چھ اگست – یومِ تحفظِ نظامِ خاندان

   
تاریخ : 
یکم اگست ۲۰۲۱ء

ملی مجلس شرعی پاکستان کی طرف سے گھریلو تشدد کی روک تھام کے قوانین کے حوالے سے جاری کیے گئے سرکلر کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون مختلف صوبوں میں اس سے قبل متعلقہ اسمبلیوں سے منظور ہو کر نافذ ہو چکا ہے جبکہ اسلام آباد کی حدود کے لیے اس قانون کا بل ابھی منظوری کے مراحل میں ہے ۔اس قانون کا مقصد گھر کی چار دیواری کے اندر ہونے والے مبینہ تشدد کو روکنا اور اسے قابل سزا جرم قرار دینا ہے ۔

گھر کی چار دیواری کے اندر گھر کا ماحول انسانوں پر مشتمل ہوتا ہے جو مختلف رشتوں میں باہم منسلک ہوتے ہیں اور چونکہ مستقل طور پر اکٹھے رہتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کے خلاف زیادتی اور ناانصافی کا امکان ہر ایک کی طرف سے ہر وقت موجود رہتا ہے ۔ مگر اس قانون میں صرف خاندان کے سربراہ کو عنوان بنا کر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ظلم یا زیادتی کا ارتکاب صرف اس کی طرف سے ہوتا ہے اور باقی سب لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ یہ فطرت اور واقعات دونوں کے منافی ہے۔ اور اس کا لازمی نتیجہ گھر کو اس کے سربراہ کے کنٹرول سے بہرصورت آزاد کر دینا رہ جاتا ہے جو خاندان کا شیرازہ بکھیرنے کے سوا کوئی اور کردار نہیں رکھتا۔

خاندان انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ ہے اور قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق جنت سے زمین پر فرد نہیں بلکہ جوڑے کو اتارا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا بنیادی یونٹ فرد نہیں بلکہ خاندان ہے جس کی تنظیم و تشکیل کیلئے ہدایات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام وقتا فوقتا دیتے رہے ہیں ،اس کی آخری اور حتمی شکل جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات اور ان کا تشکیل کردہ خاندانی نظام ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انسانی معاشرہ میں خاندان کا ادارہ موجود تھا اور گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں کے باہمی حقوق، کنٹرولنگ نظام اور ایک منظم ادارے کے قواعد و ضوابط دنیا کے ہر معاشرے میں جاری و ساری تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاندانی نظام میں بہت سی اصلاحات کرکے اسے فطری اور متوازن بنیادوں پر استوار کیا اور گھر کے کسی بھی فرد کی طرف سے ان باہمی حقوق کی خلاف ورزی اور ایک دوسرے پر کسی قسم کی زیادتی پر تادیب و تعزیرکی صورتیں واضح فرمائیں جو کسی بھی ادارے کا نظم قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں اور کوئی بھی ادارہ ان تادیبی و تعزیری قوانین کے بغیر اپنا وجود اور کردار باقی نہیں رکھ سکتا ۔

مثال کے طور پرفوج کسی بھی ملک و قوم کے لئے انتہائی قابل احترام ادارہ ہوتی ہے اور ہر فوج کا ایک ادارہ جاتی نظام ہوتا ہے جس میں قواعد و ضوابط کی پابندی اور سینئرز کی اطاعت بہر حال ضروری ہوتی ہے جس کی خلاف ورزی پر مربوط تادیبی و تعزیری نظام ہر فوج میں موجود ہے اس کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ ملک کے محافظ ادارہ میں سینئر کے جونیئر پر کنٹرول اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سزاؤں کے نظام کو ادارہ جاتی تشدد قرار دے کر اس کے خلاف کسی بھی ملک میں قانون سازی کا مسئلہ شروع کر دیا جائے تو یہ کس قدر مضحکہ خیز صورتحال ہوگی اور کون سا ملک یا قوم اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہو گی؟

یہی صورتحال معاشرہ کے کسی بھی منظم ادارہ کی ہے، اسے سینئر کے کنٹرول اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر تادیب و سزا کے نظام سے محروم نہیں کیا جاسکتا، اور یہی صورتحال خاندان کی بھی ہے۔ ہمارے خیال میں مغرب نے خاندانی نظام کے حوالے سے دو بنیادی غلطیاں کی ہیں جس کی سزا خود مغرب خاندانی نظام کے بکھر جانے کی صورت میں بھگت رہا ہے اور اس کا اعتراف میخائل گورباچوف ، جان میجراور ہیلری کلنٹن نے کیا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے ۔ ایک یہ کہ میاں بیوی اور بچوں وغیرہ کے معاملات کو خاندان کے باضابطہ ادارے کی بجائے آزاد افراد کے باہمی رضاکارانہ کلب کا رنگ دے دیا گیا ہے اور کنٹرولنگ اور نظم و ضبط کی پابندی سے آزاد کردیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر قسم کی زیادتی اور مبینہ تشدد کا مجرم صرف خاندان کے سربراہ کو قرار دے کر باقی سب کو معصوم تصور کر لیا گیا ہے جو قطعی طور پر خلافِ فطرت و خلافِ واقعہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس سلسلہ میں نافذ کیے جانے والے قوانین کی بنیاد بھی انہی دو باتوں پر نظر آتی ہے جو قرآن و سنت کی صریح تعلیمات و احکامات اور مسلّمہ انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہے، اور ان کے عملی نفاذ کی صورت میں خاندان بطور ادارہ ہمارے معاشرے میں خدا نخواستہ باقی نہیں رہے گا بلکہ چند آزاد اور خودمختار افراد کا ایک غیر منظم فورم بن کر رہ جائے گا۔

گھروں میں نا انصافی اور زیادتیاں ہوتی ہیں، ان کی روک تھام ضروری ہے ۔قرآن و سنّت اور فقہ اسلامی میں ناانصافی اور زیادتی کی تمام ممکنہ صورتوں کا حل اور ان کی اصلاح کی صورتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ،ان کے ہوتے ہوئے ان مغربی قوانین کا نفاذ دستور پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں قانون ساز اداروں کو قرآن وسنت کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے۔

اس لیے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ فورم ملی مجلس شرعی نے گھریلو تشدد کی روک تھام کے مذکورہ قوانین کو شریعتِ اسلامیہ اور دستور ِپاکستان کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان قوانین کا شریعت اسلامیہ اور دستور پاکستان کے حوالے سے جائزہ لینے کے لیے تمام مسودات اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیے جائیں اور اس کی رائے کا انتظار کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ چونکہ خالصتاً شرعی اور تہذیبی مسئلہ ہے اس لیے دینی مکاتب فکر کی مسلمہ قیادتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی عملی اقدام نہ کیا جائے ورنہ ملک تہذیبی خلفشار کا شکار ہوسکتا ہے ۔

ملی مجلس شرعی پاکستان نے اس سلسلے میں 6 اگست 2021ء کو ملک بھر میں خاندانی نظام کے تحفظ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے اس روز علمائے کرام خطبات جمعۃ المبارک میں خاندانی نظام کی اہمیت اور اس سلسلے میں اسلامی ہدایات و تعلیمات کی اہمیت و ثمرات بیان کریں گے اور اخبارات و سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مختلف سطح کے اجتماعات میں اس کی روک تھام کے لیے مذکورہ قوانین کے معاشرتی نقصانات کی وضاحت کریں گے، ان شاءاللہ تعالیٰ۔

ملک کے تمام مکاتب فکر کے طبقات اور حلقوں سے اس سلسلے میں بھرپور تعاون اور شرکت کی درخواست ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter