قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے

   
تاریخ : 
۲۴ فروری ۲۰۰۰ء

گزشتہ روز میرے ایک کالم کے حوالے سے کسی دوست نے سوال کیا کہ یہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ جس کا تذکرہ آپ اپنے مضامین میں بار بار کرتے ہیں اس کا متن کیا ہے اور ہمارے دستوری مسائل اور اسلامی جدوجہد کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے؟ ممکن ہے دیگر کئی دوستوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال ہو اس لیے قراردادِ مقاصد کا متن، اس کے مختصر پس منظر اور پاکستان کی دستوری تاریخ میں اس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا یا سیکولر؟ جن لوگوں نے پاکستان کی تحریک میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کے قیام، جداگانہ مسلم تہذیب، دو قومی نظریہ، اسلامی احکام و قوانین پر مبنی اسلامی سوسائٹی کی تشکیل، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہٰ الا اللہ‘‘ کے وعدوں و نعروں کی فضا میں ایک نئے اور الگ ملک کے شہری کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، ان کا تقاضہ و مطالبہ تھا کہ ملک کا دستور اسلامی ہو اور پاکستان کو نظریاتی اسلامی ریاست کی حیثیت سے دنیائے اسلام کے لیے ایک راہنما اور مثالی ملک کی حیثیت سے آگے لایا جائے۔ جیسا کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے افکار اور بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے متعدد خطابات و بیانات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ مگر دستور ساز اسمبلی میں ایک اچھی خاصی لابی ایسی بھی موجود تھی جو امورِ مملکت میں دین کو شریکِ کار دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی اس لیے اس کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان کا دستور سیکولر ہو اور مغربی ممالک کی طرح دین اور مذہب کے معاملات کو ہر شہری کا ذاتی اور نظری معاملہ قرار دے کر اجتماعی نظام کو ان سے لاتعلق کر لیا جائے۔

اس کشمکش کی فضا میں دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور اسمبلی کے باہر مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، اور مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ جیسے اکابر نے مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم کو بالآخر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ دستور سازی کے راہنما اصول کے طور پر ایک قراردادِ مقاصد دستور ساز اسمبلی سے منظور کرائیں جس میں پاکستان کو نظریاتی اسلامی ریاست قرار دے کر اسلامی احکام و قوانین کی معاشرہ میں عملداری کا عہد کیا گیا ہو۔ چنانچہ لیاقت علی خان مرحوم نے ۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو یہ قرارداد پیش کی اور تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد ۱۲ اپریل ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کر لی جس کا متن یہ ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے، اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکتِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے، لہٰذا جمہورِ پاکستان کی نمائندہ یہ مجلسِ دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خودمختار پاکستان کے لیے دستور مرتب کیا جائے:

  • جس کی رو سے مملکت جملہ حقوق و اختیاراتِ حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعہ سے استعمال کرے۔
  • جس میں اصولِ جمہوریت و حریت و مساوات و رواداری اور عدلِ عمرانی کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
  • جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔
  • جس کی رو سے اس امر کا واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور اس پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافت کو ترقی دے سکیں۔
  • جس کی رو سے وہ علاقے جو فی الحال پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہوگئے ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاقیہ بنائیں جس کے ارکان مقررہ حدود اور متعینہ اختیارات کے ماتحت خودمختار ہوں۔
  • جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے اور ان حقوق میں قانون و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساواتِ حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہارِ عقیدہ و دین، عبادت اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
  • جس کی رو سے نظامِ عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔
  • جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی صیانت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا، جن میں اس کے بر و بحر اور فضائیہ پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں، اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امنِ عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبود میں کماحقہٗ اضافہ کر سکیں۔

یہ قرارداد جو پاکستان کے ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہونے کا دوٹوک اعلان ہے اور جس نے ملک کی وفاقی حیثیت، جمہوری طرزِ حکومت، اقلیتوں کے جائز حقوق، پسماندہ طبقات کے حقوق، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق، صوبائی خودمختاری، اور مساوات و حریت جیسے اہم بنیادی مسائل پر دوٹوک فیصلے دے کر ان پر بحث و تمحیص کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے، یہ پاکستان کے ہر دستور کا دیباچہ کے طور پر حصہ رہی ہے۔ البتہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اس میں یہ پیشرفت کی کہ آئین میں ترمیم کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قراردادِ مقاصد کو دیباچہ سے نکال کر ۱۹۷۳ء کے دستور کا واجب العمل حصہ بنا دیا جس سے ریاستی ادارے اپنے اپنے نظام اور پروگرام کو اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے مرتب کرنے کے پابند ہوگئے۔

اس سلسلہ میں مزید تفصیلات میں جائے بغیر ہم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس قرارداد کا پھر سے مطالعہ کریں، بار بار اس کے مضمرات اور تقاضوں کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ دستوری حوالوں سے ہم آج جن الجھنوں کا شکار ہیں اور جو دستوری مسائل ہمیں مسلسل پریشان کر رہے ہیں وہ اس قرارداد کے ذریعے نصف صدی قبل اصولی طور پر طے کیے جا چکے ہیں اور وہی ہمارے مسائل و مشکلات کا اصل حل ہیں۔ اب ہمارا خود ہی صحیح سمت چلنے کو جی نہ چاہے تو اس کا کسی کے پاس کیا علاج ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter