رفاہ عامہ۔ نظریات کی ترویج کا سب سے مؤثر ذریعہ

   
تاریخ : 
۲ جولائی ۲۰۰۲ء

گزشتہ دنوں پاک بھارت سرحد کے قریب ضلع نارووال کے قصبہ ظفر وال کے نواح میں اونچا کلاں نامی بستی میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں مدرسہ انوار القرآن کے مہتمم قاری افتخار اللہ شاکر صاحب نے گزشتہ ڈیڑھ ہفتہ سے علماء کرام اور اسکولوں کے ٹیچر صاحبان کے لیے پندرہ روزہ تربیتی پروگرام کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وہ ہر سال موسم گرما کی تعطیلات میں اس کا اہتمام کرتے ہیں جس سے علاقہ کے مختلف دیہات اور قصبات سے علماء کرام اور اسکولوں کے اساتذہ شریک ہوتے ہیں اور حالات حاضرہ کی مناسبت سے متعدد سرکردہ علماء کرام انہیں ضروری مسائل پر بریف کرتے ہیں۔مجھے موجودہ عالمی صورتحال کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان دن بدن تیز تر ہونے والی کشمکش کے علمی و فکری پہلوؤں پر کچھ معروضات پیش کر دیں۔ اس گفتگو کا خلاصہ عرض کرنے سے قبل دو تین باتوں کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں جو میرے لیے اس موقع پر خوشی کا باعث ہیں۔

ایک تو اس علاقہ کے ایک ہندو خاندان کے نومسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی جس کا سابق نام تیرس پرکاش تھا۔ دو سال قبل اس نے اسلام قبول کر کے عبد اللہ نام اختیار کر لیا اور اب دارالعلوم مدنیہ رسول پارک لاہور میں دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس کے جذبات دیکھ کر خوشی ہوئی اور یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ وہ نہ صرف قبول اسلام کے بعد خوش اور مطمئن ہے بلکہ خاندان کے دیگر افراد کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی پھوپھی اپنے بچوں سمیت مسلمان ہو چکی ہے۔ خدا کرے کہ باقی اہل خاندان بھی اس کار خیر میں اس کے ساتھی بن جائیں، آمین۔

دوسرے نمبر پر ایک نوجوان محمد شہباز کے حفظ قرآن کی تکمیل کی تقریب میں شرکت کر کے خوشی ہوئی، یہ بھی اسی علاقے کا رہنے والا نوجوان ہے جس کا والد سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ اس نوجوان نے گزشتہ سال میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد اسے قرآن کریم یاد کرنے کا شوق ہوا جو اس نے قاری افتخار اللہ شاکر کے بقول صرف ساڑھے چار ماہ میں مکمل کر لیا۔ اور ۲۸ جون کو صبح نماز فجر کے بعد مدنی مسجد اونچا کلاں میں راقم الحروف کو آخری سبق سنا کر حافظ قرآن کے لقب سے مشرف ہوگیا۔

راقم نے علماء کرام اور اساتذہ و طلبہ کی مشترکہ نشست میں ان سے گزارش کی کہ وہ موجودہ حالات سے واقفیت حاصل کریں، مسلمانوں کے خلاف مغرب کی مہم کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور مغربیت تہذیب و ثقافت اور اسلام کے درمیان تیزی سے فیصلہ کن مرحلہ کی طرف بڑھنے والی تہذیبی کشمکش کا ادراک کریں۔ یہ عقیدہ کی جنگ ہے، تہذیب و ثقافت کی جنگ ہے اور فکر و فلسفہ کی جنگ ہے۔ مغرب دنیا بھر کے وسائل اور دولت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب، فلسفہ اور نظام حیات کو بھی طاقت کے زور سے دنیا پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور وہ اسلام کو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اسے ہر قیمت پر راستے سے ہٹانے پر تلا ہوا ہے۔

مغرب کو اس جنگ میں سب سے زیادہ مشکل عقیدہ کے محاذ پر پیش آرہی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی بے علم، بے عمل بلکہ بد عمل کیوں نہ ہو، دو چیزوں کے ساتھ بے لچک وابستگی اور دوٹوک کمٹمنٹ رکھتا ہے۔ ایک قرآن کریم ہے اور دوسرا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ دنیا کے کسی خطے کا کوئی مسلمان ان دونوں کے بارے میں کوئی لفظ سننے کا روادار نہیں ہے اور ان کی محبت و احترام میں کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ قرآن کریم کے ایک لفظ کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور اس کے کسی ایک حکم پر بھی عمل نہ کرتا ہو لیکن قرآن کریم کی بے حرمتی برداشت نہیں کرے گا اور قرآن کریم کے کسی حکم کے خلاف کسی قسم کے ریمارکس گوارا کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں پائے گا۔ اسی طرح ایک مسلمان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور سنت نبویؐ پر اس کی زندگی میں عمل نہ پایا جاتا ہو مگر آنحضرتؐ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی اور آپؐ کے کسی حکم کی توہین کو وہ برداشت نہیں کر پائے گا۔ قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی ذات گرامی کے ساتھ عام مسلمان کی یہ جذباتی وابستگی مغرب کے لیے پریشان کن مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ اس وقت مغرب کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ مسلمان کو اس کے عقیدہ سے ہٹا دیا جائے اور ایمانیات کے حوالے سے اسے متذبذب کر دیا جائے۔

امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد ان دنوں امریکی مہم کی نظریاتی محاذ پر قیادت کر رہے ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں پہنچ کر ارباب دانش کے سامنے لیکچروں کی صورت میں امریکی مہم کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دو ماہ قبل جدہ سعودی عرب میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر عقیدہ کو ہدف بنایا اور سعودی دانشوروں سے کہا کہ وہ جب تک نئی نسل کو عقیدہ کی تلقین ترک نہیں کریں گے اور اپنے نصاب تعلیم سے عقیدہ کی تلقین کا عنصر خارج نہیں کریں گے، دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں ان کی شرکت پر اعتماد قائم نہیں ہوگا۔ اگرچہ سعودی حکام نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور سعودی وزیرتعلیم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنے نصاب تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اس سے مغرب کی ذہنیت اور اس کے اہداف کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ یہ جنگ کس حوالے سے لڑ رہا ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔

دنیا بھر کے مسلم ممالک کے عوامی ماحول پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مسلم معاشروں میں ایمان و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر طور پر جو ہتھیار استعمال ہو رہا ہے وہ این جی اوز کا ہے جو رفاہی اداروں کے عنوان سے قائم ہوتی ہیں۔ یہ این جی اوز تعلیم، صحت اور رفاہ عامہ کے دیگر شعبوں میں سرگرم ہوتی ہیں اور اس کی آڑ میں اپنے فکری و تہذیبی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ یہ اس وقت مسلم معاشروں میں شکوک و شبہات پھیلانے، ایمان و یقین کو کمزور کرنے، اور اسلامی احکام و قوانین کے حوالہ سے تذبذب کی فضا قائم کرنے کے لیے مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

اگر میری اس گزارش کو گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری کوتاہی اور غفلت کا زیادہ دخل ہے کیونکہ ہم رفاہ عامہ کے محاذ پر، عوام کی تعلیم و صحت کی بہتری کے محاذ پر، اور ان کے حقوق و مفادات کے محاذ پر سرگرم نہیں ہیں۔ ہم نے ان کاموں کو اپنی ذمہ داریوں کے دائرے سے باہر نکال رکھا ہے اور اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحی مشنریاں اور این جی اوز ہمارے ہاں اربوں روپے صرف کر کے کسی حد تک رفاہی کام بھی کر رہی ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ فکری انتشار اور تہذیبی خلفشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔

ہمارے ہاں رفاہی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے حالانکہ یہ سنت رسولؐ ہے۔ علماء کرام کو اس سلسلہ میں دو واقعات یاد دلانا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ جناب نبی اکرمؐ جب پہلی وحی کے نزول کے بعد غار حراء سے گھر تشریف لائے اور آپؐ پر گھبراہٹ کی کیفیت تھی تو ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آنحضرتؐ کو کن الفاظ کے ساتھ تسلی دی تھی؟ اس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔ ام المومنینؓ نے کہا کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، غریبوں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، ضرورت مندوں کا سہارا بنتے ہیں، اور بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے آنحضرتؐ سے کہا کہ آپ سوشل ورکر ہیں اس لیے آپ بالکل اطمینان رکھیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرنے والوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔

اسی طرح بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب ایک موقع پر جناب نبی اکرمؐ سے اجازت لے کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور اپنا سامان اٹھا کر مکہ مکرمہ سے نکل کھڑے ہوئے تو راستہ میں بنو قارہ قبیلہ کا کافر سردار ابن الدغنہ ملا۔ وہ یہ معلوم کر کے پریشان ہوگیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے مکہ مکرمہ چھوڑ کر ہجرت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ابن الدغنہ نے اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ سے وہی الفاظ کہے جو ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے غار حرا سے واپسی پر جناب نبی اکرمؐ سے کہے تھے۔ اس کافر سردار نے کہا کہ آپ سوشل ورکر ہیں اور کسی سوشل ورکر سے سوسائٹی کا محروم ہو جانا بہت بڑی محرومی ہوتا ہے۔ اس لیے میں آپ کو مکہ نہیں چھوڑنے دوں گا۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ مکہ مکرمہ واپس لایا اور اعلان کیا کہ آج سے ابوبکرؓ ان کی امان میں ہیں اس لیے کوئی شخص ان سے تعرض نہ کرے۔

ان دو واقعات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں سوشل ورک کی اہمیت کیا ہے۔ اس لیے میں علماء کرام اور اساتذہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ عقیدہ کے محاذ پر خصوصی توجہ دیں جس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ نئی نسل کو قرآن کریم کے فہم و شعور سے آراستہ کیا جائے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے انہیں واقف کرایا جائے۔ اور اس کے بعد سماجی خدمت کے محاذ پر کام کو منظم کیا جائے کیونکہ اس میدان کو کلیتاً دشمن کے حوالے کر دینا دانشمندی نہیں ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ان دو محاذوں پر سنجیدگی اور دل جمعی کے ساتھ کام شروع کر دیں اور اسے اپنا مشن سمجھ کر جدوجہد منظم کریں تو فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں مغرب کی یلغار کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter