حضرت عائشہؓ کا علمی مقام

   
تاریخ : 
۱۲ ستمبر ۱۹۹۸ء

جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم (برطانیہ) میں تقسیم انعامات کی سالانہ تقریب تھی اور طالبات کی تین کلاسوں کے سالانہ امتحانات میں امتیازی حیثیت حاصل کرنے والی بچیوں کو سرٹیفیکیٹ اور میڈل وغیرہ دینے کا پروگرام تھا۔ مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کے چیئرمین ڈاکٹر اختر الزمان غوری صدارت کر رہے تھے جبکہ مہمان خصوصی کی مسند پر دوستوں نے مجھے بٹھا دیا تھا۔ دوسرے مہمانوں میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری، بحرین سے دعوت اسلام کے پروگرام ’’ڈسکور اسلام‘‘ کے ڈائریکٹر الشیخ احمد خان، دینہ ضلع جہلم سے مسلم کانفرنس (س) کے راہنما مولانا فضل الٰہی تاج پوری، جامع اسلامیہ لتھم کے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق، ممتاز ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی اور دیگر حضرات شامل تھے۔ طالبات کے والدین کے علاوہ علاقہ کے دیگر سرکردہ بزرگوں نے بھی شرکت کی۔ جامعہ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور اسلامک ہوم اسٹڈی کورس کے ڈائریکٹر مولانا اورنگزیب خان نے انعامات کا اعلان کیا اور ہم اردو بولنے والوں کی انگلش میں ترجمانی کے فرائض سر انجام دیے۔ تقریب کے شرکاء نے جامعہ الہدیٰ کی تعلیمی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس دینی ادارہ کا افتتاح دو سال قبل مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کے ہاتھوں ہوا تھا اور آج یہ انہی کی سرپرستی میں دینی تعلیم و تربیت کے فروغ کے لیے خوب سے خوب تر کی منزل کی طرف گامزن ہے۔ تقریب کے آخر میں شیخ الحدیث مولانا عبد الحق سواتی کی دعاء پر تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

راقم الحروف نے اس موقع پر طالبات کی دینی تعلیم کے اداروں کے نصاب تعلیم اور اس کی ضروریات کے حوالہ سے مختصر گفتگو کی جسے بعض دوستوں نے پسند کیا اور انہی کا اصرار ہے کہ اسے قلمبند بھی کیا جائے۔ چنانچہ وہ گزارشات درج ذیل سطور میں پیش کی جا رہی ہیں۔

ہمارے دینی حلقوں میں عام طور پر یہ بحث رہتی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا نصاب کیا ہونا چاہیے اور بچیوں کے لیے مخصوص دینی مدارس میں طالبات کو کیا کچھ پڑھانا چاہیے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں ہمارے سامنے سب سے بڑا اور روشن اسوہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہے جو درس گاہ نبویؐ کی سب سے کامیاب طالبہ اور امت کی سب سے بڑی معلمہ تھیں۔ ان کے علمی فضل و کمال کا یہ عالم ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’نصف دین ان سے حاصل کیا جائے‘‘۔ یہ نصف اگر مقدار کے لحاظ سے نہ بھی ہو تو کیفیت کے لحاظ سے ضرور نصف دین ہے۔ اس لیے کہ چار دیواری کے اندر رسول اللہؐ کی زندگی اور تعلیمات کا کم و بیش نوے فی صد حصہ انہی سے روایت ہے۔ وہ حدیث نبویؐ کے پانچ بڑے راویوں میں سے ہیں بلکہ خواتین میں احادیث نبویؐ کی سب سے بڑی راویہ ہیں۔ انہیں دور صحابہؓ کے ان سات بڑے مفتیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو خلافت راشدہ کے دور میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فتویٰ بھی دیتی تھیں، دوسرے مفتیوں کے فتویٰ پر نقد بھی کرتی تھیں، اور اجتہاد کا حق پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کرتی تھیں۔ وہ قرآن کریم کی مفسرہ تھیں اور احکام اسلام کی حکمت اور فلسفہ بیان کرنے میں امتیازی شان رکھتی تھیں۔ حتیٰ کہ بعض محققین نے انہیں ’’علم اسرار دین‘‘ کی بانیہ قرار دیا ہے یعنی احکام شرعیہ کی حکمت و فلسفہ بیان کرنے میں پہل انہوں نے کی جس پر آگے چل کر امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے فضلاء نے عظیم الشان دینی فلسفہ کی بنیاد رکھ دی۔

حضرت عائشہؓ عرب قبائل کی روایات، تاریخ، اور کلچر پر اس حد تک عبور رکھتی تھیں کہ لوگ اس سلسلہ میں ان سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ انہیں عرب قبائل کے نسب ناموں سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل تھی۔ وہ سخن فہم اور سخن شناس تھیں اور عرب شعراء کے اشعار ان کی نوک زبان پر ہوتے تھے۔ خود بھی ادب و فصاحت سے بہرہ ور تھیں اور انہیں اپنے دور کے بڑے خطباء میں شمار کیا جاتا تھا۔ علمی اور فقہی معاملات کے علاوہ عوامی مسائل پر بھی کھل کر رائے دیتی تھیں اور خلفاء راشدین جیسی شخصیات بھی بہت سے امور میں ان سے راہنمائی حاصل کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کا ارشاد ہے کہ ’’ہم اصحاب رسولؐ کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پھنسے جس کے بارے میں ہمیں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس راہنمائی نہ ملی ہو‘‘۔ اس کے علاوہ طب علاج پر بھی دسترس رکھتی تھیں اور ان کے سب سے بڑے شاگرد اور بھانجے حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دور میں حضرت عائشہؓ سے زیادہ طبی معلومات رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔

حضرت عائشہؓ کی مسند تدریس نصف صدی تک مدینہ منورہ میں آباد رہی اور سینکڑوں تشنگان علوم نے ان سے استفادہ کیا۔ صف حدیث رسولؐ میں ان کے براہ راست شاگردوں کی تعداد دو سو سے زائد بیان کی جاتی ہے جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ یہ سب معلومات ان کے سیرت نگاروں نے مختلف کتابوں میں بیان کی ہیں۔ اور اس سلسلے میں علامہ سید سلیمان ندوی نے ’’سیرت عائشہؓ‘‘ میں بیشتر معلومات کو جمع کر دیا ہے جس کا مطالعہ ہر دینی اور علمی ذوق رکھنے والی خاتون کو کرنا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے یہ سب کچھ کہاں سے سیکھا تھا؟ وہ جب حرم نبویؐ میں داخل ہوئیں تو ان کی عمر صرف نو برس تھی جس پر بہت سے لوگوں کو اعتراض بھی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ عین حکمت و دانش کا تقاضہ تھا کہ رسول اکرمؐ کے حرم میں ایک خاتون اس عمر میں آئیں جو سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کی عمر ہو اور وہ بیوی کی حیثیت رکھتی ہوں تاکہ کسی بات کے پوچھنے سمجھنے اور سیکھنے میں حجاب نہ ہو۔ اور امت تک دین کا وہ حصہ بلا کم و کاست پہنچ سکے جو میاں بیوی کے تعلقات اور گھر کی چار دیواری کے اندر کے حالات کے حوالہ سے ہے اور اس تعلیم و تربیت میں اور کسی قسم کی آمیزش نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے بالکل نیا اور صاف ذہن درکار تھا جس کا اعزاز ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا اور انہوں نے امت کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی معلمہ کی حیثیت سے خود کو اس کا اہل ثابت کر دکھایا۔ وہ حرم نبوی میں داخل ہوئیں تو نو برس کی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ اٹھارہ انیس برس کے لگ بھگ تھیں۔ ظاہر بات ہے کہ انہوں نے ان علوم و کمال کا بڑا حصہ رسول اللہؐ کے گھر میں ہی حاصل کیا کیونکہ ان کی درسگاہ وہی تھی اور اسی چشمۂ صافی سے انہوں نے سارا فیض پایا تھا۔

حضرت عائشہؓ کے علمی کمالات پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجیے کہ وہ قرآن کریم کی بہت بڑی مفسرہ تھیں، حدیث رسولؐ کی ایک بڑی راویہ و شارحہ تھیں، دینی مسائل و احکام کی حکمت و فلسفہ بیان کرنے والی دانشور تھیں، عرب قبائل کی روایات و کلچر و نسب ناموں و تاریخ پر عبور رکھتی تھیں، انہیں ادب و شعر و خطابت پر دسترس حاصل تھی، وہ مجتہد درجے کی مفتیہ تھیں، عوامی مسائل پر رائے دینے والی راہنما تھیں، اور طب و علاج کے بارے میں بھی ضروری معلومات سے بہرہ ور تھیں۔ اور یہ سب کمالات انہوں نے درسگاہ نبویؐ سے سیکھے تھے۔ اس لیے میرے نزدیک عورتوں کے لیے کسی دینی درسگاہ کا نصاب یہی ہے اور اس حوالہ سے امت مسلمہ میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سب سے بڑا اسوہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی ذات گرامی ہے جن کو راہنما اور معیار بنائے بغیر ہم اپنی نئی نسل کی بچیوں کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے تقاضے پورے نہیں کر سکیں گے۔

چنانچہ طالبات اور ان کی معلمات سے بطور خاص عرض ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ حصول علم میں آگے بڑھیں۔ وہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اور دیگر جلیل القدر صحابیات رضی اللہ عنہن کی زندگیوں اور علمی کارناموں کا مطالعہ کریں۔ وہ مغرب کے اس پراپیگنڈے سے قطعاً متاثر نہ ہوں کہ اسلام عورتوں کو علم حاصل کرنے سے روکتا ہے، کیونکہ ہمارا شاندار ماضی اور تابناک تاریخ ہمارے سامنے ہے اور امت کی اولوالعزم خواتین کی خدمات اور کارنامے تاریخ کا روشن حصہ ہیں جن کا دنیا کی کوئی اور قوم مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ سب کچھ دینی احکام کے دائرہ میں رہ کر ہو اور شرعی قواعد و ضوابط کی پوری طرح پابندی کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter