دستورِ پاکستان میں مجوزہ ترامیم ۔ پاکستان شریعت کونسل کی گزارشات

   
تاریخ : 
۷ نومبر ۲۰۰۹ء

پاکستان شریعت کونسل کے راہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ۵ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مرکزی امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دستورِ پاکستان پر نظرِثانی کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور ارکان کی خدمت میں مندرجہ ذیل یادداشت پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

’’دستورِ پاکستان میں مجوزہ ترامیم کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے معزز و محترم سربراہ اور قابل صد احترام اراکین کی خدمت میں پاکستان شریعت کونسل کی جانب سے ہدیۂ سلام مسنون اور پرخلوص دعاؤں کے ساتھ چند ضروری گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔

آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا اور لاکھوں مسلمانوں نے اس کے لیے اسی جذبے کے ساتھ قربانیاں دی تھیں کہ اس خطہ کے مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت اور دین و مذہب کی اقدار و روایات اور احکام و قوانین پر آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں اور ایک فلاحی اسلامی ریاست و معاشرے کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس سلسلہ میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے چند ارشادات بطور یاد دہانی پیش کیے جا رہے ہیں:

  • ۴ فروری ۱۹۴۸ء کو بلوچستان کے سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ میرے پیش نظر ہمیشہ اسلامی ڈیموکریسی کا اصول رہا ہے۔ یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا راز ان سنہرے اصولوں کے اتباع میں ہے جنہیں ہمارے مقنن اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی ڈیموکریسی کی بنیاد حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھنی چاہیے۔
  • ۱۹۴۳ء میں کل ہند مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب کے دوران قائد اعظم نے کہا کہ اس مقام پر میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسے فتنہ انگیز ابلیسی نظام کی رو سے، جو انسان کو بدمست کر دیتا ہے کہ وہ کسی معقول بات کو سننے پر آمادہ نہیں ہوتا، عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ عوام کی محنت کو غصب کر لینے کا جذبہ ان کی رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ میں اکثر دیہات میں گیا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ لاکھوں خدا کے بندے ہیں جنہیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان سے یہی مقصود ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔ اگر ان سرمایہ داروں کے دماغ میں ہوش کی ذرا سی رمق بھی باقی ہے تو انہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہوگا، اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کا خدا حافظ، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔
  • ۱۹۴۴ء میں مہاتما گاندھی کے نام اپنے تاریخی خط میں قائد اعظم مرحوم نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت یوں کی: قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔
  • جبکہ ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا: میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلس تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں، اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افراد انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظام اور نظریہ اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے لیے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو ۔۔۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت میں اپنا فرض سرانجام دیں گے، انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے کہ ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ وہ پاکستان میں مغرب کے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام سے گلوخلاصی اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام سے نجات کے ساتھ ساتھ قران کریم کے احکام کی عملداری اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات کی پیروی پر مبنی نظام چاہتے تھے، جس میں عوام کے لیے خوشحالی، انصاف اور تحفظ کی ضمانت موجود ہو۔ ایک نطریاتی اور فلاحی اسلامی ریاست کے لیے قائد اعظمؒ کا یہ تصور بالکل واضح ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کر کے اور تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر ۲۲ دستوری نکات پیش کر کے قائد اعظمؒ کے اسی تصور کی ترجمانی کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسی جذبہ کے ساتھ ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دے کر، اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دے کر اور ملک میں قرآن و سنت کے تمام قوانین کے عملی نفاذ کی دستوری ضمانت دے کر اسی سمت میں پیش رفت کی گئی تھی۔ مگر گزشتہ پینتیس برسوں کے دوران دستورِ پاکستان کی ان صریح دفعات پر عملدارآمد کے لیے کوئی مؤثر عملی قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ بتدریج ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ سرے سے ان دستوری دفعات کو ختم کرنے یا انہیں غیر مؤثر بنانے کی راہ ہموار کی جائے۔ چنانچہ ہماری معلومات کے مطابق دستور پاکستان کا جائزہ لینے والی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اس قسم کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں کہ:

  • ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بجائے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دیا جائے۔
  • قراردادِ مقاصد کو غیر مؤثر کر دیا جائے۔
  • صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کر دی جائے۔
  • تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کر کے اسے محض نمائشی بنا دیا جائے۔
  • تحفظ عقیدۂ ختم نبوت سے متعلقہ دفعات کو بدل دیا جائے، وغیرہ۔

اگر واقعتاً ایسی تجاویز پارلیمانی کمیٹی کے سامنے آئی ہیں اور کمیٹی کے معزز ارکان ان پر غور کی زحمت فرما رہے ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے، کیونکہ ایسا کرنا نہ صرف پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کی نفی ہوگی بلکہ پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے قائد اعظمؒ کے نظریات و ارشادات سے بھی انحراف ہوگا۔

پاکستان شریعت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت جس سنگین بحران، خلفشار اور قومی و بین الاقوامی سطح پر خطرناک چیلنجوں سے دوچار ہے، ان کا تقاضا یہ ہے کہ قوم کو عقیدہ و اسلامی ثقافت کی وحدت اور قرآن و سنت کی مرکزیت کی طرف واپس لایا جائے، اور عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر پوری قوم کو متحد کر کے حالات اور درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے۔ اس پس منظر میں پاکستان شریعت کونسل دستورِ پاکستان پر نظر ثانی کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کی خدمت میں بصد ادبو احترام یہ درخواست کر رہی ہے کہ:

  • ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بدستور برقرار رکھا جائے۔
  • دستورِ پاکستان کے اسلامی تشخص اور اس کی اسلامی دفعات کا مکمل طور پر تحفظ کیا جائے۔
  • اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے کہ ان دفعات پر عملدرآمد اور ان کے مطابق قانون سازی میں اب تک کیا رکاوٹیں درپیش رہی ہیں؟ اور ان رکاوٹوں کے سدباب اور دستور کی اسلای دفعات کے مطابق قانون سازی کے لیے موجودہ حالات میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟
  • دستور کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو متعلقہ ایوانوں میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے عملی تجاویز سامنے لائی جائیں۔
  • قراردادِ مقاصد کو اس کی روح اور مقام کے مطابق دستور میں بالاتر دفعہ کی حیثیت دی جائے۔
  • قائد اعظم مرحوم کے مذکورہ بالا ارشادات کے مطابق ملک کے معاشی اور معاشرتی نظام کو مغربی فلسفہ و نظام اور جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ سسٹم کی بجائے خلافتِ راشدہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں۔
    موجودہ معروضی حالات میں قومی خودمختاری کے حوالے سے درپیش سنگین چیلنجوں کے مقابلہ میں قوم کو تیار کرنے کے لیے دستوری اقدامات تجویز کیے جائیں۔
  • اور خاص طور پر تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالتؐ سے متعلقہ دستوری دفعات اور ملکی قوانین کو چھیڑنے سے مکمل طور پر احتراز کیا جائے۔

پاکستان شریعت کونسل توقع رکھتی ہے کہ اسلام، پاکستان، قومی خودمختاری اور عوام کی فلاح و خوشحالی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کے جذبات بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے، البتہ یاد دہانی اور کارِخیر میں شرکت و تعاون کے جذبہ کے ساتھ اس امید پر یہ معروضات پیش کی جا رہی ہیں کہ کمیٹی کے معزز ارکان ان پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter