتے، کہیں خلاف ورزی تو نہیں ہے، اور اس کی خلاف ورزی پر باقاعدہ نوٹس بھی لیا جاتا ہے۔ نوٹس دیے بھی جاتے ہیں، نوٹس لیا بھی جاتا ہے، اور کارروائیاں بھی ہوتی ہیں، میں اس وقت زیادہ تفصیل نہیں کر سکوں گا۔ لیکن بہرحال اس چارٹر کو تمام مسائل کی اور تمام معاملات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی معاہدات میں ام المعاہدات کہلاتا ہے، اس کی حیثیت ام المعاہدات کی ہے۔ اور ہر سال اس کا دن منا کر اس کو اجاگر کیا جاتا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے پوری دنیا کو۔
ہمارے اس کے بارے میں دو تین تحفظات ہیں۔ تحفظات کی وجہ کیا ہے؟ دیکھیں، ایک بات آپ کو حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ دنیا کے جتنے مذاہب بھی ہیں، سب مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ معاشرتی کردار میں، معاشرتی معاملات میں، سماجیات میں مذہب کا کوئی دخل نہیں، وہ ہم خود طے کریں گے۔ مذہب کا تعلق ہے اللہ سے، اللہ کی عبادت سے، عقیدے سے، یا زیادہ سے زیادہ اخلاقیات سے۔ لیکن تمام مذاہب کے اس کردار کے باوجود مسلمان آج تک مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار نہیں ہوا، یہ حقیقت سب کو تسلیم کرنا ہو گی۔ مسلمان آج بھی اپنے خاندانی مسائل اور اپنے مقامی معاشرتی مسائل دین کی بنیاد پر ہی طے کرتا ہے۔ اخلاقیات کی بنیاد بھی دین ہے، خاندانی نظام کی بنیاد بھی دین ہے، معاشرتی تعلقات کی بنیاد بھی دین ہے۔ حکمران طبقات دستبردار ہو گئے ہوں گے، بلکہ لگتا ہے کہ ہو گئے ہیں، یا ہو جائیں گے، لیکن عوام مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک، جہاں بھی آپ مسلم سوسائٹی دیکھیں گے، ان کے معاشرتی معاملات میں مذہب موجود ہے، اپنا کردار ادا کر رہا ہے، بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ آپس کے جھگڑے بھی ہم مذہب کے نام سے ہی لڑتے ہیں۔
(۱) ہمارا ایک تحفظ یہ ہے کہ انسانی حقوق میں حقوق العباد کا تو ذکر کیا گیا ہے، حقوق اللہ نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اسلام کی اصطلاح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ہے۔ اللہ کے اپنے حق ہیں جو ہم پر لازم ہیں، اور بندوں کے اپنے حق ہیں جو ہم پر لازم ہیں، دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور ہمارے نزدیک دونوں کے توازن پر سماج کی گاڑی چلتی ہے۔ انسانی حقوق کے چارٹر اور معاہدات میں اللہ اور اس کی ہدایات اور وحی کو نظر انداز ہی نہیں کر دیا گیا بلکہ عملاً نفی کر دی گئی ہے۔ ہمارا پہلا تحفظ یہ ہے۔ اس تحفظ کی بنیاد کیا ہے کہ ہم تو دستبردار نہیں ہوئے، ہم پر کیوں مسلط کرتے ہو؟ میں مغرب کے دانشوروں سے کہا کرتا ہوں کہ ٹھیک ہے پاپائیت، جاگیرداری اور بادشاہت کے تکون کا ظالمانہ کردار تمہارا پس منظر ہو گا۔ ہمارا نہیں ہے۔ ہمارے علماء تو ہزار سال پہلے بھی حکومت کے ہاتھوں جیل میں جاتے تھے، مارے بھی جاتے تھے، شہید بھی ہوتے تھے، جیل سے جنازے بھی نکلتے تھے، لڑتے بھی تھے۔ ہمارا پس منظر وہ نہیں ہے جو تمہارا ہے۔ آج بھی ہم مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اس لیے ہم پر یہ جو معاہدات مسلط کیے جا رہے ہیں، جبراً مسلط کیے جا رہے ہیں۔ اس جبر میں ہمارے حکمران آلۂ کار ہیں ہر ملک میں۔ ایک تو ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن سماج کے صحیح رخ پر چلنے کے لیے ضروری ہے، جو اس میں بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
(۲) دوسری بات، ہمیں ہیومن رائٹس چارٹر سے جو تحفظات ہیں ان میں ایک بڑا تحفظ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے بنیادی شرعی احکام اس چارٹر میں بالکل ختم کر دیے گئے ہیں۔ قرآن پاک اور سنتِ رسول ہماری بنیاد ہے۔ قرآن و سنت کے منصوص مسائل، قطعی مسائل، جن میں ہم خود بھی ردوبدل نہیں کر سکتے، وہ اس چارٹر میں بالکل ختم کر دیے گئے ہیں۔ اس کی تفصیل اپنے مقام پر، لیکن ہمیں تحفظات ہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل، شرعی مسائل، قرآن و سنت کے منصوص مسائل کی نفی کی گئی ہے۔ اجتہادی مسائل میں تو چلو ہم بھی کوئی گنجائش پیدا کر لیں گے، لیکن منصوص مسائل کی بھی نفی کی گئی ہے اور ہم سے بھی ان کی نفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
(۳) تیسری بات، ہمارا تحفظ آج کی مغربی اقوام سے اور بالخصوص اقوام متحدہ کی عملی مقتدرہ سے یہ ہے کہ آپ نے لفظوں میں تو تہذیبوں کو تحفظ دیا ہے، اسی چارٹر میں تہذیبوں کو تحفظ کا حق دیا ہے، لیکن مسلم تہذیب کے پیچھے آپ کیوں ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں؟ مسلمانوں کی اپنی تہذیب ہے۔ آپ وہاں تحفظ دے رہے ہیں کہ تہذیبوں کا تحفظ ہر قوم کا حق ہے، لیکن مسلمان کا حق کیوں نہیں ہے؟ ہمارے تہذیبی مسائل، ہمارے معاشرتی مسائل، ہمارے سماجی مسائل آپ اپنے عقائد کی بنیاد پر کیوں طے کروانا چاہتے ہیں؟ جس سے ہمارے ہاں ایک خلفشار ہے۔
آج سے ربع صدی پہلے جب اقوام متحدہ اپنی پچاس سالہ تقریبات منا رہی تھی، اس وقت عالم اسلام کے لیڈروں میں مہاتیر محمد سب سے آگے تھے، او آئی سی کے صدر تھے اور ملائشیا کے وزیر اعظم تھے، ابھی حیات ہیں، اللہ پاک ان کو صحت دے۔ انہوں نے ایک آواز اٹھائی تھی، جس کو بار بار اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دو سوال کھڑے کیے تھے۔
- ایک یہ کہ جتنے بھی بین الاقوامی معاہدات ہیں، جن میں ام المعاہدات ہیومن رائٹس چارٹر ہے، باقی تقریباً چھبیس ستائیس معاہدات کا ذکر ہوتا ہے جن کا ہم سے پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پہ تحفظات ہیں، دینی اعتبار سے بھی اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ ہمارے تحفظات پر غور کرنا ضروری ہے۔ مہاتیر محمد نے یہ کہا تھا کہ ان معاہدات پر نظرثانی کی جائے۔ ظاہر بات ہے جب دو فریق معاہدہ کرتے ہیں تو انہیں اس پہ نظرثانی کا حق بھی ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر نظرثانی کی بھی جاتی ہے۔ تو مہاتیر محمد نے او آئی سی کے فورم پر یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہمیں ان پہ نظرثانی کے لیے حالات پیدا کرنے چاہئیں، یہ نہیں کہ ہم انہیں ختم کریں، نظرثانی کی بات کر رہے ہیں، میز پہ بیٹھ کہ نظرثانی کی جائے اور ہمارے تحفظات دور کیے جائیں۔ ہمارے تحفظات دینی بھی ہیں، سماجی بھی ہیں، ثقافتی بھی ہیں، سیاسی بھی ہیں، ان تحفظات کو دور کیا جائے اور بیٹھ کر دوبارہ طے کر لیا جائے۔
- دوسری بات یہ تھی کہ دیکھیں اقوام متحدہ کا نظام کیا ہے؟ ایک تو جنرل اسمبلی ہے، جنرل اسمبلی میں ہر ملک رکن ہے۔ سال میں ایک مرتبہ جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں جو بھی آئے جو مرضی کہے۔ میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کہا کرتا ہوں۔ لندن میں ہائیڈ پارک ہے بہت بڑا، میں نے دیکھا ہوا ہے، اس کا ایک کارنر مخصوص ہے جو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کہلاتا ہے۔ وہاں پچھلے پہر لوگ آتے ہیں، اس کارنر کے حدود میں جو آدمی جو بھی کہے وہ کسی قانون کی زد میں نہیں آتا۔ سارا غبار وہاں نکالتے ہیں۔ کوئی بادشاہ کے خلاف کرے، کوئی دین کے خلاف کرے، کوئی خدا کے خلاف کرے، اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہاں تماشا لگا ہوتا ہے۔ ان تماشوں میں میں بھی کئی دفعہ شریک ہوا ہوں۔ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی لندن کا ہائیڈ پارک کارنر ہے، سال کے بعد ملکوں کی حکومتوں کے نمائندے آتے ہیں، اپنا غبار جھاڑتے ہیں، اپنا غصہ نکالتے ہیں اور پھر اپنے ملکوں میں جا کر سو جاتے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فیصلوں کا اختیار سلامتی کونسل کے پاس ہے۔ جنرل اسمبلی ڈیبیٹ فورم ہے، کچھ بھی نہیں ہے یہ، زیادہ سے زیادہ قرارداد کر دے گا، قرارداد میں سفارش کرے گا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔
فیصلے کرتی ہے سلامتی کونسل۔ سلامتی کونسل کے پانچ ارکان تو تاحیات ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ صرف یہ نہیں کہ ہمیشہ کے لیے ہیں، بلکہ ان کو ویٹو پاور بھی حاصل ہے کہ ساری اقوام متحدہ ایک طرف ہے، ان میں سے کوئی ایک بھی ویٹو کر دے تو فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔ ویٹو پاور پانچ ملکوں کو حاصل ہے: امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ یہ کونسی جمہوریت کونسی ڈیموکریسی ہے کہ ساری دنیا ایک طرف ہے، ایک ملک ایک طرف ہے، فیصلہ اس ملک کا نافذ ہو گا، وہ ویٹو کر دے گا تو ہر چیز ختم ہو جائے گی۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے، کہاں کا انصاف ہے؟ لیکن یہ موجود ہے۔ ان پانچ ملکوں کی رکنیت دائمی ہے، باقی چھ منتخب ہوتے ہیں، کبھی کوئی آجاتا ہے کبھی کوئی آجاتا ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ جمہوریت کیسی ہے کہ ایک ملک ایک طرف ہے، چار ایک طرف ہیں، یا گیارہ میں سے دس ایک طرف ہیں، ایک ایک طرف ہے تو ایک بھاری ہے۔ اور دوسری بات کہ ویٹو پاور مستقل ہے جو تبدیل نہیں ہوتی کہ آج اِس کی ہے کل اُس کی، اس میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ جبکہ ہم دنیا کی مجموعی آبادی کا اگر چوتھا حصہ نہیں ہیں تو پانچواں تو پکے ہیں۔ ہم تو کلیم کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی آبادی کا چوتھائی حصہ ہیں۔ چلو نہیں مانتے آپ تو پانچواں حصہ ہی مانیں، لیکن ویٹو پاور ہمارا ایک بھی نہیں ہے۔ وجہ؟ فیصلوں کا اختیار، فیصلوں کی اتھارٹی اَن بیلنسڈ ہے۔ معاہدات پہ ہمارے مذہبی اور تہذیبی تحفظات ایک مسئلہ ہے، اور فیصلوں کی اتھارٹی میں یہ بالکل یکطرفہ نظام دوسرا مسئلہ، کہ ایک بھی مسلمان ملک کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے۔ تو یہ دو مسئلے اٹھائے تھے مہاتیر محمد نے کہ ہم اس پہ بات کرتے ہیں، لیکن وہ ماحول نہیں بنا سکے۔
میں اپنا المیہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارا مسلمانوں کا المیہ کیا ہے۔ پبلک ساری ایک طرف ہے، آپ مراکش کی عوام کو لے لیں، آپ نائجیریا کی عوام کو لے لیں، آپ ازبکستان کی عوام کو لے لیں، عرب کے عوام کو لے لیں، ایشیا کو لے لیں، عوام کے جذبات ایک طرف ہیں مگر رولنگ کلاس اور اسٹیبلشمنٹ دوسری طرف ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ دوہرا کردار ادا کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہر جگہ دوہرا کردار ادا کیا ہے۔ جہاں اسلام سے فائدہ اٹھانے کی بات آئی ہے وہاں آگے جھنڈا لے کے کھڑے ہوئے ہیں ’’اسلام، اسلام، اسلام‘‘۔ اور جہاں اسلام کو درپیش خطرات کو روکنے کی بات ہوئی ہے وہاں پچھلی صف میں بیٹھے ہوئے ہیں اور منہ میں گھونگنیاں ڈالی ہوتی ہیں کہ ہوتا پھرے، وہاں مولوی لڑیں، وہاں نظریاتی لوگ لڑیں، وہاں جماعتیں لڑیں۔ کیوں جی؟ یہ ہمارا المیہ ہے۔ پچیس پہلے جو مہاتیر محمد نے او آئی سی کی طرف سے جو تحفظات پیش کیے تھے، ہمارے تحفظات آج بھی وہ ہیں۔
ہم انسانی بنیادوں پر کسی اتحاد کے انکاری نہیں ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’’حلف الفضول‘‘ کو پسند فرمایا تھا جو انسانی بنیادوں پر ہوا تھا۔ مکہ مکرمہ کا یہ معاہدہ معروف ہے کہ مظلوم کی مدد کریں گے، مستحق کو امداد پہنچائیں گے، یہ انسانی بنیادوں پر تھا۔ حلف الفضول حضورؐ نے پسند فرمایا تھا اور حضورؐ اس میں شریک بھی ہوئے تھے۔ ہمیں بھی انکار نہیں ہے انسانی بنیادوں پر معاملات سے، لیکن انصاف کی بنیاد پر، عدل کی بنیاد پر، برابری کی بنیاد پر۔
آج انسانی حقوق کے چارٹر کا ۷۸واں دن منایا جا رہا ہے، ہم یہ بات دوہرائیں گے کہ ہم اپنے اصول پر قائم ہیں، ایک تو ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے دین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، نہ اس کے معاشرتی کردار سے، نہ اس کے قانونی کردار سے، نہ اس کے سیاسی کردار سے۔ سیاسی کردار کیا ہے کہ حکومتوں کی بنیاد اسلام ہو، یہ ہمارے ہاں پاکستان میں ہے۔ قانونی کردار کیا ہے کہ عدالتی نظام قرآن و سنت کے مطابق ہو، ہم اس پہ کھڑے ہیں۔ اور سماجی کہ معاشرے کے مسائل، خاندانی مسائل، آپس کے مسائل، یہ مذہب کی بنیاد پہ طے ہوں۔ ان تحفظات کے ساتھ آج انسانی حقوق کا عالمی دن منانے میں ہم بھی شریک ہیں، لیکن اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری سمجھتے ہیں، او آئی سی کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کو محسوس کریں۔ اس تضاد کو محسوس کریں جس کی نشاندہی کئی دفعہ ہو چکی ہے، اس کا نوٹس لیں اور عالمِ اسلام کو اس مخمصے سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر نہیں ادا کریں گے تو چلو وہ پندرہ پندرہ بیس بیس سال عیاشی کر لیں گے لیکن تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ اللہ کو پتہ نہیں یہ مانتے ہیں کہ نہیں مانتے، لیکن تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ مسلم امت کی بربادی میں ہمیشہ ان کا نام ریکارڈ پر ہو گا اور آنے والا دور اور آنے والی نسلیں ان کے اس کردار کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ اللہ پاک ہمیں، ہر طبقے کو، ہر ملک کو، اور ہر قوم کو صحیح رخ پر اپنا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

