نصابی کتابوں کی اشاعت بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنے کا حکومتی فیصلہ

   
تاریخ : 
یکم مئی ۲۰۰۱ء

نصابی کتابوں کی تیاری، طباعت اور تقسیم کا نظام بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنے کے حکومتی فیصلہ نے قومی حلقوں میں تشویش کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے اور پنجاب پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے عہدہ داروں نے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک تقریب کے دوران اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے جن پر سنجیدگی سے توجہ دینا ضروری ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر مسٹر زبیر سعید کے مطابق وفاقی کابینہ کی طرف سے صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے احکامات صادر کر دیے ہیں اور ان احکامات کے نتیجے میں صوبائی ٹیکسٹ بورڈوں سے وابستہ چھ سو نجی اشاعتی ادارے اور ان سے منسلک لاکھوں مزدور، ہزاروں کتب فروش، کروڑوں غریب طلبہ، والدین اور اساتذہ تشویش کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:

  • یہ اقدام غیر ملکی ملٹی نیشنل اشاعتی اداروں کے ایما پر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بچوں کی نصابی کتب بے تحاشا مہنگی ہو جائیں گی اور ان میں ملکی مفاد اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ایسا مواد بھی طلبہ کو پڑھنا پڑے گا جس کی یلغار کو ٹیکسٹ بک بورڈز کی نصابی کتب میں ہمیشہ روکا گیا ہے،
  • نہ صرف نصابی کتابیں تین گنا سے نو گنا تک مہنگی ہو جائیں گی بلکہ غیر ملکی ناشرین کو بیش بہا مالی فوائد مستقل طور پر حاصل ہوں گے،
  • پاکستانی اشاعتی ادارے بند اور لاکھوں ملازمین بے کار اور بے روزگار ہو جائیں گے،
  • جبکہ وفاقی و صوبائی کے محصولات میں بھی چار کروڑ روپے کے لگ بھگ کمی ہو جائے گی۔

ملک کے نصاب تعلیم کو عالمی معیار اور بین الاقوامی یکسانیت کے دائرہ میں لانے کے عنوان سے ایک عرصہ سے مہم جاری ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں رائج سرکاری نصاب تعلیم میں موجود تھوڑا بہت مذہبی مواد ہے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی اداروں اور دیگر بین الاقوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلام کا معاشرتی کردار، خاندانی نظام کے قرآنی احکام اور جہاد سے متعلقہ آیات و احادیث پڑھنے کے بعد پاکستانی طالب علم اس بین الاقوامی فکر و فلسفہ اور ثقافت سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا جو اس وقت پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے اور جسے گلوبلائزیشن کے عنوان سے اقوام متحدہ کی چھتری تلے پوری دنیا کا واحد اور غالب کلچر بنانے کی مہم جاری ہے۔ قرآن کریم، احادیث نبویہؐ اور فقہ اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان دینی عقائد اور روایات کے حوالہ سے جداگانہ امتیاز کو اپنے ذہن اور عادات میں سمو لیتا ہے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ فکر و فلسفہ اور کلچر و ثقافت کے حوالہ سے ایڈجسٹمنٹ قبول نہیں کرتا۔ اس لیے ان عالمی اداروں کے نزدیک نصاب تعلیم سے دینی عنصر و مواد کو خارج کرنا ضروری ہے اور اجتماعی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبہ کو بھی سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تجاویز اور جزوی اقدامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن مذہبی حلقوں اور رائے عامہ کے دباؤ کے تحت اس طرف مؤثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔اس سلسلہ میں ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے اس قدر حساس ہیں کہ حکومتی حلقہ کی ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت کی روایت کے مطابق جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ کا آغاز کیا گیا جس کے بعد پرائمری سکول کی تعلیم کے لیے مساجد کو مرکز بنانا مقصود تھا، اس کے ذریعے بہت تھوڑے اخراجات کے ساتھ خواندگی کے تناسب میں معقول اضافے کی منصوبہ بندی کی جا چکی تھی اور تجربہ کے طور پر ہزاروں مسجد مکتب سکولوں نے کام شروع کر دیا تھا۔ مگر ورلڈ بینک کی مداخلت پر یہ منصوبہ اچانک ختم کر دیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس طرح بچوں کی بہت زیادہ تعداد کو پرائمری تعلیم کے لیے مسجد کے ماحول میں چار پانچ سال رہنا پڑے گا جس سے بنیاد پرستوں کے تناسب میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا اس لیے سرے سے یہ منصوبہ ہی ختم کر دیا گیا۔

اب بھی شنید ہے کہ ورلڈ بینک نے یہ شرط لگائی ہے کہ جب تک نصابی کتب کی تیاری اور تقسیم کو اقوام متحدہ کے تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی اشاعتی اداروں کی نگرانی میں نہیں دیا جائے گا اس وقت تک تعلیمی مقاصد کے لیے ورلڈ بینک کی طرف سے رقوم فراہم نہیں کی جائیں گی۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے مبینہ طور پر ورلڈ بینک کے اس دباؤ کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے وزارت تعلیم کی نگرانی میں نصابی کتب تیار کرنے والے سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو ہی سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ سردست نصابی کتب کی تیاری پاکستانی ماہرین تعلیم کے ذمہ ہوگی مگر طباعت اور تقسیم کا نظام بین الاقوامی ادارے سنبھال لیں گے۔ لیکن جس پس منظر اور ماحول میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی ماہرین تعلیم کے ذریعے نصابی کتب کی تیاری کی بات سراسر مشکوک اور مشتبہ ہو جاتی ہے کیونکہ:

  • پاکستانی ماہرین تعلیم کے نام سے جو لوگ سامنے آئیں گے وہ انہی بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کے تیار کردہ ہوں گے۔
  • جس طرح پاکستانی معیشت کو غیر ملکی ماہرین معیشت اور ٹیکنوکریٹس سے راہ نمائی کے خوشنما لیبل کی آڑ میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی مکمل غلامی میں دے دیا گیا اسی طرح بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے پاکستانی ماہرین تعلیم کو سامنے لا کر ان کے ہاتھوں ملک کے تعلیمی نصاب و نظام کا جھٹکا کر دیا جائے گا۔
  • سرکاری نصاب تعلیم کو مکمل طور پر سیکولرائز کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اشاعتی اداروں اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد کے روزگار پر جو زد پڑے گی وہ اس سے زائد ہوگی۔
  • اور بین الاقوامی اداروں کی شائع کردہ مہنگی ترین کتابوں کی خرید کا بوجھ جن کروڑوں طلبہ کے والدین پر پڑے گا وہ تعلیمی ماحول کے لیے انتہائی حوصلہ شکن ہو سکتا ہے۔

ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف امریکی دانشور پروفیسر جان وال برج لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے فورم پر پاکستان کے سرکاری تعلیمی نظام میں ’’درس نظامی‘‘ کی روایت مفقود ہونے کے نقصانات گنوا رہے ہیں اور مسلمانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ معاشرہ میں درس نظامی کا فعال کردار بحال کرنے کی طرف توجہ دیں اور دوسری طرف پاکستان کے ارباب اختیار ملک کے سرکاری نصاب تعلیم میں موجود تھوڑے بہت دینی مواد کو برداشت نہ کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی ہاں میں ہاں ملانے اور پورا نصابی نظام ہی ان کے حوالہ کر دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور اس کے لیے وفاقی کابینہ نے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔

ہم ملک کے سیاسی اور دینی حلقوں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کریں اور تعلیمی نصاب کو ورلڈ بینک کی غلامی سے بچانے کے لیے اگر وہ کچھ کر سکتے ہیں تو اس کا بروقت اہتمام کریں۔ یہ مسئلہ ملک کی نظریاتی اساس کا ہے، نئی نسل کے عقیدہ و ایمان کے تحفظ کا ہے اور لاکھوں پاکستانیوں کے روزگار کا ہے۔ اس سلسلہ میں خاموشی یقیناً قومی جرم ہوگی اور اگر خدانخواستہ اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی تو اس کا خمیازہ آئندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter