افغانستان میں عالمِ اسلام کی آرزوؤں کا خون

   
تاریخ : 
فروری مارچ ۱۹۹۴ء

افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف غیور افغانوں نے جہاد کے مقدس عنوان پر علم بغاوت بلند کیا تو دنیائے اسلام کے دینی حلقوں میں جوش و جذبہ کی ایک لہر دوڑ گئی کہ جہاد کا بابرکت عمل جو ایک عرصہ سے مغربی استعمار کی سازشوں کے باعث ملت اسلامیہ کی عملی زندگی سے نکل چکا تھا ایک بار پھر نظریاتی بنیادوں پر سفرِ نو کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد افغانستان کے دوران نہ صرف پورے عالم اسلام کے دل افغان مجاہدین کے ساتھ دھڑکے بلکہ دنیا کے ہر خطہ سے پرجوش مسلم نوجوانوں نے افغانستان کی سرزمین پر پہنچ کر اس جہاد میں عملاً حصہ لیا اور اس طرح جہاد افغانستان عالم اسلام کی نظریاتی یکجہتی اور دینی تحریکات میں وحدت و اشتراک کے عنوان کے طور پر دنیا بھر کی توجہات کا مرکز بن گیا۔

جہاد افغانستان کی کامیابی اور کابل میں مجاہدین کی مشترک حکومت کے قیام کے بعد دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو یہ امید تھی کہ اب افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوگی اور مجاہدین کی جماعتیں اور قائدین مل جل کر افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک مثالی عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو دیگر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بعض افغان راہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی اور ہوسِ اقتدار نے عالم اسلام کی آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے اور کابل کی خوفناک خانہ جنگی نے دنیا بھر کی دینی تحریکات کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ اس خانہ جنگی کے پس منظر میں بیرونی لابیاں کام کر رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا کا واحد ٹھیکیدار امریکہ افغانستان کے مختلف گروپوں کے پاس موجود اسلحہ کی بھاری مقدار کو کابل کی مشترکہ کمان کی تحویل میں نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ اس کے خیال میں اس صورت میں کابل اس قدر طاقتور ہو جائے گا کہ اردگرد کی دیگر ریاستوں پر اثر انداز ہو سکے گا۔ اس لیے امریکہ اس اسلحہ کو خانہ جنگی میں اسی طرح ضائع کرا دینا چاہتا ہے جس طرح اس نے ایران میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ عراق ایران جنگ کی صورت میں ضائع کرا دیا تھا۔

اسی طرح امریکہ افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظاموں کی ناکامی کے بعد عالم اسلام اور اسلام کے عادلانہ اور متوازن فلاحی معاشرہ کا آغاز ہوگا جسے آگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جنرل رشید دوستم کے دورۂ امریکہ کے موقع پر حکمت عملی یہ طے کر لی گئی تھی کہ یا تو جنرل دوستم کے اشتراک کے ساتھ کابل میں ایک ڈھیلی ڈھالی حکومت بنوا دی جائے اور یا پھر افغانستان کو تقسیم کر کے وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں اور افغانستان کے درمیان ایک نئی بفر اسٹیٹ قائم کر دی جائے تاکہ کابل کی حکومت ان ریاستوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ یہ ساری باتیں تسلیم، مگر سوال یہ ہے کہ اس سب کچھ کے لیے آلۂ کار کون ہے اور امریکہ ان مقاصد کے لیے استعمال کسے کر رہا ہے؟ پروفیسر برہان الدین ربانی، انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود اگر اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کر سکیں تو یہ ان کا پوری امت پر احسان ہوگا۔

اس ساری صورتحال اگر کوئی بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے تو وہ یہ ہے کہ اس افسوسناک خانہ جنگی میں علماء کی جماعتیں براہ راست شریک نہیں ہیں اور افغان مسلمانوں کا بے مقصد اور بے گناہ خون بہانے کے اس شرمناک عمل میں مولانا محمد نبی محمدی، مولانا محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، اور مولانا ارسلان رحمانی کا نام سامنے نہیں آرہا۔ گویا اس کشمکش میں دینی مدارس کی تربیت یافتہ قیادت کا کردار نسبتاً متوازن اور معتدل ہے۔ لیکن ان چاروں بزرگوں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ افغان مجاہدین کی خانہ جنگی میں ان کا فریق کے طور پر سامنے نہ آنا ایک اچھا عمل ہے جس پر وہ بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں لیکن یہ کردار کافی نہیں ہے۔ انہیں خانہ جنگی کو رکوانے کے لیے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنا چاہیے اور آگے بڑھ کر ان لوگوں کو ان کے منفی طرز عمل کے سنگین نتائج کا احساس دلانا چاہیے جو محض شخصی انا یا گروہی ترجیحات کی خاطر شعوری یا غیر شعوری طور پر عالمی استعمار کا آلۂ کار بن کر افغانستان کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter