سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ

   
تاریخ: 
ستمبر ۱۹۹۵ء

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ اسلام دین فطرت ہے۔ دین و مذہب کے اعتبار سے، عقیدہ و ایمانیات کے اعتبار سے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کے اعتبار سے تمام انبیاء کا مشترکہ دین ہے، یہ دین حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا۔ انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے ادوار میں حالات کی ضروریات کے تحت انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ دین اسلام میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور زمانوں کا احاطہ کیا ہے، جناب نبی کریمؐ نے جب تکمیلِ دین کا اعلان کیا تو انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ باقی نہیں رہا تھا جس میں انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی کا سامان باہم نہ پہنچا دیا گیا ہو۔

سیاست بھی انسانی سوسائٹی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ سیاست کسے کہتے ہیں؟ قوم کی اجتماعی قیادت کرنا، ان کے لیے نظام حکومت قائم کرنا، اس نظام حکومت کا نظم اچھے طریقے سے چلانا اور اجتماعی معاملات میں قوم کی راہنمائی کرنا، اسے سیاست کہتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرامؑ نے اس شعبے میں بھی وحی الٰہی کی بنیاد پر انسانیت کی راہنمائی کی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کرامؑ کا تذکرہ فرمایا ہے جو اپنے اپنے دور میں وقت کے حکمران بھی تھے اور دینی و مذہبی معاملات میں قائد بھی تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کو فرعون سے آزادی دلانے کے لیے جدوجہد کی اور بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے چھٹکارا دلوا کر ان کی حکومت قائم کی، اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کا تذکرہ حضرت موسٰیؑ کے خلیفہ کے طور پر آتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنے دور میں پیغمبر بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر آتا ہے کہ وہ اپنے دور میں پیغمبر بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے ایسی بادشاہت جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لی۔ حضرت سلیمانؑ اپنی بادشاہت کے لیے دعا مانگا کرتے تھے ’’قال رب اغفرلی وھب لی ملکًا لا ینبغی لاحد من بعدی انک انت الوھاب‘‘ (سورۃ ص ۳۵) کہا کہ اے میرے رب مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی اور کو میسر نہ ہو آپ بڑے عطا کرنے والے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ کی بادشاہت ایسی تھی جو انسانوں پر تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنوں پر بھی تھی، ہوا پر بھی تھی اور پرندوں پر بھی تھی۔ انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سینکڑوں کی تعداد میں ایسے گزرے ہیں جو اپنے وقت میں پیغمبر بھی تھے اور حکمران بھی، چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے سیاسی راہنمائی کو بھی حضرات انبیاء کرامؑ کے فرائضِ منصبی میں ذکر فرمایا ہے۔

سیرت طیبہ کے حوالے سے دو باتیں بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ پہلی یہ کہ پوری نسل انسانی میں رسول اللہؐ کے سوا زندگی کے کسی شعبے کی کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کے حالات زندگی اس قدر تفصیل کے ساتھ اور اس قدر اعتماد کے ساتھ ریکارڈ پر محفوظ ہوں۔ نہ سیاست کے شعبے میں، نہ قانون کے شعبے میں، نہ تجارت کے شعبے میں، نہ مذہب کے شعبے میں، نہ علم و فلسفے کے شعبے میں اور نہ ہی زندگی کے کسی اور شعبے میں۔ تاریخ انسانی میں کوئی دوسری شخصیت ایسی نہیں ہے جس کی زندگی کے ایک ایک مرحلے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہوں۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہؐ کے سوا پوری نسل انسانی میں کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ جس کی شخصیت اس قدر جامع ہو کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے راہنمائی ملتی ہو، یہ جناب رسول اللہؐ کا اعجاز ہے اور یہ بھی حضورؐ کے معجزات میں سے ایک ہے۔

ایک جامع شخصیت

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس قدر جامع ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر کردار کا نمونہ ملتا ہے۔ آپؐ ایک امین بھی تھے کہ مکہ کے لوگ اپنی امانتوں کو آپؐ کے پاس محفوظ رکھتے تھے۔ آپ ایک حکم و منصف بھی تھے کہ عرب قبائل کے درمیان حجرِ اسود کی تنصیب کا معاملہ کس خوش اسلوبی سے طے فرمایا۔ آپؐ تاجر بھی تھے کہ حضرت خدیجہؓ کے تجارتی قافلے دوسرے ملکوں میں لے کر جاتے اور تجارت کرتے تھے۔ آپؐ ایک مبلغ بھی تھے کہ لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف بلاتے اور بدی و برائی سے روکتے تھے۔ حق و باطل کی لڑائی میں آپؐ ایسے فوجی کمانڈر بن کر ابھرے کہ اِس پر تاریخ میں مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ رسول اللہؐ منصب انصاف پر فائز تھے کہ آپ قاضی اور جج بھی تھے، خود آپؐ کے پاس بھی مقدمات آتے تھے جن کے آپؐ فیصلے سنایا کرتے تھے، اور پھر باقی قاضیوں کے پاس جو مقدمات آتے ان کے فیصلوں پر اپیلیں حضورؐ کی خدمت میں آتی تھیں جن پر حضورؐ فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ آپ ایک سیاسی لیڈر بھی تھے کہ مختلف قبائل کے وفود آپ کے پاس آتے تھے جن سے آپ مذاکرات اور گفتگو فرماتے تھے۔ آپ اپنی ریاست کے سب سے بڑے ڈپلومیٹ سب سے بڑے سفارت کار بھی تھے کہ آپؐ دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کو بھی نبھاتے تھے۔ نبی کریمؐ اپنی ریاست کے منتظم اعلیٰ بھی تھے کہ ریاست کے داخلی معاملات کے متعلق فیصلے بھی آپؐ خود فرمایا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ کے امام بھی تھے کہ آپؐ نماز خود پڑھاتے تھے۔ جناب نبی کریمؐ ایک خطیب بھی تھے کہ خطبۂ جمعہ اور دیگر خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے۔

یہ میں نے انسانی زندگی کے ان اہم کرداروں میں سے چند کا ذکر کیا ہے جو جناب نبی کریمؐ نے نبھائے۔ پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ حضورؐ ایک شعبے میں اچھے تھے اور دوسرے شعبے میں خدانخواستہ کمزور تھے، رسول اللہؐ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر تھے اور افضل الانبیاء تھے اللہ تعالیٰ نے جو شعبہ بھی حضورؐ کے سپرد کیا اس میں حضورؐ کی کارکردگی کا معیار انتہا پر تھا، یہ جناب نبی کریمؐ کی جامعیت ہے۔

خلفاء اسلامؓ، نبوی ذمہ داریوں کے وارث

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون بعدی خلفاء‘‘ کہ بنی اسرائیل کے انبیاء اپنی قوموں کے پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی قائد بھی تھے، جب ایک نبی دنیا سے تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی ان کی جگہ آجاتے جیسے حضرت موسٰیؑ کی جگہ حضرت یوشع بن نونؑ نے لی، بنی اسرائیل میں یہ تسلسل چلتا رہا۔ جناب نبی کریمؐ بھی اسی طرح اپنی قوم کے سیاسی قائد تھے، رسول اللہؐ نہ صرف امتِ مسلمہ کے قائد تھے بلکہ آپ نسلِ انسانی کے بھی سب سے بڑے سیاسی قائد تھے۔ رسول اللہؐ نے اس حدیث میں یہ بات فرمائی ’’لا نبی بعدی‘‘ کہ پہلے انبیاء میں تو تسلسل تھا اور نبوت جاری تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سوال یہ ہوا کہ جب آپ کے بعد نبی کوئی نہیں آئے گا تو یہ خلا کون پُر کرے گا، آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اس لیے آپؐ کے بعد سیاسی قیادت کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ پھر آپ نے فرمایا ’’فسیکون بعدی خلفاء‘‘ کہ میرے بعد یہ منصب اور ذمہ داری خلفاء نبھائیں گے، یعنی میرے بعد خلافت کا نظام ہوگا اور خلفاء کا سلسلہ ہوگا جو نبوی ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے۔

رسول اللہؐ نے جہاں زندگی کے باقی شعبوں میں راہنمائی کی ہے وہاں آپ نے اپنی امت کی سیاسی قیادت بھی کی، آنحضرتؐ نے اپنی سیرت و سنت کے حوالے سے اجتماعی نظام دیا ہے جسے نظام خلافت کہتے ہیں۔ جناب رسول اللہؐ کی ساری زندگی اس نظام کی تعلیم و تکمیل کے مراحل پر مشتمل ہے جبکہ خلافت کا یہ نظام اپنی آب و تاب کے ساتھ خلافت راشدہ کے دور میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے دنیا کو ایک حکومتی نظام دیا، حکومتی نظام کو چلانے کے لیے راہنما اصول دیے اور اس کے لیے قیادت تیار کی۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر تاریخِ اسلام میں مستقل تصانیف تحریر کی گئی ہیں لیکن میں سربراہِ مملکت اور نظام حکومت کے حوالے سے دو بنیادی اصولوں پر گفتگو کرنا چاہوں گا۔

(۱) پہلا اصول یہ کہ حاکم وقت کا معیارِ زندگی معاشرے کے ایک عام آدمی کے معیارِ زندگی کے مطابق ہونا چاہیے۔

(۲) دوسرا اصول یہ کہ معاشرے کے ہر فرد، بالخصوص اصحابِ علم و دانش کو حاکم وقت کے احتساب کا حق ہونا چاہیے۔

سربراہِ مملکت کا معیارِ زندگی

حاکم وقت کو اپنی رعیت کی نظر میں کیسا ہونا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز زندگی سے خود بھی اِس کی مثال پیش کی اور آپؐ کے بعد اصحابِ خلافت راشدہ نے بھی اسی طرز کا معیارِ زندگی برقرار رکھا۔ جناب رسالت مآب نے اپنے دور کے سب سے کمزور طبقے کے برابر اپنا معیارِ زندگی رکھا، اس پر علماء نے اور صوفیاء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں کہ حضورؐ کا فقر اختیاری تھا۔ رسول اللہؐ کے گھر میں کئی کئی دن تک آگ نہیں جلتی تھی، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خاندان نبوت میں ہم نے معمولی قسم کی کھجوریں تین دن مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپؐ چاہتے تو کیا زندگی کی سہولتیں حاصل نہ کر سکتے تھے؟ لیکن نبی کریمؐ نے ایک پیغمبر ہوتے ہوئے، کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے، چیف جسٹس ہوتے ہوئے، منتظم اعلیٰ ہوتے ہوئے اور حاکم وقت ہوتے ہوئے اپنا معیارِ زندگی معاشرے کے عام طبقے کے برابر رکھا۔ آپؐ خیال فرمائیے کہ اِس معاملے میں رسول اللہؐ کس قدر حساس تھے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ کا ہم سب کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا تھا کہ کسی اور خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ نہ ہوتا ہوگا، حضورؐ نے خود فرمایا کہ میں اپنے گھر والوں کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں۔

حضورؐ کا معیارِ زندگی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کے ساتھ زندگی میں ایک مرتبہ ناراضگی کا مرحلہ آیا جس کی وجہ یہ تھی کہ غزوۂ خیبر میں جب مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو صحابہ کرامؓ کے گھروں میں خوشحالی آئی اور معاشی صورت حال میں آسانی پیدا ہوئی جس کی بدولت سے معیارِ زندگی کچھ بہتر ہوا۔ ازواجِ مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا کہ لوگوں کے گھروں میں تو سہولتیں آئی ہیں ہمارے گھروں میں بھی آنی چاہئیں۔ آپس میں صلاح مشورہ کر کے طے کیا کہ جب حضورؐ گھر تشریف لائیں گے تو آپس میں سب اکٹھی ہو کر حضورؐ سے بات چیت کریں گی۔ چنانچہ نبی کریمؐ ایک زوجہ محترمہ کے گھر میں آئے تو پروگرام کے مطابق سب ازواج وہاں اکٹھی ہو گئیں، انہوں نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو اپنا ترجمان بنایا۔ حضرت عائشہؓ نے اپنی گفتگو اس انداز سے کی کہ یارسول اللہ! ہمارا زیادہ وقت پھٹے ہوئے کپڑے سینے سلانے میں گزر جاتا ہے اگر تھوڑی سہولت ہمیں بھی حاصل ہو جائے تو اچھی زندگی گزار سکیں گی اور اطمینان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں گی، باقی لوگوں کے گھروں میں اگر سہولت آئی ہے تو ہمارے گھروں میں بھی آنی چاہیے۔ رسول اللہؐ اس پر ناراض ہوگئے کہ تم لوگوں نے یہ سوال کیوں کیا، اور قرآن کریم نے اس پر وعید اتاری ’’یا ایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیٰوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتکن واسرحکن سراحًا جمیلًا‘‘ (سورۃ الاحزاب ۲۸) کہ اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش منظور ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے پیغمبر اِن سے کہہ دیجیے کہ اگر دنیا چاہیے تو اِس گھر میں نہیں ملے گی یہاں تو اسی طرح گزارا کرنا ہوگا۔ ایک ریاست کے سربراہ کے طور پر یہ جناب نبی کریمؐ کا ایک اہم پہلو تھا۔ اور پھر خیال فرمائیے کہ اس کی پیروی آپؐ کے خلفاء میں کیسے ہوئی، آنحضرتؐ کے وصال کے بعد آپؐ کے جانشینوں نے اِس طرزِ عمل کی پیروی کیسے کی؟

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معیارِ زندگی

حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ذریعہ معاش کے لیے مدینہ کی نواحی بستیوں میں کپڑے بیچا کرتے تھے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام کے خلیفۂ اول منتخب ہوئے، منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد دوسرے دن کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائے بازار میں جا رہے تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ سے ملاقات ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ یا خلیفۃ رسول اللہ کہاں جا رہے ہیں؟ اس زمانے میں امیر المؤمنین کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی تھی یہ اصطلاح حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں آئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ کپڑے بیچنے جا رہا ہوں، حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ تو خلیفۃ المسلمین ہیں اگر آپ کپڑے بیچنے نکل پڑیں گے تو مسلمانوں کے معاملات کون نمٹائے گا۔ آپ کی عدم موجودگی میں کسی ملک کا وفد آگیا کوئی مقدمہ آگیا یا کوئی ریاستی مسئلہ درپیش ہوا تو اسے کون نمٹائے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر میں مسجد میں بیٹھ گیا تو بچے کہاں سے کھائیں گے، میرا تو یہ ذریعہ معاش ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جناب آپ گھر تشریف لے جائیے میں اصحابِ شوریٰ کو اکٹھا کر کے اِس مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ اصحابِ شوریٰ کے گھروں میں گئے اور سب کو مسجدِ نبوی میں اکٹھا کیا۔ خلافت راشدہ کے قیام کے بعد سب سے پہلا اجلاس اِسی مسئلے پر ہوا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مسئلہ پیش کیا کہ میں نے راستے میں خلیفۃ المسلمین کو دیکھا کہ گٹھڑی اٹھائے کپڑا بیچنے جا رہے تھے، یہ بال بچے دار ہیں اگر یہ کام نہیں کریں گے تو بچے کہاں سے کھائیں گے۔ اس لیے ہمیں بیت المال سے خلیفۃ المسلمین کے لیے تنخواہ مقرر کرنی چاہیے۔ چنانچہ سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ خلیفۃ المسلمین کے لیے بیت المال سے تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، پھر اس بات پر بحث ہوئی کہ خلیفۃ المسلین کی تنخواہ کتنی ہونی چاہیے؟ اُس وقت کے امیر المؤمنین بیک وقت حاکم وقت بھی تھے، چیف جسٹس بھی تھے اور افواج کے کمانڈر بھی تھے، تمام بڑے بڑے عہدے ان کے پاس تھے۔ تنخواہ کے متعلق مختلف آرا سامنے آئیں لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ کے ایک عام آدمی کا تخمینہ لگایا جائے کہ اس کا خرچہ کتنا ہے اس کے مطابق خلیفۃ المسلمین کی تنخواہ مقرر کر دی جائے۔ یہ وہی اصول تھا جو رسول اللہؐ نے قائم کیا تھا کہ حاکم وقت کا معیارِ زندگی عام آدمی کے برابر ہونا چاہیے۔

حضرت ابوبکرؓ کی تنخواہ کتنی مقرر ہوئی؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگا لیجیے کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے آخری عرصے میں عید کا وقت قریب آرہا تھا۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ یا خلیفۃ المسلمین! عید کا دن قریب آرہا ہے عید کے دن بچوں کے لیے کچھ میٹھا پکانے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میرے پاس تو اِس کی گنجائش نہیں ہے مجھے تو بیت المال سے جو راشن ملتا ہے میں اس سے زیادہ نہیں لے سکتا اور میرا اپنا کوئی کاروبار نہیں ہے اس لیے یہ خیال رہنے ہی دو۔ اہلیہ نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے طور پر انتظام کروں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا، ٹھیک ہے اگر کر سکتی ہو تو کر لو۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد عید کا دن آیا اور حضرت ابوبکرؓ تیاری کر کے عید گاہ کی طرف جانے لگے تو دیکھا کہ اہلیہ نے میٹھا پکایا ہوا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے پوچھا یہ بندوبست کہاں سے کیا ہے ہمارے پاس تو اس کی گنجائش نہیں تھی۔ اہلیہ نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں بیت المال سے راشن کا جو آٹا روزانہ آتا ہے، میں نے اس میں سے ایک مٹھی آٹا الگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ چند دنوں میں اتنا آٹا ہوگیا کہ اس میں سے آدھا آٹا بازار میں بیچ کر میں نے گڑ اور تیل منگوایا، باقی آدھا آٹا اس میں گوندھ کر حلوہ بنا لیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا ابھی تک کسی نے کھایا تو نہیں؟ جواب ملا نہیں ابھی کسی نے نہیں کھایا۔ فرمایا دیگچی لاؤ، آپؓ نے دیگچی منگوا کر اٹھائی اور چل دیے۔ حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراحؓ جو بیت المال کے انچارج تھے ان سے جا کر فرمایا کہ ابو عبیدہؓ ! یہ حلوہ ابوبکر کے گھر والوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ مدینہ منورہ کے یتیموں اور بیواؤں کا حق ہے۔ اور سنو! آج کے بعد میرے گھر میں ایک مٹھی آٹا کم بھیجا کرنا کیونکہ ہمارا گزارا ایک مٹھی کم آٹے سے بھی ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کس خطے کا کس مذہب کا کس نظام کا کونسا حکمران ہے جو اس کی مثال پیش کر سکے؟ رسول اللہؐ اور ان کے خلفاء نے حکمرانی کا یہ معیار بتایا کہ حکمرانی برتری اور فخر کا نہیں بلکہ فریضے اور ذمہ داری کا نام ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا معیارِ زندگی

ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ بیمار ہوگئے۔ طبیب آئے حال احوال دیکھا نبض دیکھی اور بتایا کہ انتڑیاں خشک ہو گئی ہیں کچھ دن زیتون کا تیل استعمال کریں یہی آپ کا علاج ہے۔ فرمایا میرے گھر میں تو زیتون کا تیل نہیں ہے۔ کسی نے بتایا کہ بیت المال میں زیتون کا تیل موجود ہے۔ فرمایا اچھا! بیت المال میں زیتون کا تیل ہے، ابو عبیدہؓ کو بلائیں۔ پوچھا عبیدہ بیت المال میں زیتون کا تیل ہے؟ بتایا، جی حضرت! موجود ہے۔ پوچھا کتنا ہے؟ بتایا کہ حضرت ! بہت ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ یہ تیل مدینہ منورہ کے سب لوگوں میں تقسیم کیا جائے تو میرے حصے میں کتنا آتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت پھر وہ اتنی مقدار کا نہیں ہوگا کہ کھانے کے قابل ہو۔ آپؓ نے فرمایا بس اس سے زیادہ حق میرا بیت المال پر نہیں ہے۔ بیت المال کی چیز مدینہ منورہ کے لوگوں میں برابر تقسیم ہو کر جو حصہ میرے حصے میں آتا ہے بس وہی میرا حق ہے اس سے زیادہ میں نہیں لے سکتا۔ طبیب نے کہا کہ حضرت! بطور قرض لے لیں۔ پوچھا کیا تم ضمانت دیتے ہو کہ اگر میں قرض نہ ادا کر سکا تو تم ادا کرو گے؟

میں نے عرض کیا کہ خلفائے راشدین نے جناب نبی کریمؐ کی تعلیمات کے مطابق نظام حکومت کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا کا کوئی نظام اسے دہرا نہ سکا۔ یہ اللہ کے رسولؐ کی حکمت تھی کہ حاکم وقت عام آدمی کے معیار کے مطابق زندگی گزارے گا تو عام لوگوں کی مشکلات و مسائل سے آگاہ ہوگا اور انہیں حل کرنے کی فکر کرے گا۔

حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کا معیار

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ کا ایک واقعہ تاریخ والے لکھتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف سے وفود کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، رواج کے مطابق ملکوں کے وفد دوسرے ملکوں میں جاتے تھے تو تحفے تحائف لے کر جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ قیصرِ روم نے تحفے میں عورتوں کے استعمال کی خوشبو بھیجی جو پاؤڈر کی شکل میں تھی۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اسے عورتوں میں کیسے تقسیم کیا جائے، ساتھیوں نے کہا کہ حضرت! اپنی زوجہ محترمہ کو دے دیجیے کہ وہ اسے عورتوں میں تقسیم کر دیں گی۔ حضرت عمرؓ گھر تشریف لے گئے اور اہلیہ محترمہ کو بتایا کہ یہ خوشبو تحفے میں آئی ہے اسے عورتوں میں تقسیم کرنا ہے اس کے لیے ساتھیوں نے تمہارا نام تجویز کیا ہے اس لیے تم اسے تقسیم کر دو لیکن پہلے مجھے بتاؤ کہ تمہاری تقسیم کا طریقہ کیا ہوگا؟ اہلیہ نے کہا کہ عورتوں کو اکٹھا کروں گی اور سب میں برابر برابر تقسیم کر دوں گی۔ پوچھا اپنا حصہ کتنا رکھو گی؟ بتایا کہ جتنا دوسروں کو دوں گی اتنا ہی اپنا بھی رکھوں گی۔ فرمایا کہ خوشبو کا وہ حصہ جو تقسیم کرتے وقت ہاتھ پر لگ جائے گا وہ کس کھاتے میں جائے گا؟ اس لیے یہ خوشبو سب میں تقسیم کرو لیکن اپنا حصہ کم رکھنا۔ دنیا کا کونسا حکمران ہے جو انصاف کو اس درجے پر قائم رکھ سکے۔

حاکم وقت کے احتساب کا حق

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کا نظام قائم کیا اور معاشرے کے ہر فرد کو احتساب کا حق دیا، ایک مرتبہ ایک صحابیؓ کو باتوں باتوں میں حضورؐ نے چھڑی مار دی جس سے اس کے جسم پر خراش آگئی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہؐ میں آپ سے بدلہ لوں گا۔ آپ نے اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوراً چھڑی اس کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر دی۔ جب حضرت ابوبکرؓ حضورؐ کے جانشین کے طور پر خلیفہ بنے اور مسجد نبوی میں آئے تو پہلا خطبہ یہ ارشاد فرمایا کہ لوگو! میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں۔ یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی انکساری اور کسرِ نفسی تھی ورنہ ’’افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیقؓ‘‘ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات کے بعد نسلِ انسانی کی بزرگ ترین شخصیت جناب ابوبکر صدیقؓ کی تھی۔ فرمایا کہ میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں لیکن میں تم پر حکمران بنا دیا گیا ہوں اگر میں سیدھا سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو لیکن اگر میں ٹیڑھا چلوں اور میرے طرزِ عمل میں کہیں کجی نظر آئے تو مجھے سیدھا کر دو۔ خلیفۃ المسلمین اپنے پہلے خطبے میں اپنی رعیت کو یہ حق دے رہا ہے کہ اگر میں کسی معاملے میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دینا۔

جب خلیفہ بنے تو یہی بات حضرت عمر فاروقؓ نے بھی دہرائی۔ آپؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگو ! ابوبکر صدیقؓ نے مجھے تم پر اپنا جانشین مقرر کیا ہے اور تم پر اپنا امیر بنا دیا ہے۔ پھر پوچھا کہ میں اگر سیدھا سیدھا چلوں گا تو میرا ساتھ دو گے لیکن اگر میں ٹیڑھا چلوں گا تو تمہارا طرزِ عمل کیا ہوگا؟ ایک بدو صحابیؓ نے کھڑے ہو کر اپنی تلوار لہرائی کہ پھر ہم تلوار سے آپ کو سیدھا کر دیں گے۔ اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ عمر کی رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمر کو تلوار کے ساتھ سیدھا رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے لوگوں کو احتساب کا تصور اور آزادیٔ رائے کا یہ حق دیا کہ ایک بار جب حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المال سے ایک خاندان کے لیے راشن پہنچایا تو گھر کی بڑھیا نے رات کی تاریکی میں حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر عمر اپنی رعیت کے بھوکوں کا خیال نہیں کر سکتا تو اسے اپنے عہدے پر فائز رہنے کا حق نہیں ہے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد احتساب کے اس تصور کو خلفائے اسلام نے کس طرح قائم رکھا؟ امیر المؤمنین حضرت معاویہؓ بیس سال تک مسلمانوں کے متفقہ امیر المومنین رہے ان کے بارے میں تاریخ ایک دلچسپ واقعہ نقل کرتی ہے۔ طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ نے ایک دن جمعے کے خطبے کے دوران ایک جملہ فرمایا ’’انما المال مالنا والفئی فیئنا من شئنا أعطیناہ و من شئنا منعناہ‘‘ کہ بیت المال کا مال ہمارا مال ہے اور غنیمت کا مال ہمارا مال ہے ہم جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں۔ یعنی بیت المال کی دولت اور غنیمت کے مال پر ہماری مرضی ہے کہ جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں۔ اس پر ایک جمعہ گزر گیا۔ اگلا جمعہ آیا تو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ بات پھر دہرا دی، لوگوں میں کچھ کھسر پھسر ہوئی کہ یہ کیا بات ہو رہی ہے۔ تیسرا جمعہ آیا تو حضرت معاویہؓ نے ایک بار پھر یہی بات دہرا دی۔ دمشق کی جامع مسجد میں جمعے کا یہ خطبہ ہو رہا تھا اجتماع میں سے ایک آدمی کھڑا ہوگیا اس نے کہا کہ امیر المؤمنین بات سنیے، یہ تیسرا جمعہ ہے کہ آپ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ سنیے، یہ بیت المال کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ مسلمانوں کا مال ہے ہم کسی کو مسلمانوں اور بیت المال کے درمیان حائل نہیں ہونے دیں گے۔ جمعہ کے بعد حضرت معاویہؓ نے اس شخص کو اپنے گھر بلا لیا، کچھ لوگ پیچھے گئے کہ اگر کوئی بات سختی کی ہوئی تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔ اندر گئے تو دیکھا کہ حضرت معاویہؓ نے اسے اپنی مسند پر بٹھا رکھا ہے اور خود اس کے سامنے مؤدب بیٹھے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ’’ان ھذا أحیانی أحیاہ اللّٰہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ اسے زندگی دے اس نے مجھے نئی زندگی عطا کی۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ اصل قصہ یہ ہے کہ میں جو یہ بات دہرا رہا تھا تو میں ایسا قصداً کر رہا تھا کہ اس سے میرا ایک مقصد تھا۔ فرمایا کہ میں نے رسول اللہؐ سے یہ ارشاد سنا کہ میرے بعد میری امت میں کچھ حکمران ایسے بھی آئیں گے جو میرے منبر پر کھڑے ہو کر جو جی میں آئے گا کہیں گے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا کوئی باز پرس نہیں کرنے والا ہوگا، ایسے حکمران جہنم میں بندروں کی طرح چھلانگیں لگاتے پھریں گے۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ جب پہلے جمعے میں مجھے کسی نے اس بات پر نہیں ٹوکا تو مجھے یہ بات کھٹکی کہ معاویہؓ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ دوسرے جمعے میں نے پھر یہ بات دہرائی کہ شاید اب کوئی کھڑا ہو، جب پھر کوئی نہیں کھڑا ہوا تو مجھے پریشانی لاحق ہو گئی کہ یہ مسئلہ تو خراب لگتا ہے، کہیں میں رسول اللہؐ کی پیشین گوئی کی زد میں تو نہیں آرہا۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں اس شخص نے کھڑے ہو کر مجھے ٹوک دیا اور مجھے حضورؐ کی اس پیشین گوئی کی زد سے نکالا۔ حضرت معاویہؓ صحابہ کرامؓ میں آخری خلیفہ ہیں ان کا معیار یہ ہے کہ وہ خود احتسابی کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو نبی کریمؐ کی پیشین گوئی پر پرکھ رہے ہیں۔

حاکم وقت کا احتساب، رعیت کا حق یا ذمہ داری؟

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت کا جو تصور پیش کیا اس میں عام لوگوں کو احتساب کا حق دیا کہ اگر حاکم وقت میں کوئی غلط بات دیکھیں تو ٹوک دیں۔ آج کے نظام سیاست میں اور اسلام کے نظام سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے۔ حاکم وقت اگر کوئی بات یا عمل حق کے خلاف کر رہا ہو یا نا انصافی اور ظلم کا معاملہ کر رہا ہو تو اسے اِس طرز عمل سے روکنے کو آج کی دنیا ہر شہری کا حق قرار دیتی ہے۔ لیکن حاکم وقت کے خلاف تنقید کرنا اسے اس کی غلطی پر ٹوکنا اور اس کی غلط بات کی نشاندہی کرنا، اسلام نے اسے حق نہیں بلکہ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اسلام کے اور آج کے مروجہ نظام سیاست میں یہ فرق ہے۔ حق تو اختیاری ہوتا ہے کہ کوئی اپنا حق استعمال کرے یا نہ کرے لیکن رسول اللہؐ نے یہ اختیار نہیں دیا بلکہ بالخصوص علماء کے حوالے سے یہ فرمایا کہ غلط بات کو غلط کہنا پڑے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جو عالم ایک ظالم حکمران کے ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے وہ اپنی ذمہ داری سے گریز کر رہا ہے، جناب نبی کریمؐ نے اسے جہاد قرار دیا ’’افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ کہ سب سے بہتر جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

ایک حدیث میں جناب نبی کریمؐ نے ان لوگوں کو جو ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کا حوصلہ نہ کریں، شیطان کا ساتھی قرار دیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جو میرے منبر بیٹھتا ہے اور ظالم کے ظلم کو ظلم نہیں کہتا ’’شیطان أخرس‘‘ وہ گونگا شیطان ہے۔ لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ بھلائی کی بات ایسے انداز سے کہی جائے کہ جس میں خیرخواہی ہو۔ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ! دین کیا ہے؟ فرمایا خیرخواہی کا نام دین ہے۔ پوچھا کس کی خیرخواہی؟ فرمایا ’’للّٰہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم‘‘ کہ اللہ کے لیے خیرخواہی (اللہ کی بندگی) ، اللہ کے رسول کے لیے خیرخواہی (رسول اللہؐ کی نصیحت پر عمل)، مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی (غلط باتوں پر تنقید) اور عوام الناس کی خیرخواہی۔ یعنی غلط بات پر موقع محل کی مناسبت سے تنقید کرنا ایک ذمہ دار شہری کا فریضہ ہے لیکن یہ تنقید ایسے انداز سے ہو کہ اس میں دشمنی کا پہلو نہ ہو بلکہ خیرخواہی کا پہلو ہو۔ جناب نبی کریمؐ نے حکمرانوں کی غلطیوں کو درست کرنے کو دین قرار دیا اور اسے جہاد کا درجہ دیا۔

میں نے اپنی گفتگو میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام حکومت کی دو بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ کہ آپؐ نے ایک حاکم وقت کے طور پر اپنا معیارِ زندگی عام لوگوں کے مطابق رکھا، اس میں حکمت یہ تھی کہ ایک حاکم وقت عام لوگوں کے مسائل و مشکلات سے صحیح طور پر آگاہی اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جبکہ وہ خود روز مرّہ زندگی کے ان مسائل و مشکلات سے گزرے۔ اگر حکمرانوں اور عوام الناس کے معیارِ زندگی میں فرق ہوگا تو حکمرانوں کو لوگوں کے مسائل کا صحیح ادراک نہیں ہو سکے گا اور وہ صحیح حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ رسول اللہؐ نے جو طرزِ حکومت متعارف کروایا اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ معاشرے کے ہر فرد کو حاکم وقت کے احتساب کا حق دیا۔ اور بالخصوص معاشرے کے اصحابِ علم و دانش کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ وہ حکمرانوں کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرتے رہیں کہ احتساب کا یہ عمل حکومتی نظام کو صحیح رخ پر چلنے میں مدد دیتا رہے۔ اہل علم اگر امراء کے احتساب سے صرف نظر کریں گے اور جانتے بوجھتے ہوئے ان کے غلط اقدامات کی نشاندہی نہیں کریں گے تو وہ مجرم ٹھہریں گے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں قصوروار ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے سیاسی راہنمائی کا جو تصور پیش کیا اس کی ایک جھلک میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے۔

2016ء سے
Flag Counter