اسوۂ نبویؐ اور رفاہی ریاست

   
تاریخ: 
۳۰ ستمبر ۲۰۲۲ء

جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ کی دعوت پر تیس ستمبر کو قلعہ دیدار سنگھ کی مرکزی جامع مسجد محمدیہ میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کا موقع ملا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد و الصلوۃ! میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ اس دینی اور علمی مرکز میں ایک دفعہ پھر حاضری کا موقع ملا۔ وقتاً فوقتاً یہاں حاضر ہوتا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ حاضری قبول فرمائیں اور مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ میں اس حاضری کی دعوت پر مولانا قاضی عطاء المحسن کا شکر گزار ہوں اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔ میں نے ان کے ساتھ مشورے سے ہی اس موضوع کا انتخاب کیا ہے کہ جناب نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے ایک پہلو آج دنیا میں بہت ڈسکس ہو رہا ہے کہ رفاہی ریاست کیا ہوتی ہے اور جناب نبی کریم ؐنے اس کا کیا ماڈل پیش کیا ہے؟ جسے ویلفیئر اسٹیٹ اور فلاحی حکومت و ریاست کہا جاتا ہے وہ کیا ہے اور جناب نبی کریم نے اس کے بارے میں کیا ہدایات دی ہیں؟ اس پر چند باتیں عرض کرنی ہیں۔

پہلے یہ دیکھیں کہ ریاست اور رفاہی ریاست میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کسی بھی ملک کی حکومت اور ریاست کے تین چار بنیادی کام سمجھے جاتے ہیں: (۱) سرحدوں کی حفاظت (۲) ملک میں امن قائم کرنا (۳) ظلم زیادتی ہو تو انصاف فراہم کرنا (۴) لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکنا (۵) اور لوگوں کو زندگی کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ فراہم کرنا۔ یہ ریاست کا بنیادی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کسی ریاست کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے تاکہ کوئی باہر سے حملہ نہ کرے، ملک کے اندر امن ہو بد امنی نہ ہو، ظلم و زیادتی اور فساد نہ ہو، لوگ ایک دوسرے پر ظلم زیادتی کریں تو مظلوم کو انصاف فراہم کیا جائے اور ظالم کو اس کے جرم کی سزا ملے جو کہ عدلیہ کا کام ہوتا ہے، ملک کی حدود میں رہنے والوں کو زندگی کی سہولیات آسانی سے فراہم ہوتی رہیں اور ان سہولیات کو حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ ریاست کا عام تصور ہے۔

ویلفیئر اسٹیٹ اور رفاہی ریاست کا دائرہ اس سے آگے ہے۔ ایک رفاہی ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت دیتی ہے۔ ایک ہے سہولیات فراہم کرنا کہ لوگوں کو کوئی چیز حاصل کرنے میں دقت نہ ہو اور ایک یہ ہے کہ حکومت خود ذمہ داری اٹھائے کہ یہ سہولیات ہم فراہم کریں گے۔ گورنمنٹ اور ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات کی گارنٹی دے اور ذمہ داری اٹھائے کہ ہم فراہم کریں گے، یہ رفاہی ریاست ہوتی ہے جسے ویلفیئر اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں آج بہت سی ویلفیئر اسٹیٹس موجود ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے بھی اس کے لیے ” اسلامی فلاحی ریاست“ کی اصطلاح استعمال کی تھی، اللہ کرے کہ پاکستان ایسی ریاست بن جائے۔

اس حوالے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کیا ہے؟ اس کو دو تین دائروں میں عرض کروں گا:

پہلی بات یہ کہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ کا ایک عرصہ یہ معمول رہا کہ کسی مسلمان کا جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے پوچھتے کہ اس میت پر کسی کا قرضہ تو نہیں ہے؟ اگر جواب ملتا کہ نہیں! تو آپ جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر جواب ملتا کہ یہ مقروض فوت ہوا ہے تو آپ کا دوسرا سوال یہ ہوتا تھا کہ کیا اس کے ترکے میں قرضے کی ادائیگی کا بندوبست موجود ہے؟ یعنی اتنا کچھ چھوڑ گیا ہے کہ قرضہ ادا ہو جائے گا؟ اگر جواب اثبات میں ملتا تو آپ جنازہ پڑھا دیتے۔ لیکن اگر جواب یہ ملتا کہ یہ مقروض فوت ہوا ہے اور اس کے ترکے میں قرضے کی ادائیگی کا بندوبست موجود نہیں ہے تو آپ اس کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ فرماتے ’’صلوا علی صاحبکم‘‘ کہ تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو۔ خود حضورؐ تشریف لے جاتے اور جنازہ نہ پڑھتے۔

ایک موقع پر ایک مسلمان فوت ہوا، حضورؐ جنازہ کے لیے تشریف لائے، معمول کے مطابق سوال کیا کہ اس پر قرضہ تو نہیں ہے؟ جواب ملا کہ قرضہ ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کتنا قرضہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اتنا۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس کے ترکے میں قرض کی ادائیگی کا بندوبست ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ نہیں! تو آپ نے فرمایا ’’صلوا علٰی صاحبکم‘‘ تم جنازہ پڑھو، میں جا رہا ہوں۔ حضرت ابو قتادہؓ معروف صحابی ہیں، فوت ہونے والا ان کا دوست تھا۔ وہ کھڑے ہوئے کہ یا رسول اللہ! مہربانی فرمائیں جنازہ پڑھا دیں، اس کا قرضہ میرے ذمے رہا۔ کیونکہ کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور جنازہ نہیں پڑھ رہے۔ کیا اس سے زیادہ محرومی کا تصور بھی ہو سکتا ہے؟ چنانچہ نبی کریمؐ نے ان کا جنازہ پڑھا دیا اور جنازے کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ ’’من ترک مالا فلورثتہ‘‘ تم میں سے جو آدمی مال اور ترکہ چھوڑ کر فوت ہو تو وہ ترکہ اس کے وارثوں کو ملے گا، ہم اس کو نہیں چھیڑیں گے، لیکن ’’من ترک کلاً او ضیاعا‘‘ جو آدمی قرضہ چھوڑ کر مرا اور ضائع ہونے والے بچے چھوڑ کر مرا جن کا کوئی سہارا نہیں ہے ’’فالیَّ وعلیَّ‘‘ تو وہ میرے پاس آئیں گے اور میرے ذمے ہوں گے۔ اس بے سہارا خاندان کو سنبھالنا ہمارے ذمہ ہوگا۔

تاریخ میں یہ بات تو آپ کو ہر جگہ ملے گی کہ کسی اچھے آدمی کے پاس جائیں کہ میری ضرورت پوری کر دو تو وہ کر دیتا ہے۔ ’’الیَّ‘‘ کی بات تو ہمیشہ سے ہوتی آرہی ہے، لیکن ’’علیَّ‘‘ کہ وہ میرے ذمہ ہوں گے یہ بات تاریخ میں غالباً سب سے پہلے جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمائی ہے۔ یہ گارنٹی کہ جو بے سہارا اور مقروض ہے اور کوئی بندوبست نہیں ہے اس کی ضروریات میرے ذمہ ہیں۔ میرے ذمے سے مراد ریاست کے ذمہ ہونا۔ جناب نبی کریم ؐ نے یہ اعلان مبارک فرمایا اور پھر اس کا ماحول بھی بنایا۔ اس ماحول کے حوالے سے دو تین واقعات عرض کرنا چاہوں گا کہ آنحضرت ؐ نے کیسا ماحول بنایا۔ بیت المال کا تصور یہ قائم ہوا کہ جس کسی کو کسی حوالے سے کسی چیز کی ضرورت پڑی اور وہ چیز نہیں مل رہی تو وہ سیدھا حضورؐ کے پاس آتا تھا اور آپ کے ہاں سے اسے وہ چیز مل جاتی تھی۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک صاحب سفر کر رہے تھے، راستے میں ان کا سواری کا اونٹ مر گیا، سفر لمبا تھا۔ ان صاحب کو پتا تھا کہ اب سواری کہاں سے ملے گی۔ وہ سیدھا مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں سفر پر جا رہا ہوں، سفر لمبا ہے اور سواری مر گئی ہے، لہٰذا مجھے سواری عنایت فرمائیں۔ حضورؐ اس وقت خوش طبعی کے موڈ میں تھے۔ حضورؐ خود بھی خوش طبعی فرمایا کرتے تھے اور لوگ بھی حضورؐ کے ساتھ خوش طبعی کیا کرتے تھے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ آنحضرتؐ خوش مزاج بزرگ تھے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ آدمی سواری مانگ رہا ہے اور حضورؐ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ پریشان ہو کر بیٹھ گیا کہ اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا۔ میں نے تو سفر کرنا ہے۔ اونٹنی کا بچہ مجھے اٹھائے گا یا میں اسے اٹھاؤں گا۔ وہ پریشان بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر عرض کیا تو حضورؐ نے فرمایا ٹھہرو تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ بیچارہ پھر پریشانی کے عالم میں بیٹھ گیا۔ وہ جس کیفیت میں بیٹھا ہوگا آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ وہ بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا۔ تھوڑی دیر گزری کہ حضورؐ نے بیت المال سے یا کہیں سے اونٹ منگوایا اور اس کی مہار اس آدمی کو پکڑائی اور فرمایا یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔

جو بات میں نے عرض کی وہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی سواری ختم ہو گئی ہے اور سفر پر جانا ہے تو اسے یہ پتا ہے سواری کہاں سے ملے گی اور پھر اسے آپؐ کے ہاں سے سواری مل گئی۔ یہ حضورؐ نے اس کا عملی کا ماحول بنایا۔

ایک اور واقعہ عرض کر دیتا وہ بھی اسی طرح کا دلچسپ واقعہ ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت ابو موسی اشعریؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے کچھ لوگوں نے سفر پر جانا تھا اور سواریاں نہیں تھیں، مشورہ ہوا کہ جناب نبی کریمؐ سے عرض کیا جائے کہ تین چار اونٹ چاہئیں۔ تین چار اونٹ کوئی کم قیمت کا مال نہیں تھا۔ اس دور کا اونٹ آج کے زمانے کی پجارو سمجھیں۔ مشورہ ہوا اور حضرت ابو موسی اشعریؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

مجلس کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ مجلس کا ماحول دیکھا جائے، سوال کا ماحول ہو تو سوال کیا جائے ورنہ انتظار کیا جائے، جا کر سیدھی اپنی بات نہیں کر دینی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر کسی وجہ سے غصے میں تھے۔ حضرت ابو موسٰیٌ نے جا کر سیدھا ہی سوال کر دیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے سفر پر جانا ہے اور تین چار اونٹ چاہئیں۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا کہ میرے پاس اونٹ نہیں ہیں۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا تو حضورؐ نے پھر فرمایا کہ نہیں ہیں۔ تیسری مرتبہ سوال کیا تو حضورؐ نے فرمایا ’’واللہ لا احملکم شیئا‘‘۔ خدا کی قسم! تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا۔ حضرت ابو موسٰیؓ کہتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ غلطی مجھ سے ہوئی ہے کہ میں نے مجلس کا ماحول نہیں دیکھا، حضورؐ کا موڈ نہیں دیکھا اور سیدھا ہی سوال کر دیا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا لہذا وہ واپس چلے گئے کیونکہ حضورؐ نے انکار فرما دیا تھا اور صرف انکار نہیں فرمایا، بلکہ سواری نہ دینے کی قسم اٹھا لی تھی۔ حضرت ابو موسیٰ نے گھر جا کر رپورٹ دی کہ یوں معاملہ ہوا، غلطی میری تھی لیکن یہ ہوگیا ہے کہ حضورؐ نے انکار فرما دیا ہے اور سواری نہ دینے کی قسم اٹھا لی ہے۔ آپ اپنے خاندان والوں کو ابھی یہ بات بتا ہی رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے ان کو آواز دی عبداللہ! حضرت ابو موسٰیؓ کا نام عبداللہ بن قیسؓ تھا کہ رسول اللہ تمہیں بلا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں واپس گیا تو اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں، حضورؐ نے فرمایا یہ لے جاؤ۔

حضرت ابو موسٰیؓ کہتے ہیں کہ دوسری غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں نے حضورؐ سے قسم کے بارے میں بات ہی نہیں کی، اونٹوں کی لگام پکڑی اور لے کر چلا گیا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ یہ میں نے کیا کیا۔ حضورؐ نے تو فرمایا تھا کہ تمہیں سواری نہیں دوں گا اور آپ نے قسم اٹھا لی تھی۔ اس قسم کے بارے میں حضورؐ سے کیوں نہیں پوچھا اور ایسے ہی سواریاں لے کر چل پڑا۔ حضورؐ سے پوچھ تو لینا تھا لہٰذا میں واپس حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا کہ تمہیں سواری نہیں دوں گا اور آپ نے قسم اٹھا لی تھی۔ آپ نے فرمایا ہاں قسم اٹھائی تھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ پھر آپ نے کیوں دے دیے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس اونٹ نہیں تھے۔ یہ میں نے قیس بن سعدؓ کے باڑے سے تمہارے لیے منگوائے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں نے قسم اٹھا لی تھی کہ تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا، لیکن میرا معمول یہ ہے کہ کوئی قسم اٹھا لوں اور پھر دیکھوں کہ قسم کسی خیر کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہے تو میں قسم توڑ دیتا ہوں، خیر کے کام کو نہیں چھوڑتا اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ جناب نبی کریمؐ نے امت کو حکم بھی یہی فرمایا ہے اور خود آپ کا معمول بھی یہی تھا۔ بہرحال حضرت ابو موسٰیؓ کے خاندان کو سواری کے لیے حضورؐ کے ہاں سے اونٹ مل گئے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جس کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی اس کی ضرورت بیت المال پوری کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کا یہ ماحول تھا۔

تیسرا واقعہ بھی بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ معروف صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عید الاضحیٰ سے دو تین دن پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیت المال سے بکریوں کا ایک ریوڑ دیا۔ چالیس پچاس بکریاں ہوں گی اور فرمایا کہ ابھی دو تین دن بعد قربانی والی عید آ رہی ہے، یہ بکریاں لوگوں میں تقسیم کر دو تاکہ لوگ ان کی قربانی کر لیں۔ حضرت عقبؓہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ بکریاں لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ ایک بکری کا بچہ بچ گیا۔ میں نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے بکریاں تقسیم کر دی ہیں اور میرے حصے میں یہ بکری کا بچہ بچا ہے جس کی عمر پوری نہیں ہے تو کیا میں اس کی قربانی کر لوں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ ہاں تم کر لو۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قربانی تو لوگوں پر واجب تھی مگر بکریاں بیت المال دے رہا ہے۔ حضورؐ نے ’’فالیَّ و علیَّ‘‘ کا یہ ماحول بنایا کہ جس کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی اس کی ضرورت بیت المال پوری کرے گا۔ حضورؐ نے ریاست کے شہریوں کی ذمہ داری اٹھائی اور ذمہ داری پوری کرنے کا ماحول بھی بنایا۔ یہی ماحول آگے چل کر بیت المال کا نظام بنا ہے اور وہی بیت المال کا ماحول آگے چل کر رفاہی ریاست کی صورت میں سامنے آیا۔

اس ویلفیئر اسٹیٹ کے دو تین واقعات بھی عرض کر دیتا ہوں:

ابو عبید قاسم بن سلام ؒ معروف محدث، فقیہ اور معاشیات کے ماہرین میں سے گزرے ہیں اور امام ابو یوسفؒ کے معاصرین میں سے ہیں۔ انہوں نے یہ واقعات اپنی تصنیف’’کتاب الاموال‘‘ میں نقل فرمائے ہیں۔ ان کی یہ معروف کتاب معیشت کے باب میں کلاسیکل کتابوں میں سے ہے۔ معیشت کے باب سے دلچسپی رکھنے والے طلباء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ عام طور پر سوال ہوتا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام کیا ہے؟ میں اس پر دو کتابوں کا حوالہ دیا کرتا ہوں، دونوں تیسری صدی کے بزرگوں کی تصنیفات ہیں۔ ایک امام ابو یوسفؒ کی” کتاب الخراج“ جو انہوں نے خلیفہ ہارون الرشیدؒ کے کہنے پر ملک کے معاشی قانون کے طور پر لکھی تھی اور ملک میں نافذ رہی۔ ہارون الرشید نے امام ابو یوسفؒ سے کہا تھا کہ معیشت کے ضوابط اور قوانین مقرر کر دیں کہ مالیات کہاں سے وصول کرنے ہیں، کیسے خرچ کرنے ہیں اور معاشیات کا پورا سسٹم کیا ہونا چاہیے؟ اس پر انہوں نے کتاب الخراج لکھی جو عباسی دور میں نافذ العمل رہی۔ اور دوسری کتاب امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘ ہے۔ میں معیشت کے ماہرین سے کہتا ہوں کہ یہ دو کتابیں پڑھ لو جو کہ اصل عربی میں ہیں۔ ان کا اردو اور انگلش ترجمہ بھی موجود ہے۔ معیشت کا کسی بھی سطح کا ماہر یہ دو کتابیں پڑھ لے اس کے بعد اگر معیشت کے باب میں اس کا کوئی سوال رہ گیا تو مجھ سے پوچھ لے، میں اسے بتاؤں گا کہ اس کا حل کہاں ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم نے پڑھنے کا کام چھوڑ دیا ہے۔ ہم جناب نبی کریمؐ کی سیرت بھی پڑھتے ہیں تو مستشرقین سے، ولیم میور سے اور واٹ اور منٹگمری سے پڑھتے ہیں، اصل سورسز سے نہیں پڑھتے۔ ہم اپنا دین بھی مستشرقین سے پڑھتے ہیں کہ فقہ حنفی کیا ہے اور فقہ مالکی کیا ہے؟

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ کے زمانے میں یمن کے گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ تھے۔ حضرت معاذؓ حضورؐ کے زمانے میں یمن کے گورنر رہے ہیں اور حضرت عمر ؓکے دور میں بھی یمن کے گورنر تھے۔ امام ابو عبید ؒنے کتاب الاموال میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے ایک سال اپنے صوبے سے زکوۃ، جزیہ، خراج اور عشر وغیرہ وصول کیا۔ جس طرح حکومت کے محکمے ریونیو لیتے ہیں، زمینداروں سے تحصیلدار وغیرہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور شہریوں سے انکم ٹیکس آفیسر جو تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ حضرت معاذؓ کو اپنے صوبے سے سال بھر کا جو ریونیو وصول ہوا۔ انہوں نے اس کا تیسرا حصہ مرکز کے کسی مطالبے کے بغیر مرکز کو بھیج دیا، حالانکہ صوبہ مرکز سے لیتا ہے، لیکن یہاں صوبہ ایک تہائی مرکز کے مطالبے کے بغیر مرکز کو بھیج رہا ہے۔ اس پر مرکز کو خوش ہونا چاہیے یا ناراض ہونا چاہیے؟ حضرت عمرؓ ناراض ہوئے اور حضرت معاذؓ کو خط لکھا۔ یہ خط بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ معاذ تم تو عالم آدمی ہو، تمہیں پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالیات کا یہ اصول بیان فرمایا ہے ’’توخذ من اغنیائھم و ترد الی فقرائھم‘‘ کہ زکوۃ اور صدقات جس علاقے کے مالداروں سے وصول کیے جائیں اسی علاقے کے مستحقین پر تقسیم کیے جائیں۔ تم نے یہ رقم مجھے کیوں بھیجی ہے، یہ تو یمن کے لوگوں کا حق ہے؟ اس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ اپنے صوبے کے پورے اخراجات کے بعد یہ فاضل بجٹ تھا جو بچ گیا اور میں نے آپ کو بھیج دیا۔ اس رقم کا میرے پاس کوئی مصرف نہیں اس لیے آپ کو بھیجی ہے۔ اگلے سال حضرت معاذؓ نے اپنے صوبے کا نصف ریونیو مرکز کو بھیج دیا اور ساتھ لکھا کہ یہ رقم بچ گئی ہے۔ اس سے اگلے سال دو تہائی مرکز کو بھیج دیا اور اس سے اگلے سال پورے کا پورا بجٹ مرکز کو بھیج دیا کہ اللہ کے قانون کی برکت سے اور آپ جیسے عادل حکمران کے عدل کی برکت سے آج میرے صوبے میں ایک بھی مستحق نہیں ہے جس پر خرچ کر سکوں۔ لہٰذا سارا بجٹ آپ کو بھیج رہا ہوں۔

میں یہ بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فالیَّ و علیَّ‘‘ کا جو ماحول بنایا تھا وہ بڑھتے بڑھتے کس مقام پر پہنچا ہے۔ دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ کے زمانے کا ہے جو کہ علامہ شبلی نعمانیؒ نے ’’الفاروق‘‘ میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کئی واقعات لکھے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓاپنے دورِ خلافت میں رات کو چکر لگا کر دیکھا کرتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے۔ ان کو بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ایسے ہی جاتے تھے۔ ایک رات چکر لگا رہے تھے، ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو اندر سے بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ آپ وہاں سے گزر گئے کہ بچہ ہے اٹھا ہوگا اور رو رہا ہوگا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ گزرے تب بھی بچہ رو رہا تھا۔ اب آپ کو پریشانی محسوس ہوئی کہ بچہ مسلسل ہو رہا ہے کوئی وجہ ہے۔ بہرحال گزر گئے۔ جب تیسری جگہ اس گھر کے پاس سے گزرے تو بچہ تب بھی رو رہا تھا۔ اب حضرت عمر وہاں کھڑے ہو گئے کہ یقینا کوئی مسئلہ ہے۔ اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک شخص باہر آیا ، آپ نے اس سے پوچھا کہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بچہ بھوکا ہے اور ماں اسے دودھ نہیں پلا رہی اس لیے بچہ رو رہا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ ماں بچے کو دودھ کیوں نہیں پلا رہی؟ اس نے جواب دیا کہ ماں اس لیے دودھ نہیں پلا رہی کہ وہ دودھ چھڑوانا چاہتی ہے تاکہ بچے کا وظیفہ لگ جائے۔

حضرت عمر ؓنے بیت المال سے بچوں کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا لیکن اس شرط پر کہ جب ماں کا دودھ چھوڑ کر بچے کو الگ خوراک کی ضرورت ہوگی تو چونکہ گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہوگیا ہے اور خرچہ بڑھ گیا ہے تو بچے کو وظیفہ دیا کرتے تھے۔ ہر بچے کو جوان ہونے تک وظیفہ ملا کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ماں اس لیے دودھ نہیں پلا رہی کہ بچہ دودھ چھوڑے گا تو اس کو وظیفہ ملے گا۔ ماں بچے سے دودھ چھڑوا کر دوسری چیزیں کھانے کی عادت ڈالنا چاہتی ہے تاکہ اس کا وظیفہ لگ جائے۔ حضرت عمر ؓنے اس سے کہا کہ ماں سے کہو دودھ پلائے، میں ہی عمر ہوں، بچے کا وظیفہ لگ جائے گا۔ جبکہ حضرت عمر ؓنے اپنے ساتھ والے ساتھی، جو غالباً حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ تھے، سے کہا اور یہ بات حضرت عمر ہی کہہ سکتے ہیں کہ عمرؓ نے کتنے معصوم بچوں کو رُلایا ہو گا۔ اے عمر! تیری اس شرط کی وجہ سے کتنے بچے روئے ہوں گے۔ اس کے بعد آپ نے مشورہ کیا اور قانون بدل دیا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ جاری ہو جائے گا۔

حضرت عمر ؓاس بنیاد پر بچوں کو وظیفہ دیتے کہ خاندان میں ایک فرد کا اضافہ ہوا ہے اور بجٹ میں اضافہ ہوا ہے تو اس بجٹ کا بوجھ بیت المال برداشت کرے گا۔ آج بھی دنیا کی بہت سی ریاستوں میں چائلڈ الاؤنس دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں جس زمانے میں میں جایا کرتا تھا تو ۹ پونڈ فی ہفتہ ہر بچے کو وظیفہ ملا کرتا تھا۔ اب بھی وہاں ملتا ہے، ناروے میں بھی ملتا ہے اور کئی دیگر مغربی ممالک میں بھی چائلڈ الاؤنس ملتا ہے۔ برطانیہ کے چائلڈ الاؤنس پر ایک واقعہ ذکر دیتا ہوں۔ وزیر آباد کے سابق ایم این اے جسٹس افتخار چیمہ نے ایک مجلس میں یہ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں ہم کیمبرج یونیورسٹی میں لاء کر رہے تھے تو وہاں ایک عمر رسیدہ انگریز تھا، لوگ اس سے ملنے آیا کرتے تھے۔ سیانے لوگوں سے ملتے رہنا چاہیے، کوئی کام کی بات مل جاتی ہے۔ افتخار چیمہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی شہرت سن رکھی تھی تو ہم تین چار پاکستانی ساتھی اس کے پاس گئے۔ اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو۔ ہم نے بتایا پاکستان سے۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا تو وہ ہماری بات سے بہت خوش ہوا۔ باتوں باتوں میں بچوں کو وظیفہ دینے کا ذکر چھڑ گیا۔ برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا پورا سسٹم ہے۔ اس انگریز نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا جو سسٹم ہے اور بچوں، بے روزگاروں اور معذوروں کو وظیفہ ملتا ہے۔ جب یہ قانون نافذ ہوا تھا تو یہ کس نے بنایا تھا؟ ہم نے کہا ہمیں تو معلوم نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ پارلیمنٹ کی جس کمیٹی نے یہ قانون بنایا تھا میں اس کا چیئرمین تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے یہ سارا سسٹم کہاں سے لیا تھا؟ میں نے یہ سب جنرل عمر ؓسے لیا تھا۔ مغرب والے حضرت عمرؓ کا نام لیتے ہیں تو ان کو جنرل عمر کہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے یہ سارا سسٹم حضرت عمرؓ سے لیا تھا۔ یہ ہے رفاہی ریاست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ویلفیئر اسٹیٹ کا جو ماحول دیا تھا وہ چلتے چلتے یہاں تک پہنچا تھا۔

ایک بات کا اور اضافہ کر دوں کہ ناروے میں اس وقت بھی جو سوشل بینیفٹ کا سسٹم ہے اسے کہتے ہی ”عمر لاء“ ہیں اور بچوں کو ملنے والے وظیفے کو عمر الاؤنس کہتے ہیں اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے یہ سب حضرت عمرؓ سے لیا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری باتیں دوسرے اپنا کر عمل کر رہے ہیں اور ہم آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم اس پر خوش ہیں کہ ہمارے بڑوں نے یہ کیا۔ بڑوں نے تو کیا تھا مگر ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟

کتاب الاموال ہی کی روایت ہے کہ عمر ثانی امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانے میں عراق کے گورنر عبد الحمیدؒ تھے۔ امیر المومنین کے نام ان کا خط آیا کہ ہمارے صوبے کا اس سال کا جو ریونیو وصول ہوا ہے، ضروریات پوری ہونے اور سال کا بجٹ پورا ہونے کے بعد فاضل بجٹ میں رقم بچ گئی ہے، اس کا کیا کرنا ہے؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جواب لکھا کہ صوبے میں اعلان کراؤ کہ کوئی ایسا مقروض جو اپنا قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کی تحقیق کر کے اس کا قرض ادا کر دو۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت! یہ کام میں کر چکا ہوں، رقم اس سے زائد ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ان کو دوبارہ خط لکھا کہ جن لوگوں کی بچیوں کی شادیاں نہیں ہوئیں اور وہ شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس انتظار میں ہیں کہ اخراجات ہوں گے تو ان کی شادیاں کریں گے تو ان کی شادیاں اس رقم سے کروا دو۔ گورنر صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ حضرت! میں یہ بھی کر چکا ہوں۔ حضرت عمر نے تیسرا خط لکھا کہ جن خاوندوں نے اپنی بیویوں کے مہر ادا نہیں کیے اور مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان کے مہر ادا کر دو۔

درمیان میں ضمناً یہ بات عرض کر دوں کہ ہمارا یہ بھی المیہ ہے کہ نکاح کے وقت تو بہت زیادہ مہر مقرر کر دیتے ہیں، لیکن بعد میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ مہر کا شرعی اصول یہ ہے کہ مہر ایسا ہونا چاہیے جو لڑکے پر بوجھ نہ ہو اور لڑکی کے لیے عار نہ ہو۔

اس پر چند سال پہلے کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں کہ گوجرانوالہ میں ایک شادی میں گیا تو جس کی شادی تھی وہ نوجوان دیہاڑی دار مزدور تھا اور مہر بہت زیادہ مقرر کر رہے تھے۔ میں نے اس کے باپ سے کہا کہ یہ کیا ظلم کر رہے ہو، یہ اتنا مہر کہاں سے ادا کرے گا؟ اس نے یہ جملہ بولا کہ مولوی صاحب! اللہ سے خیر مانگیں ہم نے کونسا مہر دینا ہے۔ یہ اکثر ذہنوں میں مغالطہ ہوتا ہے کہ مہر دینے کی نوبت تب آتی ہے جب کوئی جھگڑا ہو، طلاق کی نوبت آئے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی! مہر نکاح کا ہوتا ہے، طلاق کا نہیں ہوتا۔ جب نکاح ہوگیا تو مہر تو دینا ہی ہے۔ بلکہ فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی فوت ہو گیا اور اس نے مہر ادا نہیں کیا تو اس کے ترکے میں سے سب سے پہلے قرضے کے حساب میں بیوی کو مہر ادا کیا جائے گا، اور وراثت کا حصہ علیحدہ ملے گا کیونکہ مہر بھی عورت کا حق ہے۔

بہرحال حضرت عمر بن عبد العزیز نے گورنر صاحب کو خط لکھا کہ جن خاوندوں نے اپنی بیویوں کو مہر ادا نہیں کیے اور وہ مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو آپ اس رقم سے ان کے مہر ادا کر دیں۔ انہوں نے جواب لکھا کہ حضرت! یہ بھی کر چکا ہوں۔ اس پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے چوتھا خط لکھا کہ جو زمینیں قابل کاشت ہیں اور ویران پڑی ہوئی ہیں ان کی حدبندی کراؤ اور لوگوں کو زراعت کے لیے قرضہ کے طور پر دے دو۔ یہ ہے ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور۔

یہ بات میں نے کراچی میں ایک اجتماع میں بیان کی تو ایک نوجوان کھڑا ہوگیا کہ یہ صوبے کا بجٹ تھا یا اٹلانٹک سی (سمندر) تھا کہ صوبے کے خرچے بھی پورے ہو رہے ہیں ، تنخواہیں بھی پوری ہو رہی ہیں، مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہو رہے ہیں ، بے نکاحوں کی شادیاں بھی ہو رہی ہیں اور مہر بھی ادا ہو رہے ہیں؟ اس کا سوال یہ تھا کہ یہ صوبے کا بجٹ تھا یا کوئی سمندر تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ بیٹا تمہارا سوال ٹھیک ہے، لیکن ایک واقعہ اور سن لو تو اس سوال کا جواب بھی سمجھ میں آجائے گا۔

ایک دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خلافت کے فرائض سرانجام دینے کے بعد شام کو گھر تشریف لائے تو راستے میں ریڑھی پر انگور دیکھے، جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی۔ آپؒ کی اہلیہ محترمہ فاطمہ بنت عبد الملک رحمھا اللہ، بڑی اچھی خاتون تھیں، بادشاہ کی بیٹی تھی،بادشاہ کی بیوی تھی، بادشاہ کی بہن تھی۔ عبد الملک کی بیٹی، کمانڈر انچیف مسلمہؒ کی بہن ، اور ان کا بھائی ولیدؒ بھی بعد میں بادشاہ بنا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے گھر آکر اہلیہ سے کہا کہ فاطمہ! تمہارے پاس ایک آدھ درہم ہوگا؟ ضرورت پڑ گئی ہے۔ امیر المؤمنین، دمشق کا حکمران کہ آدھی دنیا اس کے تابع ہے اور بیوی سے پوچھ رہے ہیں کہ ایک آدھ درہم ہوگا؟ بیوی نے پوچھا کیوں؟ انہوں نے بتایا کہ راستے میں ریڑھی پر انگور دیکھے ہیں، کھانے کو جی چاہتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ ایک آدھ درہم گھر میں ہو تو انگور لے لیں۔ اہلیہ نے کہا آپ کی جیب میں نہیں ہے تو میرے پاس کہاں سے آئے گا؟ پھر اہلیہ نے بیویوں والی بات بھی کی کہ حضرت! امیر المومنین ہیں اور ایک صاع انگور خریدنے کے لیے آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں ؟ اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ انگور خرید سکیں۔ اس پر امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے تاریخی جواب دیا۔ فرمایا، فاطمہ! جس درہم کی تم بات کر رہی ہو، وہ درہم نہیں، آگ کا انگارہ ہے۔ آج کی اصطلاح میں اس کو ”صوابدیدی فنڈ“ کا نام دیا جاتا ہے، ہر حاکم کا صوابدیدی فنڈ ہوتا ہے، جہاں چاہے خرچ کرے۔

میں نے اس سوال کرنے والے نوجوان سے کہا بیٹا! جس ملک کا حکمران بیت المال کے درہم کو آگ کا انگارا سمجھے گا وہاں پیسے ہی پیسے ہوں گے۔ مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہوں گے، کنواروں کی شادیاں بھی ہوں گی، مہر بھی ادا ہوں گے اور کسانوں کو قرضے بھی ملیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے روپے کو آگ کا انگارا سمجھے۔

میں نے یہ بات بیان کی ہے کہ رفاہی ریاست کیا ہوتی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا ماحول دیا ہے؟ یہی ماحول حضرات خلفائے راشدین کے زمانے میں ویلفیئر اسٹیٹ کا معیار بنا، جسے آج تک دنیا فالو کر رہی ہے، اور ہم نے اسے چھوڑ رکھا ہے۔ پاکستان بنتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی، لیکن کیا ہمارے پاس وسائل کم ہیں، کیا پاکستان وسائل کے اعتبار سے غریب ملک ہے؟ نہیں! پاکستان اپنے وسائل کے اعتبار سے دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سے ہے۔ ہمیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر چیز عطا کی ہوئی ہے۔ صرف دو باتوں کی ضرورت ہے۔ حکمران سرکاری مال کو آگ کا انگارا سمجھیں، اور حکومت کو یہ فکر ہو کہ مقروضوں کے قرضے ادا کرنے ہیں، کنواروں کی شادیاں کرنی ہیں، خاوندوں کے مہر ادا کرنے ہیں، کسانوں کو قرضے دینے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ مزاج ہو جائے تو پاکستان کسی سے کم بھی نہیں ہے، صرف اس رخ پر واپس جانے کی ضرورت ہے۔

میں نے جناب نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ذکر کیا کہ آپ نے اعلان فرمایا تھا ’’من ترک مالاً فلورثتہ‘‘ کہ جو آدمی مال چھوڑ کر فوت ہوا، اس کے مال کو ہم ہاتھ نہیں لگائیں گے، مال وارثوں کا ہے۔ ’’ومن ترک کلاً او ضیاعاً فالیَّ وعلیَّ‘‘ جو آدمی بوجھ اور قرضہ چھوڑ کر مرا یا بے سہارا خاندان چھوڑ کر مرا وہ ہمارے ذمے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ ہم نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے اس ضرورت کی طرف متوجہ ہوں جو آج کی سب سے بڑی قومی ضرورت ہے۔ اور اپنی مشکلات اور مسائل کا حل امریکہ، برطانیہ اور چین سے مانگنے کے بجائے حضور نبی کریمؐ سے پوچھیں، حضرات خلفائے راشدینؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؓ سے پوچھیں۔ ان کے ہاں سے ہی اس کا حل ملے گا کیونکہ سب کچھ تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر اور جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ کے راستے پر آنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

میں ایک بار پھر قاضی عطاء المحسن صاحب کا شکرگزار ہوں۔ اس خاندان کا پرانا نیاز مند ہوں ، شیخ التفسیر حضرت مولانا قاضی نور محمدؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ، اور شیخ الحدیث قاضی عصمت اللہؒ میرے بزرگوں میں سے تھے، ہمیشہ ان کی شفقتیں حاصل رہی ہیں، اور میری نیاز مندی رہی ہے۔ جب مولانا قاضی عصمت اللہؒ نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو ان کے کارکنوں میں بطور ورکر ایک کارکن میں بھی تھا، جبکہ حضرت قاضی صاحبؒ کو سپورٹ کرنے والوں میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی تھے۔ الحمد للہ ہمارا خاندانی تعلق چلا آ رہا ہے اور ساٹھ سال سے میں اس کا کردار ہوں۔ ہم چونکہ شہر میں ہیں تو زیادہ واسطہ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ سے پڑتا تھا ، میں ان کے پاس جایا کرتا تھا، نصیحتیں سنتے تھے، دعائیں لیتے تھے اور ڈانٹ بھی کھاتے تھے۔ ہمارے خاندانی تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ جب حضرت قاضی صاحبؒ بیمار تھے تو والد صاحبؒ مجھے کہنے لگے قاضی صاحب کی بیمار پرسی کے لیے جانا ہے تم بھی ساتھ چلو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اتفاق میں میرا بیٹا عمار خان ناصر قرآن مجید حفظ کر چکا تھا ، مدرسے میں پڑھتا تھا، میں نے اسے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو ۔ ہم تینوں قاضی شمس الدین صاحبؒ کے پاس گئے، آپ اس وقت صاحبِ فراش تھے، بات چیت کر لیتے تھے، ہلنا جلنا مشکل تھا۔ میں نے سامنے جا کر کہا حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں۔ اس پر حضرت قاضی صاحب رونے لگ گئے۔ بہرحال ہمارے تعلق کی یہ نوعیت چلی آرہی ہے۔ دعا کریں یہ تعلق اسی طرح قائم رہے ۔ آج قاضی عطاء المحسن صاحب نے مجھے یاد کیا ، میں اپنے لیے سعادت سمجھتے ہوئے حاضر ہوا ہوں ، اللہ تعالیٰ حاضری قبول فرمائیں اور ہمیں اسی طرح مل کر دین اور ملک و ملت کی خدمت کرتے رہتے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter