امریکہ میں مسلمانوں کی دینی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۸ء

میں ۲ اگست کو نیویارک پہنچا تھا۔ ۹ اگست تک کوئنز کے علاقے میں واقع دینی درسگاہ دارالعلوم نیویارک کے سالانہ امتحانات میں مصروف رہا جہاں درسِ نظامی کا وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے مدارس میں مروج ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بیسیوں مدارس اس نصاب کے مطابق نئی نسل کی دینی تعلیم و تدریس میں سرگرم عمل ہیں۔ طلبہ کے مدارس بھی ہیں اور طالبات کے مدارس بھی ہیں۔ درسِ نظامی سے میری مراد یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچہ اور اہداف وہی ہیں کہ دینی تدریس و تعلیم اور امامت و خطابت کے لیے رجال کار تیار کیے جائیں، اور قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے ساتھ ان علوم و فنون کی انہیں تعلیم دی جائے جو قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے بنیادی لٹریچر تک مؤثر رسائی کے لیے ضروری ہیں، البتہ اس میں مقامی اور علاقائی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ ردوبدل اور ترامیم و اضافہ جات بھی کیے گئے ہیں۔

ان مدارس میں زیادہ تر طلبہ اور طالبات پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، البتہ افریقہ اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات بھی بعض مدارس میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ دار العلوم نیویارک کے منتظم بھائی برکت اللہ صاحب کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور ان کی اس سال خواہش تھی کہ میں اس مدرسہ کے طلبہ کا تفصیل کے ساتھ امتحان لوں اور مجموعی صورتحال کے بارے میں انہیں بریف کروں کہ کام کیسا چل رہا ہے، اور اسے مزید بہتر اور بامقصد بنانے کے لیے اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ میں مسلسل پانچ روز تک طلبہ کا امتحان لیتا رہا۔ روزانہ دو تین گھنٹے اس میں صرف ہوتے تھے۔ دار العلوم کے اساتذہ میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے علاوہ ہمارے گوجرانوالہ کے پرانے ساتھی مولانا حافظ اعجاز احمد، شام سے تعلق رکھنے والے ایک استاذ، اور ایک نومسلم اسپینش عالم دین بھی ہیں جنہوں نے قبولِ اسلام کے بعد درسِ نظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور اب وہ اس نصاب کے اسباق پوری دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھا رہے ہیں۔ اساتذہ کی محنت اور ذوق کا اندازہ طلبہ کی صلاحیت و استعداد سے بخوبی ہو رہا تھا جس کا میں نے اپنی رپورٹ میں اظہار کیا اور کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مشورے دیے ہیں۔

اسی دوران مجھے ’’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘‘ کے ہیڈ آفس میں بھی جانے کا موقع ملا۔ یہ تنظیم جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے حضرات پر مشتمل ہے اور شمالی امریکہ میں اپنا ایک مستقل حلقہ اثر رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ حضرات ’’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘‘ کے ساتھ منسلک تھے جو شمالی امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس میں عرب ممالک کے علمائے کرام اور دانشوروں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن دوسرے مسلم ممالک کے حضرات بھی اس میں شریک ہیں، لیکن اب سے دو عشرے قبل اس سے ہٹ کر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اس کے بانیوں میں ہمارے پرانے دوست عبد الشکور صاحب بھی شامل ہیں جو ایک زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے ہیں، ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختم نبوت میں ہمارے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ ۱۹۸۷ء میں جب میں پہلی بار امریکہ آیا تو وہ میرے میزبانوں میں شامل تھے اور ان سے اس دور میں امام سراج وہاج سمیت بہت سے حضرات کے ساتھ میری ملاقاتیں ہوئیں۔ آج کل وہ پاکستان میں ہیں اور تحصیل کھاریاں میں واقع اپنے گاؤں گکھڑ چنن میں ایک معیاری اسکول چلا رہے ہیں۔

اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ یہاں کے حلقوں میں ’’اثنا‘‘ (ISNA ) کے نام سے اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ ’’اکنا‘‘ (ICNA) کے نام سے متعارف ہیں۔ اکنا کے دفتر میں حاضر ہوئی اور وہاں کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات ہوئی۔ اکنا کے دوست آج کل دعوتِ اسلام کی ایک نئی مہم کی تیاریوں میں مصروف ہیں جس کے تحت رمضان المبارک کے دوران نیویارک کی زیر زمین ریلوے کے اسٹیشنوں پر اسلام کی دعوت اور تعارف کے حوالے سے ہزاروں پوسٹر لگائے جائیں گے اور مختصر جملوں میں ’’سب وے‘‘ کے مسافروں کو اسلام کے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔ اس مہم کی تفصیلات معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی۔ یہ ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ جس ماحول اور معاشرہ میں ہم رہتے ہیں، وہاں کی عمومی آبادی کو اسلام کی دعوت اور بنیادی تعلیمات سے متعارف کرائیں اور دعوتِ اسلام کے مواقع تلاش اور استعمال کریں۔ اکنا کے ذمہ دار جناب طارق صاحب نے بتایا کہ امریکی میڈیا میں اس مہم کی مخالفت میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن اس سے مہم کو فائدہ پہنچا ہے کہ اس مخالفت کے ماحول میں زیادہ لوگ اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اکنا کے ذمہ دار حضرات کو امریکی میڈیا پر اپنے موقف اور پروگرام کی وضاحت کا بھی موقع مل رہا ہے۔

اس کے علاوہ مجھے مسجد سیدنا صدیق اکبرؓ میں ’’شریعہ بورڈ آف امریکہ‘‘ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا بھی موقع ملا جو ۹ اگست کو منعقد ہوا، بلکہ مجھے اس کے خصوصی مہمانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ شریعہ بورڈ کا مقصد مسلمانوں کو ان کے خاندانی اور مالی نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ امریکہ کے علمائے کرام کو اس طرف سب سے زیادہ توجہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے دلائی اور اس کے لیے شکاگو کے بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا مفتی نوال الرحمن صاحب نے محنت کی جس کے نتیجے میں نہ صرف شکاگو میں بلکہ نیویارک میں بھی ’’شریعہ بورڈ‘‘ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے۔ سرکردہ علمائے کرام ایک جیوری کی شکل میں نکاح و طلاق، وراثت اور مالی تنازعات کے مقدمات سنتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کے تحت ان کے فیصلے کرتے ہیں۔ اس بورڈ کو امریکی قانون کے تحت منظور کرایا گیا ہے اور اس کے فیصلوں کا امریکی عدالتیں بھی احترام کرتی ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ شکاگو میں دو مسلمانوں کے درمیان کاروباری شراکت کے حوالے سے ایک مقدمہ کم و بیش سات برس تک عدالتوں میں چلتا رہا اور ہزاروں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچا تو متعلقہ عدالت نے وہ کیس ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے پاس بھجوا دیا جس کا فیصلہ شریعہ بورڈ نے کسی بھی قسم کے خرچہ اور فیس کے بغیر صرف گیارہ روز میں کر دیا جس پر دونوں فریق مطمئن ہیں اور متعلقہ عدالت نے بھی اسی فیصلے پر صاد کر دیا ہے۔

مجھے ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے سالانہ اجلاس میں اس کی کارکردگی کی رپورٹ سننے کے بعد خطاب کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ جن بزرگوں نے اس کے لیے محنت کی ہے، وہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں، لیکن اس میں تھوڑا سا حصہ بحمداللہ تعالیٰ میرا بھی ہے کہ ۱۹۹۰ء کے دوران شکاگو کے مسلم کمیونٹی سنٹر میں مجھے پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے مرحلہ وار جائزہ کے حوالے سے ایک نشست میں گفتگو کی دعوت دی گئی تو میں نے ۲ دسمبر ۱۹۹۰ء کو مسلم کمیونٹی سنٹر شکاگو کی اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام اور دانشوروں کو توجہ دلائی تھی کہ امریکی دستور کے تحت آپ حضرات کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ مسلمانوں کے نکاح و طلاق اور وراثت کے معاملات کے ساتھ ساتھ مالی معاملات میں بھی اپنے مذہبی قوانین پر عمل کا حق حاصل کر سکتے ہیں، جس کے لیے آپ کو یہاں کے عدالتی نظام کی منظوری سے باقاعدہ طور پر ایک ثالثی بورڈ (Board of arbitration) قائم کرنا ہوگا، اور اگر آپ ایسا بورڈ قائم کر لیتے ہیں تو امریکی دستور کے مطابق یہاں کی عدالتیں بھی اس بورڈ کی قائم کردہ عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی پابند ہوں گی۔ میں نے اس نشست میں علمائے کرام اور مسلم راہنماؤں سے گزارش کی تھی کہ اگر آپ کو امریکی دستور یہ حق دیتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا آپ کی دینی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ آج اس رخ پر شکاگو اور نیویارک (اور میری معلومات کے مطابق اٹلانٹا میں بھی) شریعہ بورڈ قائم ہوئے ہیں اور پیشرفت کر رہے ہیں۔ تو یہ میرے ایک پرانے خواب کی تعبیر بھی ہے جس پر شریعہ بورڈ کے ذمہ دار حضرات کو مبارکباد دیتے ہوئے اس مشن کی کامیابی اور پورے امریکہ میں اس کا دائرہ وسیع ہونے کی دعا کرتا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔

اس کے ساتھ میں نے یہ گزارش بھی کی کہ شریعہ بورڈ آف امریکہ کو مسلمانوں کے مسائل، تنازعات اور مقدمات کے شریعتِ اسلامیہ کے مطابق حل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ساتھ اسلامی شریعت کے حوالے سے مسلمانوں کی فکری راہنمائی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور آج کے عالمی تناظر میں شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں اور اسلامی نظام کے بارے میں جو منفی مہم ہر سطح پر جاری ہے، اسے سامنے رکھ کر نئی نسل کی راہنمائی، ذہن سازی اور بریفنگ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسائل و مشکلات کے عملی حل سے پہلے ان کی فکری بنیادوں اور تہذیبی پس منظر کا واضح ہونا ضروری ہے، اور ایمان و عقیدہ کے رسوخ اور احکام شرعیہ پر مخلصانہ عمل کے لیے فکری و ذہنی اطمینان بھی ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے، جسے نظر انداز کر کے ہم نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں مؤثر پیشرفت نہیں کر سکتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter