ترکی، سیکولرازم اور یورپی یونین

   
تاریخ : 
۶ دسمبر ۲۰۰۱ء

ایک قومی روزنامہ نے لاہور کی اشاعت میں ۲۳ نومبر کو انقرہ سے اے ایف پی کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ ترک پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا ہے جس کی رو سے مردوں کی عورتوں پر بالادستی ختم کرتے ہوئے عورتوں کو زیادہ حقوق دے دیے گئے ہیں۔ خبر کے مطابق ان اقدامات کا مقصد یورپی یونین کا رکن بننے کی ضرورت پوری کرنا ہے۔ خانگی قوانین میں اہم ترمیم یہ کی گئی ہے کہ:

  • خاندان کا سربراہ خاوند نہیں ہوگا لہٰذا عائلی معاملات میں دونوں کی حیثیت برابر ہوگی۔
  • شادی کے دوران کمائے گئے تمام اثاثے میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت ہوں گے۔
  • بیوی اپنے نام کے ساتھ خاوند کے ذاتی نام کی بجائے اس کے خاندان کا نام استعمال کرے گی۔
  • لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال ہوگی۔
  • اور ان تبدیلیوں کا اطلاق آئندہ سال سے ہوگا۔

اس خبر کا سب سے زیادہ قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بننے اور ایک یورپی ملک کہلانے کے لیے گزشتہ پون صدی کے دوران کیے گئے اس کے وہ اقدامات کام نہیں دے رہے جو اس نے اپنے ملک کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے اور ترک معاشرہ سے اسلام کی چھاپ کو مٹانے کے لیے مسلسل کیے ہیں اور یورپی یونین میں شمولیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ابھی اسے اور بہت کچھ کرنا ہے۔ ترکی آج سے پون صدی قبل خلافت عثمانیہ کے نام سے عالم اسلام کی قیادت کر رہا تھا، حرمین شریفین اور بیت المقدس سمیت عالم اسلام کے اہم مراکز اور علاقے اس کا حصہ تھے، اسے عالم اسلام کے سیاسی مرکز اور نمائندہ کی حیثیت حاصل تھی اور اس کا موقف اور پالیسی ملت اسلامیہ کی اجتماعی پالیسی تصور کی جاتی تھی۔ تمام تر کمزوریوں او رخامیوں کے باوجود اسے گزشتہ صدی کے اوائل تک یہ پوزیشن حاصل رہی ہے اور وہ عالم اسلام کے خلاف استعماری سازشوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے جس کا ایک ثبوت آج عربوں بلکہ پورے عالم اسلام کو درپیش مسئلہ فلسطین کی سنگینی سے کیا جا سکتا ہے کہ جب تک خلافت عثمانیہ موجود رہی فلسطین کے علاقہ میں آباد ہونے کے لیے یہودیوں کو کوئی گنجائش نہیں ملی اور خلافت نے بیت المقدس پر قبضہ اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے خواہشمند یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے سے روکے رکھا، لیکن خلافت عثمانیہ کے ختم ہوتے ہی فلسطین میں آبادی کے سارے راستے یہودیوں کے لیے کھل گئے جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔

خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے مغربی اقوام نے ترک نیشنلزم اور عرب نیشنلزم کی تحریکوں کو ابھارا اور دونوں کی اس طرح آبیاری کی کہ عرب اور ترک ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے۔ ترکوں کو یہ سبق سکھایا گیا کہ عرب ان پر بوجھ ہیں جو مذہب کے نام پر ان پر مسلط ہیں اس لیے عربوں اور مذہب دونوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جبکہ عربوں کو یہ پٹی پڑھائی گئی کہ ترکی صدیوں سے ان پر حکمرانی کر رہا ہے حالانکہ عرب اور قریشی نہ ہونے کی وجہ سے خلافت پر اس کا حق بھی نہیں بنتا اس لیے عربوں کو ترکی سے الگ ہو کر عرب خلافت کی بحالی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں عرب ممالک نے ترکی سے بغاوت کر دی، دوسری طرف ترکی میں نیشنلزم نے خلافت کو دقیانوسی قرار دے کر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اتاترک کی قیادت میں جدید ترکیہ کی بنیاد رکھ کر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا۔ خلافت ختم کرنے کے ساتھ ہی ترکی نے اپنے ملک میں رائج تمام قوانین تبدیل کر دیے، ترکی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی بطور قانون نافذ تھی اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کو ملک کے قانون کی حیثیت حاصل تھی، اسے منسوخ کر کے اٹلی کا قانون ترکی میں نافذ کر دیا گیا، عربی زبان کو ختم کر دیا گیا، ترکی زبان کے لیے عربی رسم الخط ختم کر کے رومن رسم الخط اختیار کیا گیا، دینی مدارس بند کر دیے گئے، خانقاہوں پر تالے لگا دیے گئے، عربی زبان میں قران کریم کی تلاوت اور اذان ممنوع قرار دے دی گئی، ملک میں عملاً سیکولرازم نافذ ہوا اور کسی اجتماعی یا قومی معاملہ میں اسلام کا حوالہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔

اس سیکولرزم کی حفاظت فوج کی سب سے بڑی ذمہ داری قرار دی گئی چنانچہ جب بھی ملک میں مذہبی اقدار کے احیا کے رجحانات پیدا ہوئے فوج نے طاقت کے زور سے انہیں کچل دیا۔ اسی بنیاد پر منتخب وزیراعظم عدنان میندریس شہید کو اقتدار سے محروم کر کے پھانسی پر لٹکا دیا گیا کہ انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد عربی زبان میں تلاوت قرآن کریم اور اذان کی اجازت دے دی تھی اور دینی تعلیم کی ایک حد تک گنجائش پیدا کر دی تھی۔ اسی سیکولرزم کے تحفظ کے لیے نجم الدین اربکان کو پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور اس حد تک سختی کی گئی کہ چند سال قبل پارلیمنٹ کی ایک نومنتخب خاتون کو صرف اس جرم میں پارلیمنٹ کی رکنیت بلکہ ترکی کی شہریت سے محروم ہونا پڑا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ننگے سر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ترکی پر یورپی یونین کے دروازے بند ہیں اور اسے ایک یورپی ملک کہلانے کے لیے اپنے قوانین میں مزید ترمیم کرنا پڑ رہی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ محل نظر ہے کہ خاندان کی سربراہی میں میاں اور بیوی کو یکساں حیثیت دینے سے خاندانی نظام کا کیا حشر ہوگا، کیونکہ دنیا میں کسی بھی جگہ کسی بھی ادارے میں سربراہی کے اختیارات کی دو افراد میں برابر تقسیم کے ساتھ اس ادارے کا نظام کبھی نہیں چل سکتا۔ اور یورپ اپنے ہاں اس مصنوعی مساوات کے نتیجے میں فیملی سسٹم کی مکمل تباہی کا تجربہ کر چکا ہے لیکن اس تجربہ کے باوجود ترکی کو یہ سب کچھ کرنا ہے اس لیے کہ اس کے بغیر اسے یورپ ملک کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ایک بار پھر ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے جلوہ گر ہے کہ:

’’یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین کے پیروکار نہ بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ آیت ۱۲۰)

ترکی کو اس قسم کی کارروایوں سے یورپی ملک کا مقام حاصل ہوتا ہے یا نہیں یہ وقت بتائے گا، البتہ وہ مسلم ممالک جو اس وقت مغرب کی قیادت میں عالمی برادری کا فعال حصہ بننے کے لیے بے چین ہیں انہیں ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس ’’عالمی برادری‘‘ کا رکن بننے اور ورلڈ سوسائٹی کا قابل قبول حصہ قرار پانے کے لیے انہیں کس کس چیز کی قربانی دینی ہے اور ملی حمیت کو مغرب کی خوشنودی کی بھینٹ چڑھا دینے کے بعد اب انہوں نے دین اور دینی ثقافت کے کون کون سے حصے سے دست بردار ہونا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter