سزائے موت کا قانون اور پاپائے روم

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۱۶ء

روزنامہ جنگ کراچی ۲۲ فروری ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ موت کی سزا ختم کر دینی چاہیے، تمام حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مشترکہ رائے سے موت کی سزا کو ختم کر دیں، کیونکہ اس طرح حکومتیں کسی انسان کی ہلاکت کی مرتکب نہیں ہوں گی۔ ویٹی کن سٹی میں سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پوپ نے ہزاروں عقیدت مندوں سے خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا بھر کے مسیحیوں کو تلقین کی ہے کہ وہ موت کی سزا کے خاتمہ کے لیے اپنی کوشش شروع کر دیں۔‘‘

سنگین معاشرتی جرائم پر موت کی سزا آسمانی تعلیمات کا ہمیشہ سے حصہ چلی آرہی ہے اور یہ انسانی سوسائٹی کی ناگزیر ضرورت ہے کہ اس کے بغیر معاشرے میں قتل و غارت کی روک تھام اور امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔قرآن کریم نے اس معاشرتی ضرورت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب لعلکم تتقون‘‘ اور اے اہل دانش! تمہارے لیے قصاص کے قانون میں زندگی ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ جبکہ قرآن کریم کا اس کے ساتھ یہ ارشاد بھی ہے کہ یہ سزا توریت کے بیان کردہ حکم کا تسلسل ہے۔’’وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص‘‘ اور ہم نے توریت میں بنی اسرائیل پر یہ فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بھی بدلہ اور قصاص ہے۔

اسی طرح بائبل میں دوسرے بہت سے جرائم مثلاً ارتداد، ماں باپ کی توہین اور زنا وغیرہ کی سزا قصاص، قتل اور سنگساری کی صورت میں بیان کی گئی ہے، جبکہ اسلام نے اس تسلسل کو باقی رکھا ہے۔چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم ؐ کے سامنے ایک یہودی جوڑے کو زنا کے جرم میں پیش کیا گیا تو آپؐ نے توریت منگوائی اور ان آیات کا حوالہ دے کر دونوں کو سنگسار کر دیا جس میں زنا کی سزا سنگساری کی صورت میں موت بتائی گئی ہے۔اس کے علاوہ بھی مختلف جرائم پر موت کی سزا کی آیات آج بھی بائبل میں جوں کی توں موجود ہیں باوجودیکہ اس میں بہت سی تحریف ہو چکی ہے۔قرآن کریم نے بعض جزوی تبدیلیوں کے ساتھ ان سزاؤں کو باقی رکھا ہے اور اس کی حکمت بھی واضح کی ہے کہ انسانی نفسیات کا تقاضہ ہے کہ سنگین جرائم پر سنگین سزاؤں کو نافذ کیا جائے تاکہ انسانی معاشرہ ان جرائم سے پاک ہو اور جرائم پر کنٹرول کیا جا سکے۔

لیکن آج کی سیکولر قوتیں عالمی سطح پر مسلسل اس بات کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ موت کی سزا کو سرے سے قانونی نظام سے نکال دیا جائے۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ یہی مغربی لابیاں جو قتل، زنا، ارتداد اور توہین رسالت پر سزائے موت کی مخالفت کر رہی ہیں، مذہبی دہشت گردی اور منشیات کے استعمال پر موت کی سزا کی حوصلہ افزائی بھی انہیں کی طرف سے ہو رہی ہے، حتٰی کہ مبینہ دہشت گردی کے بارے میں ان کا موقف اور طرز عمل یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ ان کے خیال میں مذہبی دہشت گردی کا مرتکب ہے، اس کے لیے اپنے رویے سے رجوع، اس سے معافی، اور اس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ بھی انہوں نے بند کر رکھا ہے، اور یہ پالیسی عملاً اختیار کر رکھی ہے کہ ایسے افراد اور گروہوں کو مکمل فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے اور ان میں سے کسی کو بھی زندہ رہنے کا حق نہ دیا جائے۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے قوموں اور گروہوں کے خلاف فوجی کاروائیوں میں لاکھوں انسانوں کا کھلے بندوں قتل عام کرنے والوں کو کسی ملک میں کسی سنگین جرم کے مرتکب شخص کی ذاتی تکلیف کی تو فکر ہے کہ کوئی حکومت ایسے کسی مجرم کے قتل کی مرتکب نہ ہو، مگر عالمی اتحادوں کے پرچم تلے، اقوام متحدہ کے سائے میں ہر سال لاکھوں افراد کا قتل عام، جن میں ہمیشہ اکثریت بے گناہوں اور پراَمن شہریوں کی رہی ہے، انہی مہذب حکومتوں کے نزدیک انسانیت کا تقاضہ اور نام نہاد سولائزیشن کی بقا اور تحفظ قرار پا چکا ہے، اور وہ اس عمل میں تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

سیکولر حکومتوں، قوتوں اور لابیوں کا یہ دوغلاپن اور منافقت سب کو دکھائی دے رہی ہے، البتہ مسیحیت کی مذہبی نمائندگی کرنے والے پاپائے روم کی طرف سے سزائے موت کے خاتمہ کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اور اس تلخ اور مکروہ زمینی حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے کہ مسیحیت کے مذہبی پیشوائیت نے بھی سیکولر سوچ اور فلسفہ کے سامنے بائبل کی مذہبی تعلیمات کو سرنڈر کرانے کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ دراصل آج کی دنیا کا سب سے بڑا ثقافتی اور فکری مخمصہ یہی ہے کہ مسیحی دنیا کی مذہبی پیشوائیت نے بائبل کی آسمانی تعلیمات اور معاشرتی احکام سے دستبرداری اختیار کر لی ہے، اسی بنیاد پر عالم اسلام کی مذہبی قیادت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بھی مسیحی پیشوائیت کی طرح آسمانی تعلیمات کی معاشرتی عملداری سے دستبردار ہوجائیں جو کئی وجوہ سے ممکن نہیں:

  • ایک اس وجہ سے کہ قرآن کریم کی تعلیمات اور نبی اکرم ؐ کی طرف سے اس کی تشریحات، ملت اسلامیہ کے صدیوں کے اجماعی تعامل کی صورت میں ، محفوظ حالت میں دنیا کے سامنے موجود ہیں، جس سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔
  • دوسرا اس وجہ سے کہ مسیحی پاپائیت نے خود کو اللہ تعالیٰ کی منشا کے اظہار اور بائبل کی تشریح کی واحد اتھارٹی کا درجہ دے کر وحی الہٰی میں ردوبدل اور آسمانی تعلیمات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لینے کی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ جبکہ اسلام میں قرآن و سنت کے صریح اور ثابت احکام میں ردوبدل کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جس کی ایک جھلک قرآن کریم کی ایک آیت مقدسہ کے اس جملے میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو یہ اعلان کرنے کی ہدایت کی ہے کہ ’’قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقآء نفسی‘‘ آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ قرآن کریم میں اپنی طرف سے تبدیلی کر سکوں۔

اس لیے مسیحیت کی مذہبی پیشوائیت جو کچھ بھی کرے مسلمانوں کی مذہبی قیادت سے اس بات کی کسی بھی درجہ میں توقع کرنا فضول ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام سے، جو بائبل کے احکام و قوانین کا تسلسل بھی ہیں، دستبرداری اختیار کر سکیں۔ چنانچہ پاپائے روم کی اس اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہم ان سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جن آسمانی تعلیمات کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں خدا کے لیے انہیں انسانی سوسائٹی کی خواہشات اور سیکولر لابیوں کی مذہب دشمنی پر قربان نہ کریں، اور یاددہانی کے لیے ہم آج کی بائبل میں موجود بیسیوں آیات میں سے صرف ایک کا بطور نمونہ حوالہ دینا چاہیں گے جو بائبل کی کتاب استثناء میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:

’’شریعت کی جو بات وہ تجھ کو سکھلائیں اور جیسا فیصلہ تجھ کو بتلائیں اسی کے مطابق کرنا، اور جو کچھ فتویٰ وہ دیں اس سے داہنے یا بائیں نہ مڑنا، اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے، اور تو اسرائیل میں ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter