دینی اداروں میں یوم آزادی کی تقریبات

   
تاریخ : 
۲۳ اگست ۲۰۱۶ء

اس سال ۱۴ اگست کی تقریبات میں دینی مدارس کی پیش رفت اور جوش و خروش کا مختلف مضامین اور کالموں میں بطور خاص تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ واقعہ بھی ہے کہ اس بار دینی مدارس میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے حوالہ سے زیادہ تقریبات منعقد کی گئی ہیں اور جوش و خروش کا پہلے سے زیادہ اظہار ہوا ہے جس کے اسباب پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ میرا ایک عرصہ سے معمول ہے کہ قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی تقریبات میں کسی نہ کسی حوالہ سے ضرور شریک ہوتا ہوں اور عنوان کی مناسبت سے اپنے خیالات و تاثرات بھی پیش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن اس سال اس کا تناسب بہت زیادہ رہا کہ ۱۲ اگست سے ۱۵ اگست تک نو کے لگ بھگ تقریبات اور نشستوں میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کا موقع ملا۔

  1. ۱۲ اگست کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کا خطاب اسی موضوع پر تھا۔
  2. بعد نماز جمعہ مجلس صوت الاسلام، کلفٹن، کراچی کے ’’خطباء تربیتی کورس‘‘ کی آن لائن کلاس میں پشاور، اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ سے کورس میں شریک علماء کرام کی مجالس کے سامنے آزادی اور قیام پاکستان کے مقاصد اور نتائج کو واضح کیا۔ اس آن لائن کلاس میں ہر جمعہ کو تین سے چار بجے میرا بیان ہوتا ہے۔
  3. بعد نماز مغرب مرکزی جامع مسجد امام اہل سنتؒ ، گکھڑ منڈی میں تفصیلی گفتگو کی۔
  4. بعد نماز عشأ مسجد نمرہ، سوئی گیس روڈ، گوجرانوالہ میں تنظیم اسلامی کی خصوصی نشست میں اس حوالہ سے اظہار خیال کیا۔
  5. ۱۳ اگست ہفتہ کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ، مچھلی فارم، فیصل آباد میں مولانا عبد الرزاق کی دعوت پر جامعہ کی تقسیم انعامات کی تقریب میں آزادی اور پاکستان کے مقاصد پر بیان ہوا۔
  6. ۱۴ اگست اتوار کو ۱۱ بجے دن جامعہ شاہ ولی اللہ، اٹاوہ، گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک باوقار تقریب میں شرکت کی اور کچھ معروضات پیش کیں۔ تقریب میں طلبہ نے خطابات کیے اور ترانے پیش کیے۔
  7. بعد نماز ظہر مدرسہ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ، کنگنی والا، گوجرانوالہ میں منعقدہ پروگرام میں اظہار خیال کے علاوہ قومی پرچم لہرانے کی تقریب میں بھی شرکت ہوئی۔
  8. بعد نماز مغرب جامعہ فاروقیہ، چوک امام صاحبؒ ، سیالکوٹ میں اس عنوان پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔
  9. ۱۵ اگست پیر کو ظہر کی نماز کے بعد جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور کی تقریب میں بھی یوم آزادی اور قیام پاکستان کے حوالہ سے گزارشات پیش کیں۔

آزادی اور پاکستان کے بارے میں جو گزارشات میں نے پیش کیں ان کا خلاصہ اگلے چند کالموں میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سردست اس بحث کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو دینی مدارس کی اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ کے اسباب کے بارے میں بعض مضامین میں کی گئی ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چونکہ دیوبندی مکتب فکر کے بعض بڑے اکابر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اس لیے ان سے عقیدت رکھنے والے دینی مدارس ایسی تقریبات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ بعض حضرات کی طرف سے تعریضاً بھی یہ کہا گیا ہے کہ اب ان مدارس کو ریاستی دباؤ بڑھنے پر اچانک ’’یوم پاکستان‘‘ یاد آگیا ہے۔ میرے خیال میں یہ تجزیہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

جبکہ اس کے بعد مسلسل سات عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سا لمیت و استحکام اور اسے اپنے مقاصد کے مطابق ایک اسلامی رفاہی ریاست بنانے کی جدوجہد میں وہ حلقے بھی برابر کے شریک چلے آرہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے خلاف تھے۔ اور ان کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جو اس کے منافی ہو۔ خود مجھ سے ایک محفل میں سوال کیا گیا کہ قیام پاکستان کی حمایت اور مخالفت کے اختلاف کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ میں نے اس پر عرض کیا کہ میری پیدائش پاکستان بن جانے کے ایک سال بعد ہوئی ہے اس لیے میں اپنی ولادت سے پہلے کے تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہتا۔ اس پر مجھے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک قول یاد آیا کہ ان سے کچھ لوگوں نے صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان میں سے کسی کے خون سے آلودہ ہونے سے بچا لیا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو بھی ان میں سے کسی کے بارے میں لب کشائی سے محفوظ رکھیں گے۔

اس لیے مذکورہ بالا تبصرہ و تجزیہ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو میرے خیال میں زیادہ قرین قیاس ہے ۔ وہ یہ کہ ہمارے مسلکی حلقوں میں دن منانے کو ویسے ہی ناپسند کیا جاتا ہے، اس لیے کہ دینی حوالوں سے کوئی نیا دن منایا جائے یا نیکی کے کسی کام کے لیے کسی دن کو مخصوص کر کے اسے شرعی حیثیت دے دی جائے تو وہ بدعت ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ دین کے معمولات میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے۔ جبکہ ایسے کسی کام کو فضیلت اور ثواب کے عنوان سے شرعی حیثیت نہ دی جائے تو وہ محض رسم و رواج کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ فرق عام طور پر نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے بزرگوں نے قرآن و سنت میں منصوص شرعی ایام سے ہٹ کر دینی حوالہ سے کوئی نیا دن منانے کو پسند نہیں کیا۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ قبل بعض حلقوں کی طرف سے حضرات خلفائے راشدینؓ کے ایام وفات سرکاری طور پر منائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اس سے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح لوگ اسے دین کا حصہ سمجھنے لگیں گے جو کہ درست نہیں ہے۔

میرے خیال میں دینی مدارس کے قومی ایام میں اب تک زیادہ دلچسپی نہ لینے کی اصل وجہ یہ ہے۔ لیکن اب چونکہ اسے غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے اور دینی مدارس کے خلاف مہم میں اسے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے دینی مدارس اس تاثر کو زائل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ جبکہ اگر ان ایام کو شرعی دائرے میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے اور قومی ضروریات کے دائرے میں رکھ کر ان کا اہتمام کیا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کی افادیت ان تحفظات سے بہرحال زیادہ ہے جن کے باعث دینی مدارس کی دلچسپی اس بارے میں اب تک کم چلی آرہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter