مشرقِ وسطٰی کی معروضی صورتحال اور چند تجاویز

   
تاریخ: 
اپریل ۲۰۱۱ء

شش ماہی امتحان کی تعطیلات کی وجہ سے گزشتہ تین دن سے کراچی میں ہوں اور حسب سابق جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں تخصص کی کلاسوں میں انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں پر گزارشات پیش کر رہا ہوں۔

اس دفعہ کراچی میں ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے کہ عرب ممالک کے موجودہ حالات بالخصوص بحرین کی شورش میں سعودی عرب کی مداخلت کے حوالے سے کراچی کی سڑکوں پر سعودی حکمرانوں کے خلاف بینرز آویزاں دیکھے جا رہے ہیں جن میں بحرین میں مداخلت پر سعودی عرب کے حکمران خاندان کے خلاف نعرہ بازی کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عرب ممالک کی مجموعی صورتحال میں صرف بحرین کو عنوان بنا کر چلائی جانے والی یہ مخالفانہ مہم مخصوص فرقہ وارانہ تناظر میں ہی دیکھی جائے گی اور چونکہ بحرین میں یہ بحران سنی حکمرانوں اور شیعہ مظاہرین کے درمیان ہے اس لیے پاکستان میں اس حوالے سے پہلے موجود کشمکش کے ماحول میں ہمدردیوں اور حمایت کا تناظر بھی وہی ہوگا۔ اس لیے جہاں بحرین کے مظاہرین کی حمایت میں نعرہ بازی ہو رہی ہے وہاں سعودی عرب کے حکمران خاندان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے حضرات بھی خاموش نہیں ہیں اور مسئلہ پر دونوں طرف سے سرگرمیاں دکھائی دینے لگی ہیں۔

اس پس منظر میں جامعہ بنوریہ سائیٹ کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم نے شہر کے سرکردہ علماء کرام کا ایک بھرپور اجتماع جامعہ بنوریہ کی مسجد میں منعقد کیا جو بدھ کو ظہر کے بعد ہوا اور راقم الحروف کو بھی اس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کا اعزاز بخشا گیا۔ کراچی کے بڑے علماء کرام میں سے مولانا اسعد تھانوی، مولانا تنویر الحق تھانوی، مولانا محمد اسلم شیخوپوری اور دیگر بزرگوں کے علاوہ مختلف دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کی بڑی تعداد اجتماع میں شامل تھی اور بحرین کی صورتحال کے پس منظر میں سعودی حکمرانوں کی حمایت اور ان کے مقابل ایرانی حکمرانوں کی مخالفت میں گرما گرم تقریروں اور تبصروں کی فضا بن رہی تھی۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ میں مولانا مفتی محمد نعیم اور جامعہ بنوریہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے وقت کے ایک اہم مسئلہ پر کراچی کے سرکردہ علماء کرام کے اس اجتماع کا اہتمام کیا اور مجھے بھی اس میں حاضری کا شرف بخشا۔ اس وقت عرب دنیا میں جو عمومی سطح پر صورتحال درپیش ہے اس کا ایک حصہ بحرین کا مسئلہ بھی ہے جس پر اظہار خیال و جذبات کے لیے ہم سب یہاں جمع ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس مسئلہ کو مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور میں عرب دنیا کی اس صورتحال کے چار مختلف پہلوؤں کی طرف آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہوں گا۔

  • عرب دنیا میں استعماری قوتوں کا سیاسی و فوجی تسلط ہے، مختلف ممالک بالخصوص حرمین شریفین کے اردگرد مغربی ممالک کی فوجیں بیٹھی ہیں جس کی وجہ سے تیل کے چشموں اور دیگر وسائل پر مغربی تسلط کے ساتھ ساتھ عرب عوام کی سیاسی آزادی اور عرب ممالک کی قومی خودمختاری ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
  • عرب ممالک کو اسرائیل کی مسلسل جارحیت کا سامنا ہے اور اسرائیل مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ مشرق وسطٰی میں اپنا اثر و رسوخ اور جارحیت بتدریج بڑھاتا جا رہا ہے۔
  • عرب ممالک کو ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کا سامنا ہے، چار مختلف عرب ممالک میں اہل تشیع کی مقامی آبادی کو ایران کی طرف سے جو سپورٹ حاصل ہے وہ ایک مستقل مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جسے اردن کے شاہ عبد اللہ نے ایک موقع پر ان الفاظ میں تعبیر کیا تھا کہ عرب ممالک کے اہل سنت عوام شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں۔ یعنی مختلف ممالک میں شیعہ آبادی کی ترتیب یوں ہے کہ وہ چاروں طرف سے اہل سنت کو گھیرے میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان شیعہ آبادیوں میں سیاسی سرگرمیوں کے رجحانات اور ایران کے ساتھ ان کے سیاسی تعلقات سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اس خطہ میں فاطمی حکومت کا دور واپس لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
  • بیشتر عرب ممالک میں شخصی حکومتیں ہیں، وہ بادشاہت کی شکل میں ہوں یا فوجی ڈکٹیٹروں کی صورت میں، بہرحال شخصی آمریتیں ہیں۔ اور آج کے اس دور میں شخصی آمریتوں کے خلاف عوام کے جذبات کا بھڑکنا اور عوامی رائے کا منظم ہو کر حکومتوں کے سامنے آجانا ایک ایسی بات ہے جسے دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی کسی ملک کے عوامی جذبات کی کلیتاً نفی کی جا سکتی ہے۔

میری گزارش یہ ہے کہ ہم جس مسئلہ پر گفتگو کے لیے یہاں جمع ہیں اسے جزوی طور پر دیکھنے کی بجائے اس مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے، ان سب پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنا موقف اور پالیسی طے کرنی چاہیے اور مشرق وسطٰی کی سنی شیعہ سیاست کے حوالے سے کوئی موقف طے کرتے ہوئے اس بات کا بہرحال لحاظ رکھنا چاہیے کہ (۱) ہماری کوئی بات اس خطہ میں استعماری قوتوں کے ایجنڈے اور تسلط کی حمایت نہ بن جائے (۲) اسرائیل کے لیے تقویت کا باعث نہ ہو (۳) اور عرب عوام کے اجتماعی جذبات اور سیاسی رجحانات کی نفی بھی اس سے نہ ہوتی ہو۔

جہاں تک مشرق وسطٰی میں اہل تشیع کی سیاسی پیشرفت اور اہل سنت کو اس سے درپیش خطرات و خدشات کا تعلق ہے میں خود اسے ایک عرصے سے محسوس کر رہا ہوں اور عرب اہل سنت کے ساتھ اس مسئلہ میں تعاون کو ضروری سمجھتا ہوں۔ جبکہ حرمین شریفین کا تقدس تو ایسا مسئلہ ہے جس کے سامنے تمام سیاسی مصلحتیں اور ترجیحات دم توڑ دیتی ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے آل سعود کے ساتھ بطور آل سعود کوئی ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ماضی کا دفاع کرنا پسند کرتا ہوں، آل سعود کے گزشتہ پون صدی کے ماضی بلکہ اس سے پہلے کے دو صدیوں کے ماضی کے حوالے سے خود میرے تحفظات ہیں جن سے دستبردار ہونے کے لیے میں تیار نہیں ہوں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود معروضی صورتحال یہ ہے کہ میرے خیال میں آل سعود اس وقت سعودی عرب کی سیاسی وحدت کی علامت ہیں، استعماری قوتیں سعودی عرب کو حصوں بخروں میں تقسیم کر کے جو مزید استعماری مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کی راہ میں سعودی عرب میں سب سے بڑی رکاوٹ آل سعود ہیں۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر آل سعود سعودی عرب حکومت کے اقتدار کے لیے منظر سے الگ ہوگئے تو سعودی عرب متحد نہیں رہ سکے گا اور عرب دنیا کے جغرافیائی منظر میں تبدیلی کے استعماری عزائم خدانخواستہ تکمیل کی طرف بڑھنے لگیں گے اور اس سے کہیں زیادہ حرمین شریفین کے تقدس و حرمت کا مسئلہ ہے۔ آل سعود اپنے بارے میں ہمارے تمام تر تحفظات کے باوجود حرمین شریفین کی جس طرح خدمت کر رہے ہیں، دنیا بھر سے آنے والے حجاج اور زائرین کو جس حسن و خوبی کے ساتھ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور حرمین شریفین میں عبادات کے ماحول میں جو امن و تحفظ اور نظم قائم ہے اس کا ڈسٹرب ہونا یقیناً ہمارے لیے بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اس لیے موجودہ معروضی حالات میں آل سعود کے خلاف کسی بھی مہم کو میں عالم اسلام، عالم عرب اور حرمین شریفین کے مفادات کے خلاف سمجھتا ہوں اور اس حد تک آج کے اس اجتماع کے شرکاء کے جذبات میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔

مگر میری گزارش ہے کہ اس کے لیے صرف یہ اجتماع کافی نہیں ہے، مولانا مفتی محمد نعیم اس آغاز پر شکریہ کے مستحق ہیں لیکن میرے نزدیک یہ صرف نقطۂ آغاز ہے اور اس کے لیے بہت سے سنجیدہ کام کی ضرورت ہے جس کے لیے چند تجاویز پیش کر رہا ہوں۔

  • عالم عرب کی موجودہ صورتحال کا معروضی حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر ارباب فکر و دانش کو ایک واقعاتی بریفنگ رپورٹ مرتب کرنی چاہیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ ہمیں اپنے موقف اور پالیسی کی بنیاد اخباری خبروں، سنی سنائی باتوں اور جذباتی تقریروں پر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ سنجیدہ اور با خبر اہل دانش کی تحقیقی اور تجزیاتی کاوشوں کو اس کی اساس بنانا چاہیے۔
  • عرب حکومتوں کے ساتھ رابطوں کے حق میں تو میں بالکل نہیں ہوں اور نہ ہی یہ ہمارا مزاج ہے۔ البتہ عرب دنیا کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش کے ساتھ ہمیں ضرور رابطہ کرنا چاہیے اور ان سے مشاورت کے ساتھ اپنی حکمت عملی اور پروگرام کا تعین کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک عرب دنیا کی دینی تحریکات کے ساتھ پاکستان کی دینی تحریکات، علمی مراکز اور جماعتوں کے مسلسل رابطے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
  • مختلف عرب ممالک کے ماحول میں سنی شیعہ سیاست کے تفصیلی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ مجھے مستقبل میں اس سیاست کے فروغ کے امکانات بہت واضح دکھائی دے رہے ہیں اس لیے اس محاذ پر کام کرنے والوں کو اس کے بارے میں تفصیلی اور حقیقی معروضی صورتحال کا مطالعہ کر کے پاکستان کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو اس سے واقف کرانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے مطالعہ و تحقیق اور معروضی حالات سے آگاہی کو شجر ممنوعہ کا درجہ دے رکھا ہے۔
  • ہم جن کی مدد کرنے جا رہے ہیں ان سے بھی پوچھ لینا چاہیے کہ انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہماری مدد کی انہیں ضرورت یا کوئی فائدہ ہے تو وہ مدد کس شعبہ میں اور کس انداز سے ہونی چاہیے؟ ایسا نہ ہو کہ ہم مدد کے نام پر ان کی مشکلات اور مسائل میں اور اضافہ کر دیں۔ ہمیں یہ منظر دوبارہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہیے کہ افغانستان پر امریکی اتحاد کی فوج کشی کے موقع پر طالبان کی قیادت واضح طور پر کہہ رہی تھی کہ ہمیں اس وقت افرادی قوت کی مدد کی ضرورت نہیں ہے مگر ہمارے نوجوان اس کے باوجود پاک افغان سرحد پر جذباتی انداز میں جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔
  • اور سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے ہاں قومی سطح پر مشاورت ہو، بڑے دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے قائدین کو مل بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے اور ایک مشترکہ حکمت عملی باہمی مشاورت کے ساتھ طے کرنی چاہیے تاکہ ہم اس حوالے سے صحیح کردار ادا کر سکیں اور یہ مسئلہ ہمارے درمیان کسی نئے خلفشار کا عنوان نہ بن جائے۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۵ اپریل ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter