اسلامی نظام میں رائے عامہ کی حیثیت

   
تاریخ : 
۲۱ اگست ۲۰۰۴ء

ہجری مہینہ جمادی الثانی ختم ہو چکا اور ماہ رجب المرجب کا آغاز ہو گیا ہے۔ جمادی الثانی کے دوران خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا، اس مناسبت سے اس ماہ کے دوران ان کی یاد میں اجتماعات کا انعقاد ہوا، ان کی ملی و دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا، مختلف مکاتب فکر نے اپنے اپنے ذوق اور اسلوب کے مطابق حضرت صدیق اکبرؓ کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار کیا اور اخبارات و جرائد نے خصوصی ایڈیشن اور مضامین شائع کیے۔ محکمہ اوقاف پنجاب نے بھی گزشتہ دنوں الحمراء ہال لاہور میں ”سیدنا صدیق اکبرؓ سیمینار“ کا انعقاد کیا، جس کی صدارت صوبائی سیکرٹری اوقاف جناب جاوید اقبال اعوان نے کی اور مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ زعماء نے سیدنا صدیق اکبرؓ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

سیدنا صدیق اکبرؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہونے کے حوالے سے اسلامی خلافت کا نقطہ آغاز اور اسلام کے سیاسی نظام کی علامت ہیں۔ اسی وجہ سے مجھے جہاں بھی اس نوعیت کے کسی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا، میں نے عرض کیا کہ آج کے دور میں چونکہ اسلام کا سیاسی نظام اور فلسفہ دنیا بھر کے اعتراضات و شبہات کی زد میں ہے اور اس کے بارے میں طرح طرح کے اشکالات سامنے لائے جا رہے ہیں، اس لیے اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور حضرات خلفائے راشدینؓ کی سیرت و کردار کا اس انداز سے مطالعہ کیا جائے اور اسے اس اسلوب کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والے اشکالات اور اعتراضات کا جواب بھی آج کی زبان اور اسلوب میں لوگوں کے سامنے آ جائے۔

اس بات کی ضرورت اس پس منظر میں اور بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہاں صدیوں تک جاری رہنے والی نسلی خلافتوں اور پھر بادشاہتوں نے، جو آج بھی قائم ہیں، ان کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی مطلق العنان حکومتوں نے دنیا میں اس تاثر کو تقویت بخشی ہے کہ مسلمانوں کا تصورِ حکومت آمرانہ ہے اور مطلق العنانیت کا آئینہ دار ہے۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سنت ہائے مبارکہ اس کی نفی کرتی ہیں۔

مثلاً رائے عامہ کے حوالے سے ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی نظام میں رائے عامہ اور عوام کی سوچ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشین کے طور پر اگرچہ واضح اشاروں میں حضرت ابوبکرؓ کی طرف لوگوں کو متوجہ کر دیا تھا، مگر انہیں نامزد کرنے کی بجائے ان کے انتخاب کو لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ بخاری شریف اور مسلم شریف کی روایات کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

”میں نے ارادہ کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو خلافت کا پروانہ لکھ کر دے دوں، مگر مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے اور مسلمان بھی ابوبکر کے علاوہ کسی کو بطور خلیفہ قبول نہیں کریں گے، اس لیے میں نے یہ ارادہ ترک کر دیا ہے۔“

یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عوام کی رائے اور صوابدید پر اعتماد کا واضح اظہار تھا اور واقعتاً ہوا بھی ایسا ہی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کے جانشین کے طور پر مختلف نام سامنے آئے اور بحث و مباحثہ بھی ہوا، لیکن ابوبکر صدیقؓ کے سوا کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا اور مسلمانوں کے اتفاق رائے سے انہی کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا۔

حضرت صدیق اکبرؓ نے جانشینِ رسول اکرمؐ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جو سب سے پہلا خطبہ دیا، اس میں واضح طور پر عام لوگوں کو یہ حق دیا کہ اگر وہ دیکھیں کہ خلیفۃ الرسولؐ صحیح راہ پر نہیں چل رہے، تو نہ صرف انہیں ٹوکیں، بلکہ انہیں سیدھا کر دیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکرؓ کا تاریخی جملہ اس طرح ہے: ”اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔“ صرف ٹوکنے کی بجائے ”سیدھا کر دینے“ کا حق عوام کے لیے تسلیم کر لینے کے بعد اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ اسلام حکومتی معاملات میں عوام کو نہ صرف رائے کا حق دیتا ہے، بلکہ ان کا یہ حق بھی تسلیم کرتا ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کر دیں جو حاکم وقت کو سیدھا چلنے پر مجبور کر دیں۔

اسی طرح معاشی سسٹم کے تناظر میں جو دو بڑے اصول حضرت صدیق اکبرؓ کے حوالے سے سامنے آئے، وہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلام کے معاشی نظام کا سب سے بہتر تعارف ہیں:

  1. ایک یہ کہ حضرت ابوبکرؓ خلافت سنبھالنے سے قبل چھوٹا موٹا کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس سے انہیں منصب خلافت پر فائز ہوتے ہی روک دیا گیا اور طے پایا کہ ان کی گزر اوقات کے لیے بیت المال سے وظیفہ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو اصول طے کیا، وہ یہ تھا کہ انہیں مدینہ منورہ کے ایک عام شہری کے معیار پر بیت المال سے وظیفہ ملے گا، جس سے وہ اپنے گھر کے اخراجات چلائیں گے۔ اس میں ایک واضح سوچ کارفرما تھی کہ حاکم وقت کا معیار زندگی اور گھریلو ماحول ملک کے دوسرے شہریوں سے مختلف نہیں ہونا چاہیے اور اسے ملک کے عام شہریوں جیسی زندگی ہی گزارنی چاہیے۔
  2. خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے اپنے دور خلافت میں اس میں یہ کہہ کر مزید اضافہ کر دیا کہ ”ان کے عمّال یعنی گورنر اور افسران باریک لباس نہیں پہنیں گے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائیں گے، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے اور گھر کے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائیں گے۔“ یہ باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز کی علامت ہوتی تھیں اور ”سٹیٹس سمبل“ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں اور افسروں کو حکماً اس سے روک کر اس اصول کو پختہ کر دیا کہ حاکم وقت اور حکمران طبقہ عام شہریوں جیسی زندگی گزارنے کا پابند ہے اور انہیں کسی قسم کا معاشرتی امتیاز اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

  3. اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال سے شہریوں کے لیے وظائف کی تقسیم کا طریق کار طے کرنا چاہا تو حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ فضیلت کے درجات کا لحاظ رکھتے ہوئے وظائف کی تقسیم میں امتیاز رکھا جائے۔ مہاجرین کو زیادہ دیا جائے اور دوسروں کو کم دیا جائے۔ اہل بدر کا وظیفہ دوسروں سے زائد رکھا جائے اور ازواج مطہراتؓ کے لیے دوسروں سے زیادہ وظیفے کا تعین کیا جائے۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”فضیلت اور درجے کا تعلق آخرت کے ثواب سے ملے گا، یہ معیشت ہے جس میں برابری رکھنا ترجیحات قائم کرنے سے بہتر ہے۔“

    چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے دور خلافت میں وظائف کی تقسیم میں برابری اور مساوات کا اصول قائم رکھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ دولت کے ریاستی وسائل میں تمام شہریوں کا حق برابر ہے اور اس میں کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ مگر جب حضرت عمرؓ سریر آرائے خلافت ہوئے تو انہوں نے یہ اصول تبدیل کر دیا اور اپنی رائے کے مطابق وظائف کی تقسیم میں ترجیحات کے اصول پر عمل شروع کر دیا، جو ان کے دس سالہ دور خلافت میں قائم رہا۔ البتہ انہیں اس کے نتائج دیکھ کر احساس ہو گیا کہ ان کی رائے درست نہیں تھی، بلکہ حضرت صدیق اکبرؓ کا فیصلہ ہی صحیح تھا۔ چنانچہ امام ابو یوسفؒ نے ”کتاب الخراج“ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف کیا اور کہا کہ اگلے سال سے وہ اس طریق کار کو ترک کر کے حضرت ابوبکرؓ کی پالیسی پر واپس چلے جائیں گے۔ مگر اگلا سال انہیں نصیب ہی نہ ہوا، اس سے قبل ہی وہ شہادت سے ہمکنار ہو گئے۔

  4. ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ اور ملت اسلامیہ کی آئیڈیل شخصیات کی خدمات اور کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کے اجتماعی نظام اور معاشرتی کردار کے بارے میں ان کی تعلیمات اور اسوہ و سیرت کو آج کے دور میں نمایاں کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور ہمارے علمائے کرام اور دانشوروں کو اس پہلو پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter