پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ

   
تاریخ : 
اگست ۱۹۹۵ء

روزنامہ جنگ لندن ۸ جولائی کی ایک خبر کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اپنی اس سال کی رپورٹ میں بھی توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان تمام قوانین کے ضمن میں درج مقدمات اور گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں قادیانیوں اور مسیحیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی تنظیمیں کسی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں رپورٹ کی تیاری میں کیا طریق کار اختیار کرتی ہیں، اس کی ایک جھلک حال ہی میں پاکستان میں چائلڈ لیبر کے استعمال کے حوالے سے مغربی میڈیا اور لابیوں کی مہم کے ضمن میں سامنے آچکی ہے جس میں بعض مناظر کو فلمانے کے لیے جعلی ماحول پیدا کرنے کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اور یہ بات بھی منکشف ہو چکی ہے کہ بھارت کے تجارتی اداروں نے تجارتی مقاصد کے لیے اس مہم کے تانے بانے بنے اور مغربی میڈیا اور لابیاں اس میں ان کی شریک کار بنیں یا کم از کم اس مہم کے حق میں استعمال ہوئیں۔

اسی طرح جن دوستوں نے بی بی سی ۲ سے اس سال کے آغاز میں ’’ایسٹ‘‘ کے نام سے دکھائی جانے والی سیریز کے وہ حصے دیکھے ہیں جن میں پاکستان کے مذہبی حلقوں اور اداروں کی تصویر کشی کی گئی ہے، ان کے لیے اس تکنیک اور طریق واردات تک پہنچنا مشکل نہیں ہے جو پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص کی تصویر خراب کرنے کے لیے مغرب کی لابیاں اور ذرائع ابلاغ ایک عرصہ سے استعمال کر رہے ہیں۔

مگر اس پس منظر سے قطع نظر ہم ان دونوں قوانین کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو سالہا سال سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹوں کا موضوع ہیں اور جنہیں انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کی تبدیلی پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ چند ماہ قبل پاکستان کی امور کشمیر کمیٹی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان کے دورۂ جنیوا کے موقع پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں پیش کی جانے والی یادداشت میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی جانوں کے ضیاع کو پاکستان میں قادیانیوں اور مسیحیوں کے انسانی حقوق کی مبینہ پامالی کے ساتھ جوڑ دیا تھا اور ان قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔

جہاں تک قادیانیوں کی اسلام کے نام پر سرگرمیوں کی ممانعت کا تعلق ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قادیانی گروہ ایک نئے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کا پیروکار ہے اور اپنے پیشوا کی ہدایات کو وحی الٰہی پر مبنی تسلیم کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کی رو سے یہ گروہ ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہے اور قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے دعوے کے باوجود بالکل اسی طرح مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار ہے۔ جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام اور توراۃ پر ایمان کے باوجود عیسائی صرف اس لیے یہودیوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں کہ وہ ایک نئے پیغمبر حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی وحی کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی علیہما السلام اور توراۃ و انجیل دونوں پر ایمان کے باوجود مسلمان ان دونوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار کہلاتے ہیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔

یہ آسمانی مذاہب کے درمیان ایک طے شدہ اصول ہے جس کے تحت سچ جھوٹ سے قطع نظر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار قرار پاتا ہے اور ان کے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے نیا نام اختیار کرے اور مسلمانوں سے الگ نئی مذہبی اصطلاحات اور شعائر کو متعارف کرائے۔ مگر قادیانی گروہ اس مسلمہ حقیقت اور طے شدہ اصول کو قبول کرنے سے گریز کر رہا ہے اور اپنی نئی نبوت اور نئی وحی کو اسلام کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر مصر ہے۔ اس پر مسلمانوں کو اعتراض ہے اور اسی اعتراض کو دور کرنے کے لیے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ایک متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے۔ اور اس کے بعد قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روکنے کا قانون بھی اسی آئینی فیصلے کا منطقی تقاضا اور اس پر عملدرآمد کی طرف پیش رفت ہے۔

یہ ہے مسلم قادیانی تنازعہ کا اصل پس منظر جس کی بنیاد قادیانیوں کو شہری حقوق دینے یا ان سے محروم کرنے پر نہیں بلکہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان مذہبی امتیاز اور جداگانہ تشخص قائم کرنے پر ہے جو بہرحال دونوں کی مشترکہ ضرورت ہے۔ لیکن انتہائی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ قادیانی مبادیات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے منطقی نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی پر وحی نازل ہوئی تھی اور اس وحی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمان ان کے ہم مذہب نہیں ہیں، لیکن مسلمانوں اور قادیانیوں کے مذہب کو الگ الگ تسلیم کرتے ہوئے بھی وہ اپنے مذہب کے لیے الگ نام اور اصطلاحات اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ صرف اس لیے کہ اشتباہ اور التباس کی فضا قائم رہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کر سکیں۔

اس قسم کی صورتحال اس سے قبل ایران کے بہائیوں کے حوالہ سے بھی پیش آئی کیونکہ بہائی بھی مرزا محمد علی الباب اور بہاء اللہ شیرازی کی تعلیمات کا راستہ وحی الٰہی سے جوڑتے ہیں۔ لیکن انہوں نے قادیانیوں کی طرح دھوکے اور اشتباہ کو قائم رکھنے کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ مذاہب کے مسلمہ اصول کا احترام کرتے ہوئے اپنے لیے الگ نام اختیار کیا اور مسلمانوں سے اپنی اصطلاحات اور تشخص کو الگ کر لیا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ مسلمانوں کا قادیانیوں کی طرز کا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی مسلم پارلیمنٹ کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اگر قادیانی گروہ بھی معروضی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بہائیوں کی طرح الگ نام اور الگ شناخت کا راستہ اختیار کر لے تو مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازعہ کی موجودہ کشیدگی اور منافرت ایک دوسرے کو برداشت کر لینے کی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی قادیانیوں کے لیے اصولی اور منطقی طور پر دو ہی راستے ہیں:

  1. یا تو وہ نئی نبوت اور نئی وحی کو چھوڑ کر ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں واپس آجائیں،
  2. اور یا پھر اپنے لیے الگ نام اور الگ شناخت اختیار کریں۔

تیسرا کوئی راستہ بھی جائز اور معقول نہیں ہے اور جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ تنازعہ اور کشیدگی کا راستہ ہے جو اختیار بھی انہوں نے کیا ہے اور اس کے نتائج بھی انہی کو بھگتنا ہیں۔

مسلم قادیانی تنازعہ کے اس پس منظر میں اگر حقوق کی پامالی کا سوال کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے نہ کہ قادیانیوں کے حقوق کا۔ کیونکہ اپنی شناخت اور امتیاز کا تحفظ مسلمانوں کا حق ہے جو قادیانیوں کے غلط طرز عمل کی وجہ سے مجروح ہو رہا ہے۔ اس کشمکش میں اصل خطرہ مسلمانوں کو درپیش ہے کہ ان کا نام اور ان کی شناخت کا استعمال ایک ایسے گروہ کے لیے ہو رہا ہے جو ان کے وجود کا حصہ نہیں ہے اور ان سے الگ مذہبی وجود رکھتا ہے۔

اس لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر مغربی اداروں کو چاہیے کہ وہ اگر واقعی انصاف کے علمبردار ہیں تو اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کریں اور واقعات کی یک طرفہ تصویر پیش کر کے اس پر فیصلے صادر کرنے کی بجائے مسلمانوں کے موقف او رمشکلات کا جائزہ لیں اور ان کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔

یہی صورتحال توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے بارے میں بھی ہے کہ واقعات کی یکطرفہ تصویر کو مسلسل سامنے لایا جا رہا ہے اور اس قانون کو تبدیل کرانے یا بے اثر بنانے کے لیے مغرب کے ذرائع ابلاغ، لابیاں بلکہ حکومتیں دباؤ ڈال رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے اس میں تبدیلی ضروری ہے اور قانون کے غلط استعمال کے ثبوت کے طور پر رحمت مسیح اور سلامت مسیح کیس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس کیس کے سلسلہ میں مغربی ذرائع ابلاغ نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ یک طرفہ ہے۔ دوسری طرف کا موقف کیس سے متعلقہ حضرات سے معلوم کرنے کی آج تک کسی مغربی تنظیم، حکومت یا نشریاتی ادارے نے زحمت گوارا نہیں کی۔ راقم الحروف ان افراد میں شامل ہے جو سیشن کورٹ کے فیصلے تک اس کیس کی پیروی میں مختلف سطح پر شریک رہے ہیں اس لیے اس حیثیت سے مندرجہ ذیل حقائق کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہے کہ

  • ہم نے مسیحی راہنما بشپ فادر روفن جولیس ایم این اے کو تحریری پیشکش کی کہ ہم ان کے ساتھ مل کر مشترکہ کمیٹی کی صورت میں اس کیس کی پبلک انکوائری کے لیے تیار ہیں لیکن انہوں نے پیشکش قبول کرنا تو کجا اس سلسلہ میں رجسٹرڈ خطوط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
  • وزیراعظم پاکستان کی طرف سے انکوائری کمیٹی کے اعلان پر ہم نے کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن سے ملاقات کر کے ان سے درخواست کی کہ اس انکوائری میں ہمیں شریک کیا جائے تاکہ ہم اپنی معلومات کی بنیاد پر حقائق کو ریکارڈ پر لا سکیں۔ انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا لیکن اس وعدہ کی تکمیل کی نوبت نہ آسکی۔
  • قومی اسمبلی کے مسلم اور مسیحی ارکان پر مشتمل انکوائری کمیٹی اسمبلی کی طرف سے مقرر کی گئی تو ہم نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کمیٹی کے ارکان کو گوجرانوالہ تشریف لا کر براہ راست حالات کا جائزہ لینے کی دعوت دی مگر ایسا بھی نہ ہو سکا۔
  • مغربی ذرائع ابلاغ اور تنظیموں کی متعدد ٹیمیں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے گوجرانوالہ گئیں جن کی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں لیکن ان میں سے کسی نے کیس کے مدعی اور اس کی پیروی کرنے والے علماء اور وکلاء سے رابطہ کی زحمت گوارا نہیں کی۔

ان حالات میں اس کیس کے بارے میں عالمی سطح پر جو یک طرفہ پراپیگنڈا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور سیشن کورٹ کی طرف سے ملزموں کو قانون کے مطابق سزائے موت سنانے کے بعد ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کیے گئے اور جو طریق کار اختیار کیا گیا اس کی روشنی میں ملزموں کی بریت، رہائی اور بیرون ملک روانگی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تاہم اس کیس کے حوالے سے قانون کے غلط استعمال کے سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے الزام کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہوئے گوجرانوالہ کے علماء کرام کی طرف سے یہ پیشکش دہرائی جاتی ہے کہ ہم اس کیس کے اصل حقائق کو سامنے لانے کے لیے مسلمان اور مسیحی راہنماؤں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کمیٹی کے ذریعے آج بھی پبلک انکوائری کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ وہ معروف معنوں میں انکوائری ہو اور پہلے کی طرح انکوائری کے نام پر یک طرفہ کاروائی نہ ہو۔

پھر کسی قانون کے غلط استعمال کے امکان کو قانون کی تبدیلی کے لیے وجہ جواز قرار دینا بجائے خود محل نظر ہے۔ قوانین کا غلط استعمال تناسب کی کمی بیشی کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے لیکن کہیں بھی ایسے تحفظات اختیار نہیں کیے جاتے جو ضرورت کے وقت قانون کے صحیح استعمال کے امکان کو ہی مخدوش بنا دیں۔ کیونکہ جہاں قانون کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے وہاں اس کے صحیح استعمال کی ضمانت بھی قانون کا تقاضا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی کے لیے جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں وہ اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ ان ترامیم میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت ایف آئی آر کا اندراج ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی انکوائری کے ساتھ مشروط کر دیا جائے اور اگر مدعی اپنے الزام کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اطمینان کے مطابق ثبوت فراہم نہ کر سکے تو اسے جھوٹے الزام کی سزا میں دس سال کے لیے قید کر دیا جائے۔ اس صورت میں قانون کے عملی نفاذ کے امکانات مخدوش ہونے کے ساتھ ساتھ قانون پر عملدرآمد کا انحصار کسی عدالتی سسٹم کی بجائے فرد واحد (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) کی صوابدید پر رہ جاتا ہے جو انصاف کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ترامیم کو پاکستان کی رائے عامہ نے مسترد کر دیا ہے اور ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ۲۷ مئی ۱۹۹۵ء کو ملک گیر ہڑتال کر کے ان ترامیم کے خلاف عوامی فیصلہ صادر کر دیا ہے۔

ان گزارشات کے علاوہ دو اور پہلو بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پیش نظر رہنے چاہئیں:

  1. ایک یہ کہ قادیانیوں کو ملت اسلامیہ کا حصہ تسلیم نہ کرنے اور ان سے اپنے لیے الگ نام اور شناخت کا مطالبہ کرنے کا تعلق مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے ہے۔ اسی طرح ناموس رسالتؐ کا تحفظ اور توہین رسالتؐ پر موت کی سزا بھی مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور یہ صرف اسلام کا حکم نہیں بلکہ متعدد تصریحات کی رو سے بائبل نے بھی اللہ تعالیٰ کے کسی سچے پیغمبر کی توہین پر موت ہی کی سزا بیان کی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں سے مطالبہ کرنا کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے طے کردہ انسانی حقوق کا معیار پورا کرنے کے لیے اپنے مسلمہ مذہبی عقائد سے منحرف ہو جائیں، کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ایسا مطالبہ کر کے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہے۔
  2. دوسری بات پاکستان کے حوالہ سے ہے کہ یہ دونوں قوانین پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے منظور کردہ ہیں اور ان کے پیچھے رائے عامہ کا براہ راست دباؤ بھی موجود ہے جس کا اظہار ۲۷ مئی کو ایک بار پھر ہو چکا ہے۔ اس طرح ان قوانین کو منتخب پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی پشت پناہی اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اس لیے ان قوانین کی تبدیلی کا باہر سے مطالبہ کرنا رائے عامہ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توہین ہے جو مسلمہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا موجودہ طرزعمل بلاشبہ جمہوری اقدار اور اصولوں سے انحراف کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

اس بنا پر ہم پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس سال کی رپورٹ کے ان حصوں کو حقیقت پسندانہ تسلیم نہیں کرتے جن کا تعلق اسلام کے نام پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون اور توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون سے ہے۔ کیونکہ ہماری رائے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان معاملات میں جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور اصل حقائق تک پہنچنے یا انہیں منظر عام پر لانے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter