’’دینِ الٰہی‘‘ اور حضرت مجدد الفؒ ثانی: آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں

   
تاریخ: 
۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

۲۷ نومبر کو لاہور کے ایک عوامی ہال میں حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد کے حوالہ سے سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ لاہور کے خدام اور روزنامہ جنگ کے مذہبی ونگ نے باہمی اشتراک سے کیا تھا۔ خانقاہ سراجیہ مجددیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین مولانا خواجہ خلیل احمد نے اس کی صدارت کی اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی جبکہ خطاب کرنے والوں میں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا حافظ فضل الرحیم، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر حافظ سعد اللہ، جناب اوریا مقبول جان، الحاج سید سلمان گیلانی، مولانا اللہ وسایا اور دیگر سرکردہ حضرات شامل تھے۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امام ربانی حضرت مجدد الفؒ ثانی کی حیات د خدمات کے بارے میں ممتاز ارباب فکر و دانش آج کی اس محفل میں اظہار خیال کر رہے ہیں جو حضرت مجددؒ کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے ہوگی، میں ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مجددؒ نے اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو اپنی مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ ناکام بنا دیا تھا۔ وہ دین الٰہی کیا تھا اور اس کے مقابلہ میں حضرت مجددؒ کی جدوجہد کیا تھی؟ اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کے خدوخال اور حدود اربعہ کے بارے میں تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے جسے میں چار دائروں یا مراحل میں تقسیم کروں گا۔

  1. اس نئے دین میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کی اس اتھارٹی اور ڈھانچے کو مسترد کر دیا گیا تھا جو ایک ہزار سال سے مسلمہ طور پر چلی آرہی تھی۔ اکبر بادشاہ کو اولی الامر اور مجتہد مطلق کا خطاب دے کر یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ قرآن و سنت کی جو تعبیر و تشریح کرنا چاہے کر سکتا ہے، اور اب وہی اس معاملہ میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے لیے اہل علم اور اہل فقہ کی بجائے اقتدار کی قوت کو معیار قرار دے دیا گیا تھا اور اسی بنیاد پر اکبر بادشاہ نے ’’دین الٰہی‘‘ تشکیل دیا تھا۔
  2. اسلامی عقائد کے مسلمہ دائرے کو توڑ کر مختلف مذاہب کے عقائد کو اس میں شامل کر لیا گیا تھا جس کے تحت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ سورج کو سجدہ، بادشاہ کو سجدہ، اور ہندو مذہب سمیت دوسرے مذاہب کے بعض عقائد و اعمال کو اس کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔
  3. حلال و حرام کا مسلمہ دائرہ ختم کر دیا گیا تھا اور شراب، زنا، سود وغیرہ کو حلال و جائز امور میں شامل کر لیا گیا تھا۔
  4. علماء کرام، فقہاء عظام اور اہل دین کی صرف نفی نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی توہین، استہزاء، کردار کشی اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کو بھی دین الٰہی کا اہم حصہ بنایا گیا تھا وغیر ذٰلک۔

یہ وہ چند بنیادی تبدیلیاں ہیں جو ’’دین الٰہی‘‘ کے عنوان سے مسلمان معاشرہ میں متعارف کرائی گئی تھیں اور اس کے فروغ کے لیے اکبر بادشاہ کی حکومت و طاقت ہی سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے الحاد کی اس یلغار کا مقابلہ تین دائروں میں کیا۔

  1. عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے حضرات صوفیائے کرامؒ کی طرز پر اصلاح و ارشاد، دینی احکام کی تلقین اور قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کی محنت کی۔
  2. علماء کرام اور اہل دانش میں دین کے علوم و معارف کے ساتھ ساتھ انہیں غلط عقائد و رسوم اور فتنوں سے مسلسل آگاہ کرنے کی جدوجہد کی اور علمی حلقوں میں بیداری قائم رکھنے کو اپنا ہدف قرار دیا۔
  3. حکمران طبقہ کے دائرہ میں ان کا حریف اور ان کے خلاف فریق بننے کی بجائے ان کا خیرخواہ اور مصلح بننے کی حکمت عملی اختیار کی اور ان ارباب اختیار تک رسائی حاصل کرنے کی محنت کی جو حکمران طبقات کو نئے دین کے رنگ میں رنگے جانے سے روک سکتے تھے، انہوں نے محاذ آرئی کی بجائے بریفنگ اور لابنگ کا راستہ اختیار کیا۔ حضرت مجددؒ کو رولنگ کلاس کو یہ یقین دلانے کے لیے صبر آزما جدوجہد کرنا پڑی کہ وہ حکمرانوں کے حریف نہیں بلکہ خیرخواہ ہیں۔ اور جب وہ اس حوالہ سے اعتماد کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر حالات بدلنے میں دیر نہیں لگی اور اکبر بادشاہ کا دین الٰہی اس کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی خود حکمران حلقوں میں اجنبی ہوتا چلا گیا۔ اسے اگر فکری محاذ پر گوریلا جنگ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے مغل حکمرانوں کی اعلیٰ کلاس کو ’’تارپیڈو‘‘ (Torpedo)کیا اور دین الٰہی کو مغل بادشاہت کی رولنگ کلاس کو گھیرے میں لینے سے روک دیا۔ یہ حضرت مجددؒ کا ہی حوصلہ اور صبر تھا کہ انہوں نے ایک بے لوث اور مخلصانہ جدوجہد کا آغاز کیا اور ہر قسم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے بالآخر اس میں کامیابی حاصل کر لی۔

آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں بھی آج دینی اور فکری طور پر وہی چیلنج درپیش ہے جس کا سامنا حضرت مجدد الفؒ ثانی نے کیا تھا۔

  • آج بھی یہ مطالبہ موجود ہے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کی اتھارٹی اہل علم و فقہ کی بجائے قوت مقتدرہ کو تسلیم کیا جائے جو اُس زمانے میں بادشاہت تھی اور آج وہ حیثیت پارلیمنٹ کو حاصل ہوگئی ہے۔ میرے خیال میں اکبر بادشاہ کو اولی الامر کے طور پر ’’مجتہد مطلق‘‘ قرر دینے اور آج کی پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا حق مانگنے اور اسے اتھارٹی قرار دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
  • آج بھی اتحاد بین المذاہب اور مذہبی رواداری کے نام پر اسلامی عقائد کی گرفت کو کمزور کرنے اور سب مذاہب کو برابر سطح پر صحیح تسلیم کرلینے کے حق میں بحث جاری ہے اور دوسرے مذاہب کو باطل قرار دینے کی مخالفت جاری ہے۔
  • آج بھی حلال و حرام کے قدیمی دائروں سے انحراف کی آواز بلند کی جا رہی ہے اور بہت سے حراموں کو حلال کی فہرست میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے بلکہ عملاً شامل کر لیا گیا ہے۔
  • آج بھی اہل دین، اہل علم و فقہ اور دین پر قائم رہنے والے طبقوں کے خلاف نفرت کی مہم جاری ہے، ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور نئی نسل کو ان سے کاٹنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

اس تناظر میں آج کے سیمینار کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اکبر بادشاہ کا دین الٰہی نئے روپ میں پھر سے مسلم سوسائٹی پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اسے اقتدار اور طاقت کے بڑے مراکز کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حضرت مجدد الفؒ ثانی کی فکر و تعلیمات اور جدوجہد کو ازسرِنو زندہ کیا جائے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکبری دین کے اس نئے ایڈیشن کا دل جمعی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ میرے خیال میں ہمارے لیے حضرت مجدد الفؒ ثانی کا یہی پیغام ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۹ نومبر ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter