’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پر چند تعارفی دروس

   
تاریخ : 
۹ اپریل ۲۰۱۹ء

معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی کے رئیس مولانا محمد الیاس مدنی کا ارشاد تھا کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پر ان کے ہاں کچھ تعارفی دروس کا اہتمام ہو جائے، ملک کے مختلف علاقوں کے دیگر متعدد احباب کی طرف سے بھی ایک عرصہ سے یہ فرمائش جاری ہے۔ خود میرا حال یہ ہے کہ، کسی تکلف کے بغیر، خود کو اس کا پوری طرح اہل نہیں سمجھتا اور بہت سے امور میں تشنگی محسوس کرتا ہوں۔ لیکن اس کی دن بدن بڑھتی ہوئی ضرورت و اہمیت کے باوجود اس سلسلہ میں ایسے عمومی دائرے میں اس کی تکمیل کا کوئی ماحول دکھائی نہیں دیتا جس سے مختلف الخیال اور متنوع ذوق رکھنے والے حضرات فائدہ اٹھا سکیں، اور چونکہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے، اس لیے مولانا الیاس سے عرض کیا کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحان والا ہفتہ عام طور پر میرے پاس فراغت کا ہوتا ہے اس لیے اگر اس موقع پر کوئی صورت بن سکے تو حاضر ہوں، انہوں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے ۷ سے ۱۰ اپریل تک معہد الخلیل الاسلامی میں اس ترتیب کے ساتھ دروس کا پروگرام بنا لیا کہ روزانہ ظہر سے عصر کے درمیان دو درس ہو جائیں اور آٹھ دروس میں کتاب کے مقدمہ کے علاوہ ارتفاقات اور استنباط الشرائع کے ابواب کا خلاصہ عرض کر دیا جائے۔ اس پروگرام کے لیے ۶ اپریل کو اپنے منجھلے پوتے محمد ہلال خان ناصر کے ہمراہ کراچی پہنچ گیا ہوں اور ۱۰ یا ۱۱ اپریل کو واپسی کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۶ اپریل کو ملیر کے علاقہ میں حضرت مولانا قاری رفیق الخلیل شہیدؒ کے مدرسہ ’’ادارۃ الفرقان‘‘ میں حفاظ قرآن کریم کی دستار بندی کی سالانہ تقریب میں حاضری ہوئی اور حفاظ کے آخری سبق میں شرکت کے علاوہ قرآن کریم کے اعجاز پر چند گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ادارہ کا تعلیمی ماحول و معیار اور اہل علاقہ کا ذوق دیکھ کر حضرت قاری صاحب شہیدؒ کی محنت و اسلوب اور ان کے خاندان کی طرف سے اس کے تسلسل کو جاری رکھنے کے عزم کا اندازہ ہوا اور ان سب کے لیے دل سے دعا نکلی۔

اگلے روز ۷ اپریل کو صبح گیارہ بجے نیو ناظم آباد میں مولانا قاری غلام رسول کے ادارہ جامعہ عثمان بن عفانؓ میں اسی نوعیت کی تقریب تھی جس میں حاضری دی اور حفاظ کے آخری سبق میں شرکت کے ساتھ قرآن کریم کے اعجاز کے اس پہلو پر کچھ معروضات پیش کیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن کیوں کہا جاتا ہے اور ان کے حکم پر مرتب کیا جانے والا ’’مصحف عثمانی‘‘ قرآن کریم کے حوالہ سے امت مسلمہ میں وحدت و اجتماعیت کا ماحول برقرار رکھنے کا کیسے باعث بنا؟ اس کے بعد معہد الخلیل الاسلامی پہنچ گیا اور ظہر کے بعد مذکورہ دروس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

مولانا محمد الیاس مدنی نے اس کے لیے جس ذوق و اسلوب کے ساتھ اہتمام کر رکھا ہے اس سے حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے جو میرے جیسے ولی اللہی طلبہ کے لیے یقیناً خوشی اور حوصلہ افزائی کا باعث ہے اور اس سے یہ تسلی ہوتی ہے کہ جو تھوڑا بہت کام ہم کر رہے ہیں اس کی سمت درست ہے اور اس میں پیشرفت کے مواقع اور امکانات بھی موجود ہیں۔ مولانا موصوف کا ارادہ ہے کہ وہ ان دروس کو تحریری صورت میں مرتب کرائیں گے اور طباعت و اشاعت کا اہتمام بھی کریں گے۔ میں نے ان سے یہ معلوم ہونے پر سوچا کہ چلو اس طرح ہمارا نام بھی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے باقاعدہ خوشہ چینوں میں ہو جائے گا جو یقیناً بہتر توشۂ آخرت اور باعث نجات ہوگا، اللہم ربنا آمین۔

دروس کی دیگر تفصیلات تو اپنی ترتیب کے ساتھ سامنے آتی رہیں گی مگر ایک بات ابھی عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا نصاب تعلیم ہمارے ہاں مروجہ تعلیم ’’درس نظامی‘‘ سے مختلف تھا۔ درس نظامی میں اس وقت زیادہ زور معقولات اور فقہ کے قانونی تناظر و ماحول پر تھا جبکہ ولی اللہی نصاب میں منقولات اور قرآن و حدیث کی عمومی تدریس کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد دینی تعلیم کے نئے نظام و نصاب میں دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس میں جو نصائب رائج کیا گیا وہ کہلاتا تو ’’درس نظامی‘‘ ہی ہے مگر یہ دراصل درس نظامی اور ولی اللہی نصاب کا امتزاج ہے اور دونوں کو ملا کر اس دور کی ضروریات کے پیش نظر ایک نیا اور مشترکہ نصاب مرتب کیا گیا تھا جو اب تک چلا آرہا ہے۔ اس پر عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’معقولات‘‘ کو نصاب سے خارج کر دیا تھا اور اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد صرف منقولات پر رکھی تھی۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے اور میری گزارش یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’معقولات‘‘ کو خارج کر دینے کی بجائے دینی تعلیم و تربیت کے ماحول کا رخ ’’معقولات قدیمہ‘‘ کی بجائے ’’معقولات جدیدہ‘‘ کی طرف موڑ دیا تھا۔ ہمارے ہاں معقولات کا روایتی دائرہ یونانی فلسفہ و منطق کے تناظر میں ہے جس کا دور یورپ میں فکری انقلاب اور سائنسی ارتقا کے ساتھ ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ سماجیات اور عمرانیات کے فلسفہ نے لے لی تھی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس تبدیلی کو بروقت محسوس کیا اور سماجی ضروریات و نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا نیا اسلوب اختیار کیا جو دینی تعلیم کو معقولات جدیدہ کے دائرہ میں لانے کا انقلابی قدم تھا اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ اسی فکر و فلسفہ کا شاہکار ہے۔

دروس سے ہٹ کر نجی ملاقاتوں میں بعض دوستوں کے سوال پر میں نے عرض کیا کہ میرے تعلیمی ذوق میں عام طور پر تین امور روایتی ماحول سے مختلف دکھائی دیتے ہیں جن کی طرف دوستوں کو مسلسل توجہ دلاتا رہتا ہوں۔

  1. حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ کا آج کی انسانی سماجیات کے تناظر میں تعارف۔
  2. مروجہ عالمی اور ملکی قوانین کے ساتھ احکام القرآن کا تقابلی مطالعہ۔
  3. اور موجودہ بین الاقوامی معاہدات سے آگاہی اور ان کے دائرہ میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا جائزہ۔

میری تمام تر تعلیمی، تدریسی اور فکری سعی و کاوش کی جولانگاہ یہی تین دائرے ہیں اور اسی پر آخری دم تک قائم رہنے کا عزم و ارادہ رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ قبولیت و استقامت سے نوازیں، آمین۔ بعض دوستوں کے استفسار پر انہیں بتایا کہ مروجہ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ احکام القرآن کا تقابلی مطالعہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں سالانہ دورۂ تفسیر قرآن کریم میں میری معروضات کا بنیادی موضوع ہوتا ہے جو اس سال ۱۴ اپریل سے شروع ہو کر ۳ مئی تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات الشریعہ اکادمی کے ناظم مفتی محمد عثمان جتوئی (03015797737) سے معلوم کی جا سکتی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter