شہدائے آزادی کی روحوں کا سوال

   
تاریخ : 
۱۶ اگست ۲۰۰۲ء

۱۴ اگست ہمارا یوم آزادی ہے اور ایک نئی اسلامی ریاست کے وجود میں آنے کا دن ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس روز ہم نے برطانوی استعمار کے طوق غلامی سے نجات حاصل کی تھی اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئے ملک کی حدود ابھری تھیں۔ اس ملک کے وجود میں آنے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیامیں کروڑوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمان اپنا الگ تہذیبی وجود رکھتے ہیں، جداگانہ دینی شناخت سے بہرہ ور ہیں، اور اپنے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر ایک مستقل نظام حیات کے حامل ہیں، اس لیے ان کی الگ قومی شناخت کا عملی اظہار ضروری ہے اور ان کی اکثریت کے علاقوں کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے آزاد کرانا ناگزیر ہے۔ تاکہ وہ اپنے عقیدہ، ثقافت اور نظام حیات کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں اور اپنے جداگانہ نظام حیات کی عملداری کا اہتمام کر سکیں۔

’’آزادی‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے دو عنوانات تھے جن کے ساتھ ہم نے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے نام سے نئے سفر کا آغاز کیا تھا اور اس عزم کے ساتھ نئی منزل کی طرف گامزن ہوئے تھے کہ آزادی اور خود مختاری کے ثمرات و نتائج حاصل کریں گے۔ اور اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات کی بنیاد پر ایک مثالی طرز حیات کو قومی حیثیت سے اپنا کر دنیا کے سامنے ایک آئیڈیل سو سائٹی کا نقشہ پیش کریں گے۔ لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کےبعد بھی آزادی اور اسلام کی دونوں منزلیں ہم سے دور ہیں۔ اگر آج کے حالات کا پچپن برس پہلے کے حالات کے ساتھ حقیقت پسندانہ مواز نہ کیا جائے تو اب ہم اس مقام پر بھی کھڑے نظر نہیں آتے جہاں سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو یہ سفر شروع کیا تھا کہ

  • دینی و اخلاقی اقدار دھیرے دھیرے دم توڑتی جا رہی ہیں اور غیرت و حمیت کا جنازہ نکل گیا ہے،
  • ہندو ثقافت اور مغربی تہذیب کے ملغوبے نے آکاس بیل کی طرح ہماری قومی اور معاشرتی زندگی کا احاطہ کر رکھا ہے،
  • اسلام کے ساتھ دو ٹوک کمٹمنٹ اور دین و عقیدہ کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ نہ صرف اجنبی ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کے لیبل لگا کر نئی نسل کو اس سے دور رکھنے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے،
  • عالمی برادری اور بین الاقوامی نظام و قانون کے ساتھ ہم آہنگی کے نام پر قوم کو قرآن و سنت کے واضح احکام و ضوابط سے دستبردار ہونے کی تلقین کی جارہی ہے،
  • اور دینی اقدار و شعائر پر کسی حد تک قائم رہنے والے حلقے رفتہ رفتہ معاشرے کے سمندر میں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔

اسلام اور آزادی کی خاطر ہمارے بزرگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد ہمارے بزرگوں کا اس قدر وحشیانہ قتل عام کیا گیا تھا کہ سر عام درختوں کے ساتھ ان کی لاشیں لٹکتیں نظر آتی تھیں، انہیں کالا پانی کے جزائر کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، تاریخی روایات کے مطابق زندہ انسانوں کو خنزیر کی کھال میں سی کر آگ میں جلا دیا گیا تھا، توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے تھے، زندہ انسانوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ حالت میں ان کے جسموں سے کھالیں کھینچ لی گئی تھیں، آزادی کا نام لینے والے تختۂ دار پر لٹکا دیے جاتے تھے اور اس کا مطالبہ کرنے والوں سے جیلوں کی کال کوٹھڑیاں بھر دی جاتی تھیں۔ یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں بلکہ دو صدیوں کا قصہ ہے جو ۱۷۸۷ء میں بنگال کے غیور نواب سراج الدولہؒ کی شہادت سے شروع ہوا اور ۱۹۴۷ء تک پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ اس میں سلطان ٹیپو شہیدؒ کا نام بھی آتا ہے جس نے اپنے عظیم باپ نواب حیدر علی کی قائم کردہ ریاست سلطنت خدا داد میسور کو اسلامی حمیت اور جدوجہد آزادی کا بیس کیمپ بنا دیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں سے لڑتے ہوئے یہ کہہ کر جام شہادت نوش کیا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘

اسلام اور آزادی کے لیے دی جانے والی ان قربانیوں میں شہدائے بالاکوٹ کا تذکرہ بھی ہے جنہوں نے اسلامیان پاکستان کے دلوں میں جہاد کے جذبے کو ایک بار پھر زندہ کیا اور عملی طور پر میدان جہاد میں کود کر پشاور کے صوبے میں ۱۸۳۰ء میں اسلامی ریاست قائم کرتے ہوئے پاکستان کے قیام سے سوا سو برس قبل’’پاکستان‘‘ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اور پھر ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کر کے اپنے ہم وطنوں کو آزادی کے حصول کے لیے با وقار جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ عزیمت و استقامت کی اس تاریخ میں ایک باب شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کے رفقاء کا بھی ہے جنہوں نے قوم کے لیے آزادی حاصل کرنے کی خاطر ملکوں کی خاک چھانی، در بدر گھومے، آزادی پسند اقوام کے سامنے قوم کی غلامی کی دہائی دی، اور غلامی کی زنجیروں کو ڈھیلا کرنے کے لیے جو کچھ ان کے بس میں تھا کر گزرے۔ اس قافلے میں حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے رفقاء کار ہزاروں علماء کرام بھی شامل ہیں جن کی زندگیوں کے بہترین سال آزادی کی خاطر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں گزرے اور جو تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود بلند آہنگی کے ساتھ آزادی کا نعرہ لگاتے رہے۔

آزادی اور اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والوں میں ان لاکھوں مسلمانوں کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے لیے گھر بار چھوڑے، بے وطن ہوئے، ہزاروں نے جام شہادت نوش کیا، ہزاروں عورتوں کی عصمتیں لٹیں، ہزاروں بچے نیزوں اور تلواروں پر پروئے گئے۔ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان تھے، اسلام کا نام لیتے تھے، اسلام کے نام پر بننے والے نئے ملک سے محبت کرتے تھے، اور ایمانی جوش وجذبہ کے ساتھ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔

پاکستان کے قیام کی جدو جہد کے قائد و بانی محمد علی جناح مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ ’’پاکستان کا دستور قرآن کریم ہوگا اور اس نئے ملک میں اسلامی نظام کی عملداری ہوگی‘‘۔ اس اعلان پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا اطہر علی ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا عبد الحمید بدایونی ، پیر صاحب مانکی شریف ، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ تعالیٰ اور ان کی قیادت میں ہزاروں علماء کرام نے پاکستان کے حق میں رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ لیکن جب ان دو صدیوں پر محیط قربانیوں کے پس منظر میں ہم اپنے نصف صدی کے قومی سفر کو دیکھتے ہیں تو ندامت اور شرمساری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہلاتے ہیں لیکن ہمارے’’اسلام‘‘ اور ’’آزادی‘‘ دونوں پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں عالمی استعمار کے نئے اتحاد نے ہمارے’’اسلام‘‘ اور ’’آزادی و خود مختاری‘‘ دونوں کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ہم بے جان پتلیوں کی طرح وائٹ ہاؤس کے اشارے پر ناچتے چلے جارہے ہیں۔

جنگ آزادی اور تحریک پاکستان کے لاکھوں شہداء و مجاہدین کی روحیں بے چین و مضطرب ہیں اور انتہائی کرب و الم کے عالم میں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہماری قربانیوں اور جدو جہد کے ساتھ تم اسی طرح بے وفائی کرتے رہو گے؟ اور کیا اپنے عمل و کردار سے اسی طرح ان کا مذاق اڑاتے رہو گے؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس اس سوال کو سننے کی فرصت بھی ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter