پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدت

   
تاریخ : 
۲۶ جنوری ۲۰۲۳ء

گزشتہ روز ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف مکاتبِ فکر کے بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کے علاوہ ایک قومی فریضہ کی ادائیگی میں شریک ہونے کا موقع بھی مل گیا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کا اس پر اجماع چلا آ رہا ہے کہ پاکستان میں اس کے مقصدِ قیام کے مطابق شریعتِ اسلامیہ کا مکمل اور عملی نفاذ ناگزیر مِلّی تقاضہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی دستورِ پاکستان میں بھی صراحت موجود ہے، مگر اس کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی بجائے پُرامن سیاسی جدوجہد اور جمہوری عمل ہی واحد راستہ ہے جس پر اب تک مجموعی طور پر عمل ہو رہا ہے۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ تصور ابھرا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے بھی مسلح راستہ اختیار کرنا چاہیے مگر ملک کے جمہور علماء نے اسے قبول نہیں کیا اور اس عمل کو خروج اور بغاوت قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں سے دوٹوک طور پر کہا کہ نفاذِ شریعت کے لیے ان کا جذبہ، قربانی اور محنت قابلِ قدر ہے مگر مسلح جدوجہد کا طریق کار قطعی طور پر غلط اور غیر شرعی ہے، جس کا اظہار چند سال قبل ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ قومی دستاویز کی صورت میں کر دیا گیا۔ مگر اس کے بعد بھی مختلف اطراف سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات ابھی تک سامنے لائے جا رہے ہیں اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس ’’قومی موقف‘‘ کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے۔ چنانچہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے ۲۳ جنوری کو فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں اس کا اہتمام کیا جس کی کاروائی اور تفصیلات مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔ اس بروقت اقدام پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بالخصوص ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الحق شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔

کانفرنس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا خطاب اس اجتماع کا حاصل اور علماء پاکستان کے دوٹوک موقف کا اظہار تھا، جبکہ اس کے ساتھ مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا مفتی عبد الرحیم، مولانا پروفیسر ساجد میر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی کے خطابات اس مسئلہ پر امت کی وحدت او رہم آہنگی کی واضح علامت تھے۔ راقم الحروف نے بھی چند گزارشات پیش کیں اور آج کے اہم ترین قومی و مِلی تقاضے کی بروقت تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر اس موقف کے بارے میں تحفظات و اشکالات کا اظہار کرنے والے دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ موقف آج کا نہیں بلکہ یہ ہمارے ماضی اور دینی جدوجہد کے تسلسل کا ایک اہم باب ہے جس کے لیے اس تاریخی حقیقت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلم حکمرانوں سے مختلف ادوار میں علماء امت کو شکایات رہی ہیں جن کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے، احتجاج و اضطراب کی مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور مسلم حکمرانوں کو اپنے غلط فیصلوں اور طرزِ عمل سے رجوع بھی کرنا پڑا ہے، مگر ہمارے اسلاف و اکابر نے یہ سارے کام ہتھیار اٹھائے بغیر کیے ہیں اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے منکرات و فواحش کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اکبر بادشاہ کے نام نہاد دینِ الٰہی اور شریعت میں اس کی تحریفات سے بڑے ’’منکر‘‘ کا سامنا شاید کسی اور دور میں امت کو نہ کرنا پڑا ہو، اس کا مقابلہ علماء امت نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں پوری جرات کے ساتھ کیا اور مغل بادشاہت کو بالآخر اس نام نہاد ’’دینِ الٰہی‘‘ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس دور میں شریعت کی عملداری کو وقت کی سب سے بڑی دینی ضرورت قرار دیا اور اسے سب سے بڑی عبادت بتایا مگر ہتھیار اٹھائے بغیر اس مہم کو سر کیا اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔

ہمارے اکابر نے جہاد اور بغاوت کا فتوٰی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد غیر ملکی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دیا تھا جیسا کہ افغانستان میں روسی فوجوں کے تسلط اور پھر امریکی فوجوں کی یلغار کے موقع پر علماء افغانستان نے جہاد کا فتوٰی دیا اور مسلح جنگ لڑی جو بلاشبہ جہاد تھی۔ پاکستان کے علماء کرام نے بھی اس کی تائید کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح ہزاروں پاکستانیوں نے عملاً اس جہاد میں شریک ہو کر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ میں نے خود اس جہاد میں مختلف حوالوں سے شرکت کی ہے اور جہادی مراکز کے علاوہ مورچوں میں بھی وقت گزارا ہے جسے اپنے لیے باعثِ نجات سمجھتا ہوں، مگر غیرملکی قوتوں کے خلاف جہاد پر کسی مسلم ریاست کے اندر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت رہی ہے۔

اس لیے تمام متعلقہ دوستوں سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے موقف اور طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’علماء پاکستان‘‘ کے اس اجماع و اتفاق کا احترام کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو دستورِ پاکستان کے دائرے میں لے آئیں، یہی آج کے دور کا شرعی اور دینی تقاضہ ہے جو پاکستان کے تمام اہلِ دین کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت، سلامتی، استحکام، اسلامی تشخص، اور شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و ترویج کے لیے صحیح رخ پر محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter