موجودہ حالات اور جنرل حمید گل

   
تاریخ : 
۱۰ دسمبر ۲۰۰۹ء

دو روز قبل جنرل (ر) حمید گل صاحب نے فون پر مجھے کہا کہ ۸ دسمبر کو راولپنڈی میں کچھ حضرات کو ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے جس میں آپ کی آمد بھی ضروری ہے۔ میرا خیال تھا کہ کوئی محدود سطح کا مشاورتی اجلاس ہوگا لیکن میں جب ۳ بجے کے لگ بھگ راولپنڈی صدر کے فلیش مین ہوٹل کے مین ہال میں داخل ہوا تو وہاں ایک اچھے خاصے قومی سیمینار کا سماں تھا۔ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی افسران، سابق سفارتکار اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے ممتاز حضرات راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی صورت میں کرسیوں پر تشریف فرما تھے۔ اسلام آباد کے مولانا عبد الخالق صاحب علماء کرام کا خیر مقدم کرنے اور انہیں مناسب مقامات پر بٹھانے میں مصروف تھے۔ مجھے انہوں نے ایک طرف کرسیوں کی پہلی رو میں علامہ احمد علی قصوری، علامہ علی غضنفر کراروی، آغا مرتضٰی پویا اور خاکسار راہنما جناب حمید الدین المشرقی کے ساتھ بٹھا دیا۔ سامنے کی رو میں دیگر حضرات کے ساتھ شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ اور مولانا انوار الحق حقانی تشریف فرما تھے۔

تقریب کا آغاز جنرل حمید گل کے نام پر شروع کی جانے والی انٹرنیٹ ویب سائیٹ کے باقاعدہ افتتاح سے کیا گیا جس کے بارے میں ان کی صاحبزادی محترمہ عظمٰی گل نے بتایا کہ یہ ویب سائیٹ انہوں نے اپنے والد محترم کو ان کی سالگرہ پر تحفے کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنائی ہے اور اس کے مختلف شعبوں میں افغانستان، کشمیر، جہاد اور اسلامی نظام کے بارے میں جنرل حمید گل کے مضامین کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جنرل حمید گل مائیک پر آئے اور موجودہ علاقائی صورتحال پر شرکاء کو مختصر بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ جو صورتحال اس وقت ملک کو درپیش ہے یہ اس وقت بھی ہمیں درپیش تھی جب ۱۹۸۷ء میں سوویت یونین نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ افغانستان میں فوجوں کی تعداد بڑھا دی تھی بلکہ پاکستان میں بھی بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے پیچھے روس، افغانستان اور انڈیا کی خفیہ ایجنسیاں تھیں اور ان میں پاکستان کے ہزاروں شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ امریکہ بھی انہی لائنوں پر چل رہا ہے اور افغانستان سے ۱۸ ماہ کے بعد فوجوں کی واپسی شروع کرنے کے اعلان کے بعد اس نے فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے اور ادھر پاکستان میں خودکش بم دھماکوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔

جنرل حمید گل نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے بہرحال جانا ہے، اس سے یہاں کی علاقائی صورتحال میں جو تبدیلیاں آئیں گی ان پر غور کرنا اور ان کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں کا تعین ہماری ذمہ داری ہے اور اسی مقصد کے لیے آپ حضرات کو زحمت دی گئی ہے۔ انہوں نے ملک کے اندر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے خودکش بم دھماکوں اور ان میں بے گناہ شہریوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس سلسلہ میں بیرونی عوامل بالخصوص بھارت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل عوامل کو بے نقاب کرے۔ اسی طرح ان عناصر کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے جو انتقام اور بدلے کے لیے فوجی مراکز اور مساجد پر حملے کر رہے ہیں کہ ان کی ایسی کارروائیوں سے پاکستان کمزور ہو رہا ہے، دشمن کو تقویت مل رہی ہے اور دینی حلقے بدنام ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر داخلہ علماء کرام سے فتویٰ جاری کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ علماء کرام کوئی فتویٰ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی دے سکتے ہیں اور انہیں پھر پرویز مشرف کے غیر شرعی اقدامات پر بھی فتویٰ جاری کرنا پڑے گا اور دیگر غیر اسلامی پالیسیاں بھی فتوؤں کا عنوان بنیں گی۔

جنرل صاحب نے موجودہ صورتحال کی اصلاح کے لیے ہاؤس کے سامنے چند تجاویز پیش کیں جنہیں ہاؤس نے کانفرنس کی طرف سے متفقہ موقف کے طور پر منظور کر لیا۔

  1. قبائلی علاقے میں جاری آپریشن اور عسکری گروپوں کی طرف سے جنگ میں دونوں طرف سے فوری طور پر سیزفائر ضروری ہے اور ہم دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر سیزفائر کی یہ اپیل منظور کرتے ہوئے جنگ بند کر دیں۔
  2. فریقین میں مذاکرات اور مصالحت کے لیے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور مختلف طبقات کے ممتاز حضرات پر مشتمل وفد تشکیل دیا جائے جو قبائلی علاقوں میں جا کر اس مصالحت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اگر حکومت اور فریق ثانی اس تجویز کو منظور کر لیں تو ہم یہ وفد تشکیل دینے اور جانوں پر کھیل کر وہاں جانے کے لیے تیار ہیں۔
  3. امریکہ کے ساتھ تعاون و اشتراک پر نظر ثانی کی جائے اور اسے محدود اور مشروط کیا جائے اور تعاون کی شرط کے طور پر امریکہ سے مطالبہ کیا جائے کہ:
    • ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کو بھارت کے برابر درجہ دیا جائے۔
    • کشمیر کے معاملات میں بھارت کی مسلسل مداخلت کا نوٹس لیا جائے۔
  4. بلوچستان میں عوام کے مشتعل جذبات کو کم کرنے کے لیے پرویز مشرف کے خلاف فوری طور پر ٹرائل شروع کیا جائے۔
  5. جن خفیہ معاہدات کے نتیجے میں پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے ہو رہے ہیں، بلیک واٹر کے اہلکار بلا روک ٹوک ملک میں مسلح طور پر پھر رہے ہیں اور دیگر اس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، ان معاہدات کو منظر عام پر لایا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ یہ معاہدات کیا ہیں؟

جنرل حمید گل کا کہنا ہے کہ امریکہ جانے سے پہلے کوئی نہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہے جو ان کے خیال میں یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی جوہری قوت کو ختم کر دیا جائے یا کم از کم مشترکہ نگرانی میں دے دیا جائے اور بھارت کی سرحد سے پاکستانی فوجوں کو مغربی سرحد پر منتقل کرا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد مغربی چھاؤنیوں کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا اور ساری فوجیں مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ لگا دی تھیں لیکن اب اس پالیسی کو تبدیل کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جس سے مشرقی سرحد پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوگی اور بھارت کی بالادستی کی راہ ہموار ہوگی۔ اس صورتحال پر نظر رکھی جائے اور اسی طرح ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے مطابق امریکہ کے ڈرون حملے بند کرائے جائیں اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔

جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کی صورت میں ہمارے مقتدر حلقوں کی طرف سے اس خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے خطے پر طالبان کا تسلط قائم ہوگا اور پاکستان میں بھی طالبانائزیشن کو فروغ حاصل ہوگا۔ ہمارے پاس اس کا واضح حل موجود ہے کہ ہم طالبانائزیشن کو روکنے کے لیے پاکستان میں دستور کے مطابق نفاذ اسلام کی طرف پیشرفت کریں اور سیاسی و جمہوری طریقے سے نفاذ شریعت کر کے طالبان کے ہاتھ سے یہ ہتھیار چھین لیں۔ کیونکہ افغانستان کے اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان کے پاس پاکستان کے معاملات میں دلچسپی اور مداخلت کا یہی بہانہ ہوگا جسے ہم اپنے دستور پر سنجیدہ عملدرآمد کے ذریعے ختم کر سکتے ہیں اور اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ جنرل صاحب نے کہا کہ پاکستان میں نفاذ اسلام ہمارے دستور کا تقاضا ہے لیکن یہ نفاذ شریعت قرارداد مقاصد کے مطابق ہوگا، دستور کی اسلامی دفعات کے مطابق ہوگا اور جمہوری و سیاسی عمل کے ذریعے ہوگا، اور ہمارے حکمران طبقے اگر طالبانائزیشن کا راستہ روکنے میں سنجیدہ اور مخلص ہیں تو انہیں یہ کرنا ہی ہوگا۔

جنرل حمید گل نے ہاؤس سے اپنی ایک تجویز کی منظوری بھی لی کہ ہمارے مطالبات اور تجاویز پر اگر حکومت کوئی مثبت طرزعمل اختیار نہیں کرتی، بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعاون پر نظرثانی اور ڈرون حملے بند کرانے میں کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھاتی تو ہمیں قومی سطح پر ایک تحریک منظم کرنا ہوگی جو غیر سیاسی بنیادوں پر ہوگی اور تمام طبقات مل کر امریکی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تحریک کے وقت اور پروگرام کا اعلان نہیں کر رہے، صرف یہ بتا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو ہم خود کریں گے اور اگر فی الواقع حکومت نے کچھ نہ کیا تو ہم سرکردہ حضرات اور راہنماؤں سے مشاورت کے ساتھ قومی تحریک کا پروگرام مرتب کریں گے، اس کے لیے مشترکہ فورم تشکیل دیں گے اور اس کے وقت اور طریق کار کا اعلان کریں گے۔

یہ مختصر سی روداد ہے جنرل حمید گل کے طلب کردہ مشترکہ اجتماع کی، اس کی دیگر تفصیلات و جزئیات کے حوالہ سے پھر کسی موقع پر گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter