سرحد حکومت کے اصل کام

   
تاریخ : 
۲۰۰۲ء غالباً

سرحد اسمبلی نے گزشتہ دنوں اہم نوعیت کی چند قراردادیں پاس کی ہیں جو اگرچہ سفارشی نوعیت کی ہیں، مگر ان سے سرحد اسمبلی میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صوبائی حکومت کے فکری رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے اور نفاذ اسلام کے حوالے سے وفاقی حکومت اور ملک کی دیگر صوبائی حکومتوں کے لیے بھی ان میں راہنمائی کا سامان موجود ہے۔

ایک قرارداد میں سرحد اسمبلی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پنجاب حکومت کو اس امر کی ہدایت کرے کہ خدائی اور نبوت کی جھوٹے دعویداروں سے سختی سے نمٹا جائے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔ اس قرارداد کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ باغبانپورہ کالج لاہور کے ایک لیکچرار پروفیسر مشتاق نے مبینہ طور پر کچھ عرصے سے ایک نئے مذہب کا پرچار شروع کر رکھا ہے جس کی رو سے وہ خود ’’رب جی‘‘ (نعوذ باللہ) کہلاتا ہے اور اس کے پیروکار ایک دوسرے کو رسول کہتے ہیں۔ اس شخص نے ملکی کی مختلف دینی اور سیاسی شخصیات کو خطوط لکھے ہیں جن میں انہیں یہ نیا مذہب قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ خط سرحد اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اکرام اللہ شاہد کے نام بھی بھیجا گیا ہے جو انہوں نے اسمبلی میں پیش کر دیا اور صوبائی اسمبلی نے اس پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد کی صورت میں اس نئے مذہب کے بانی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق پروفیسر مذکور کے خلاف علاقہ کے عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی نے چند رفقاء سمیت علاقے میں جا کر خود صورتحال کی تحقیق کی ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروفیسر مشتاق اور اس کے چیلے اپنے اس نئے مذہب کا مسلسل پرچار کر رہے ہیں اور لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ان پر ایمان لا کر ’’قید‘‘ سے نجات حاصل کریں اور چرس، افیون، شراب، بھنگ اور مکمل جنسی آزادی سے لطف اندوز ہوں، جو ان کے اس نئے مذہب میں بالکل جائز ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی نے ایک وفد کے ہمراہ وزیر اعلٰی پنجاب چودھری پرویز الہی سے ملاقات کر کے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور ان سے اس نئے مذہب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سرحد اسمبلی کی دوسری قرارداد جنوبی وزیرستان پر مبینہ امریکی بمباری کے بارے میں ہے اور اسے پاکستان کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ یہ ملک کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کا مسئلہ ہے اس پر امریکہ سے شدید احتجاج کیا جائے اور اس کی روک تھام کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس کے جواب میں امریکی افواج کے اس حالیہ وضاحتی بیان سے صورتحال کی سنگینی میں اور اضافہ ہوگیا ہے کہ ہم اپنی کاروائی جاری رکھیں گے، ہمیں اس میں یہ آزادی حاصل ہے کہ ہم جس جگہ کو منتخب کریں وہاں کاروائی کریں اور یہ پاکستان کی حکومت کی مرضی سے ہوگا۔ وضاحتی بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان سے ملحق پاکستانی صوبہ سرحد، جس میں امریکہ مخالف مسلمان جماعتوں کی حکومت ہے، اس نے واقعہ کو زبردستی اچھالا ہے، جو چودہ ماہ قبل افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکی جنگ کے منافی ہے۔

امریکی افواج کی اس وضاحت سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سالمیت، خودمختاری اور آزادی کی کوئی پرواہ نہیں، اس سلسلہ میں بین الاقوامی قوانین اور اصول و ضوابط کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں اور صوبہ سرحد کے عوام کی اکثریت نے امریکی طرز عمل اور اقدامات کے خلاف حالیہ ایکشن میں جس کھلی نفرت کا اظہار کیا ہے وہ اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، نیز اس وضاحتی بیان کے مندرجات کی رو سے اسے اس ساری صورتحال میں پاکستان کی وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

سرحد اسمبلی کی ایک قرارداد جمعہ کی چھٹی بحال کروانے کے بارے میں ہے جس میں وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ ملک میں حسب سابق جمعہ کی چھٹی بحال کرانے کے لیے اقدامات کیے جائیں ایک قرارداد میں صوبہ سرحد کی اسمبلی نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ حالیہ افغان لڑائی میں پاکستان کے جتنے مجاہدین امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے گرفتار کیے گئے ہیں انہیں جیلوں سے آزاد کیا جائے۔

ایک قرارداد میں سرحد اسمبلی نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں، جبکہ ایک قرارداد میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کے مطابق شہریوں کے رہائشی مکانات ذاتی گاڑیوں اور ذاتی اسلحہ کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔

سرحد اسمبلی نے ایک اور قرارداد میں امریکہ میں پاکستانی باشندوں پر نئے امیگریشن قوانین کے اطلاق اور ان کے ساتھ ساتھ امریکی حکام کے رویے کی مذمت کی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں امریکی حکومت کو سرحد اسمبلی کی تشویش سے آگاہ کرے۔

سرحد اسمبلی کی ان مختلف قراردادوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت اپنے اس منشور کو سامنے رکھے ہوئے ہے جس کی بنیاد پر اس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے اور اسے اس عوامی مینڈیٹ کا بھی پوری طرح احساس ہے جو اسے ۱۰ اکتوبر کے انتخابات میں عوام کی طرف حاصل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ کیا صرف ان قراردادوں سے مذکورہ مسائل کے حل کی طرف کوئی پیشرفت ممکن ہوگی۔ ہم پہلے یہ عرض کر چکے ہیں کہ ان قراردادوں سے صرف صوبہ سرحد کی حکومت کے ذہنی رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے اور ملکی رائے عامہ کی راہنمائی کا سامان فراہم ہوتا ہے، لیکن صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کا اصل عملی میدان اور ہے، اور عملی طور پر مؤثر اقدامات کیے بغیر سرحد حکومت اپنے منشور اور عوامی مینڈیٹ کے تقاضے پورے نہیں کر سکے گی۔ ہمارے خیال میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور سرحد میں اس کی صوبائی حکومت کے اصل کرنے کے کام یہ ہیں:

  • قومی سطح پر ملکی خود مختاری اور سالمیت کے تقاضوں کو اجاگر کرنے اور مسلسل امریکی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے منظم اور مربوط مہم چلائی جائے، اور اسے صرف جماعتی جدوجہد تک محدود رکھنے کی بجائے قومی مہم بنانے کی کوشش کی جائے۔ قوم کا ہر طبقہ موجود صورتحال سے ناخوش اور اس کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام طبقات کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے اور جماعتی ترجیحات سے بالاتر ہو کر اس مہم کو قومی جدوجہد کی حیثیت دی جائے۔
  • دستور کی مکمل بحالی اور ایل ایف او کے خاتمے کے لیے بھی جدوجہد کو مربوط اور منظم بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت نے ایل ایف او سمیت دستور کی نئی کتاب شائع کر کے عملاً یہ بتا دیا ہے کہ وہ ان شخصی ترامیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اس صورت میں منتخب پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی اور دستور کی بحالی کے اعلانات بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ قومی مسئلہ ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر ہمہ گیر جدوجہد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
  • سرحد کی صوبائی حکومت نفاذ اسلام کے عمل کے حوالہ سے موجودہ دستوری صورتحال کا جائزہ لے اور آئینی ماہرین کے تعاون سے قانون سازی اور نظم و نسق دونوں شعبوں میں اپنے اختیارات کا واضح طور پر تعین کرے تاکہ موجودہ حالات میں یہ بات اس کے علم میں ہو کہ وہ عملاً کیا کچھ کر سکتی ہے۔
  • اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں سے صوبائی اختیارات سے تعلق رکھنے والی سفارشات چھانٹی جائیں اور انہیں سرحد اسمبلی کے ذریعے قانونی حیثیت دے کر ان پر مرحلہ وار عملدرآمد کا آغاز کر دیا جائے۔

ہم سرحد اسمبلی کی مذکورہ بالا قراردادوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور انہیں ملی حمیت اور قومی غیرت کے اظہار کی علامت قرار دیتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور صوبہ سرحد کی حکومت کے سربراہ جناب محمد اکرم خان درانی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قراردادوں کے ذریعے اپنے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے منشور اور عوامی مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات کی طرف بھی توجہ دیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter