مذاہب کا تسلسل اور ختمِ نبوت: ایک قادیانی اعتراض کا جواب

   
حوالہ: 
تاریخ: 
۱۵ اپریل ۲۰۱۶ء

میسج ٹی وی کے ایک آن لائن پروگرام میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ چند سال پہلے کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ میں ایک ختم نبوت کانفرنس کے دوران میں نے قادیانیت کے حوالے سے ایک پہلو پر گفتگو کی گئی تھی جو الحمد للہ پسند کی گئی اور دنیا بھر میں اسے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا اور سنا گیا۔ اس پر قادیانی حضرات کی طرف سے ایک اعتراض سامنے آیا ہے اور وہ بھی دنیا بھر میں پھیلایا گیا ہے۔ میں آج اس حوالے سے تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہوں گا۔

میں نے یہ گزارش کی تھی کہ قدرت کا قانون یہ ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا تسلسل یہ بتاتا ہے کہ نئے نبی کے آنے سے مذہب بدل جاتا ہے۔چونکہ نبی وہ واحد شخصیت ہوتی ہے جس کی بات کسی دلیل کے بغیر ماننا ضروری ہوتی ہے، نبی جو کہتا ہے وہ دلیل ہوتی ہے، نبی مطلقاً مطاع ہوتا ہے ، تو نبی کے بدلنے سے اطاعت کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ بات علامہ محمد اقبالؒ نے کہی تھی ، تو میں نے ان کی اس بات کو بنیاد بنایا تھا کہ قادیانی چونکہ نئی نبوت کی بات کرتے ہیں تو ان کا مذہب ہمارے مذہب سے الگ ہے، وہ اپنے مذہب کا نیا نام رکھیں۔ جس طرح یہودیت سے عیسائیت الگ ہوئی، نئے نبی، نئی وحی اور نئی کتاب کی بنیاد پر۔ اور جس طرح عیسائیت سے ہم مسلمان الگ ہیں، نئے نبی، نئی وحی اور نئی کتاب کی بنیاد پر۔ ہم حضرت موسٰی علیہ السلام اور توراۃ کو مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو بھی مانتے ہیں، لیکن چونکہ ہم ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن کریم پر بھی ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہمارا مذہب ان سے الگ ہے، جیسے کہ عیسائیوں کا یہودیوں سے الگ ہے۔ یہ میں نے بنیادی بات کی تھی، غلط یا صحیح اپنے مقام پر لیکن مذہب بہرحال تبدیل ہو جاتا ہے کہ اطاعت کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے۔

اس پر قادیانی حضرات کی طرف سے یہ اعتراض و استدلال کچھ عرصہ پہلے سامنے آیا ہے اور دنیا بھر میں اس کو دوہرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب حضرت موسٰی علیہ السلام کی بات کر کے سیدھا حضرت عیسٰی علیہ السلام پر چلے گئے ہیں، یہ درمیان میں جو انبیاء کرامؑ آئے تھے ان کے آنے سے تو مذہب نہیں بدلا تھا، ان کا ذکر مولوی صاحب نے کیوں نہیں کیا؟ بادی النظر میں یہ اعتراض سمجھ میں آتا ہے۔ اصل میں یہ اعتراض اس لیے پیدا ہوا کہ میری گفتگو میں کچھ اجمال رہ گیا تھا، میں نے پوری وضاحت نہیں کی تھی، میں معترضین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے یہ سوال پیدا کر کے مجھے اپنی گفتگو کا اجمال دور کرنے کا موقع دیا ہے۔

حضرت موسٰیؑ کے بعد حضرت عیسٰیؑ تک درمیان میں سینکڑوں نہیں، بعض روایات کے مطابق ہزاروں پیغمبر آئے ہیں، ان کے آنے سے مذہب نہیں بدلا، مذہب بدلا حضرت عیسٰیؑ کے آنے پر آخری مرحلے میں۔ اس کی دو وجوہات ہیں:

  1. ایک تو یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت عیسٰیؑ تک نبیوں کا آنا جاری تھا اور ختمِ نبوت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ حضرت عیسٰیؑ کو بھی خاتم الانبیاء کہا جاتا ہے لیکن بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر۔ چونکہ اس سے پہلے بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا اور ختم نبوت کا عقیدہ نہیں تھا اس لیے انبیاء کرامؑ کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
  2. دوسری وجہ یہ بنی کہ حضرت موسٰیؑ سے شروع ہو کر حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰیؑ تک جس نبی نے بھی اس دائرے میں نبوت کی بات کی اسے تسلیم کیا گیا، لیکن جب حضرت عیسٰیؑ نے نبوت کا دعوٰی کیا تو بنی اسرائیل کے یہود نے ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس انکار کی بنیاد پر دونوں کے مذہب الگ ہو گئے۔ حضرت عیسٰیؑ کا انکار کرنے والے پہلے مذہب کے ماننے والے رہے، اور انہیں تسلیم کرنے والے نئے مذہب کے پیروکار بن گئے۔

    ہمارے ہاں ایک تو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر یہ اعلان فرما دیا تھا کہ میں آخری نبی ہوں ’’لا رسالۃ بعدی ولا نبوۃ‘‘ میرے بعد نہ کسی کو رسالت ملے گی اور نہ نبوت ملے گی۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ بنی اسرائیل کی طرز والی نبوت جسے قادیانی حضرات ’’امتی نبی‘‘ کہہ کر اپنا دعوٰی منوانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ صورت حضورؐ کے زمانے میں پیدا ہوئی تو آپؐ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات اٹھا کر دیکھ لیں، وہ حضورؐ کے مقابلے پر مستقل نبوت کا نہیں بلکہ امتی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ جناب نبی کریمؐ کا کلمہ خود بھی پڑھتا تھا اور لوگوں سے بھی پڑھواتا تھا، یہ اقرار کروا کے پھر اپنی بات کرتا تھا وہ رسول ہیں اور میں بھی رسول ہوں۔ یہی امتی نبی کا تصور ہے۔ وہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ اور پھر ’’لا الہ الا اللہ مسیلمۃ رسول اللہ‘‘ پڑھواتا تھا۔ نبی اکرمؐ کو رسول ماننے کے بعد امتی اور تابع نبی کے طور پر اپنی بات کرتا تھا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ ان کی اذان بھی یہی تھی۔ختم نبوت کے پہلے شہید حبیب بن زیدؓ جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوئے، اسی وجہ پر قتل ہوئے۔ اس نے پہلے حبیب بن زیدؓ سے پوچھا ’’اتشھد ان محمدًا رسول اللہ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اشہد ان محمدًا رسول اللہ‘‘۔ پھر پوچھا کہ ’’اتشھد انی رسول اللہ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جو دو نمائندے مسیلمہ کذاب کا خط لے کر جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، رسول اللہ نے ان سے بھی اسی ترتیب سے پوچھا ’’اتشھدان انی رسول اللہ؟‘‘ کیا تم مجھے خدا کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ’’نشھد‘‘ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر پوچھا ’’اتشھدان ان مسیلمۃ رسول اللہ؟‘‘ کیا تم یہ بھی گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ انہوں نے کہا ہم اس کی بھی گواہی دیتے ہیں۔

مسیلمہ کذاب کا دعوٰی جناب نبی کریمؐ کے امتی نبی ہونے کا دعوٰی تھا۔ اس پر اس کا جو خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہے، بخاری شریف میں موجود ہے، اس کا عنوان بھی یہی ہے ’’من مسیلمۃ رسول اللہ الیٰ محمد رسول اللہ‘‘ کہ مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ اور آگے جو پیشکش کی ہے یہ زیادہ توجہ طلب بات ہے۔ اس نے جناب نبی کریمؐ کو صلح کی پیشکش کی کہ مجھے کسی درجہ میں تسلیم کر لیا جائے تو میرے پاس فارمولا ہے۔ آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد کر دیں، اور اگر یہ بات آپ کو منظور نہیں ہے تو پھر تقسیم کر لیں ’’لنا وبر ولک مدر‘‘ شہروں کے نبی آپ اور دیہات کا نبی میں۔ یہ کھلے شواہد ہیں کہ مسیلمہ کذاب امتی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ امتی نبی ہونے کا تصور بنی اسرائیل میں تھا، لیکن ہمارے ہاں امتی نبی ہونے کے تصور کی حضورؐ نے مسیلمہ کذاب کو رد کرتے ہوئے صراحتًا نفی فرما دی کہ نہ کوئی امتی نبی اور نہ غیر امتی۔

مسیلمہ کذاب خود مدینہ منورہ آیا، جناب نبی کریمؐ کے ساتھ دوبدو گفتگو کی۔ بخاری شریف کی روایت میں وہ مکالمہ موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشکش کے جواب میں دو باتیں فرمائیں۔ ایک بات تو اصولی تھی، قرآن کریم کی آیت پڑھی ’’ان الارض للہ یورثھا من یشآء من عبادہ‘‘ کہ زمین اللہ کی ہے، خلیفہ کسے بنانا ہے، شہر کسے دینے ہیں، دیہات کسے دینے ہیں، وہ اللہ کا کام ہے میرا کام نہیں ہے۔ اور دوسرا جواب عملی تھا، مسیلمہ سے اس ملاقات میں حضورؐ نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی، فرمایا تم مجھ سے خلافت اور زمین کی تقسیم کی بات کرتے ہو، مجھ سے اگر یہ لکڑی مانگو گے، میں دینے کا روادار نہیں ہوں۔

میں نے گزارش کی ہے کہ ختم نبوت کا تصور بنی اسرائیل میں نہیں تھا لیکن ہمارے ہاں ہے، امتی نبی ہونے کا تصور بنی اسرائیل میں تھا لیکن ہماری امت میں نہیں ہے۔ یہ دو باتیں بالکل واضح طور پر ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہئیں۔ دونوں باتوں کی نفی کرنے والے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہیں، اپنے قول کے ساتھ بھی اور اپنے عمل کے ساتھ بھی۔ بنی اسرائیل میں حضرت عیسٰیؑ سے پہلے جب انکار نہیں کیا گیا کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ نہیں تھا تو مذہب ایک ہی رہا۔ لیکن جب حضرت عیسٰیؑ کا انکار کر دیا گیا تو انکار کرنے والوں کا مذہب اور ہو گیا اور اقرار کرنے والوں کا مذہب اور ہو گیا۔ یہ تقسیم کی بنیاد تھی۔

ہمارے ہاں تو شروع سے یہ معاملہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضورؐ کے بعد چودہ سو سال تک جس شخص نے بھی نبوت کا دعوٰی کیا ہے، خواہ کسی حیثیت سے کیا ہے، امت نے اسے قبول نہیں کیا۔ بنی اسرائیل قبول کرتے رہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ نہیں تھا۔ ہمارے ہاں امت نے مسیلمہ کذاب سے لے کر مرزا غلام احمد تک کسی کو قبول نہیں کیا کہ ہمارے ہاں ختم نبوت کا عقیدہ ہے۔ جب مرزا غلام احمد کا انکار کر دیا گیا، پوری امت نے انکار کر دیا، امت کے اندر کوئی حلقہ ایسا نہیں ہے جو قادیانیوں کے دعوے کو تسلیم کرتا ہو اور امتی نبی کے تصور کو تسلیم کرتا ہو، تو صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر اُن کا مذہب ہم سے الگ ہو گیا۔ انکار کرنے والوں کا مذہب اسلام رہا، اور ماننے والوں کا مذہب نیا ہے۔

قادیانیوں سے ہمارا یہی سوال ہے کہ جب مذہب نیا ہے تو اس کا عنوان، اس کی اصطلاحات، اس کے شعائر، یہ مسلمانوں والے کیوں ہیں؟ اصل جھگڑا قادیانیوں سے یہ ہے کہ مذہب ہم سے الگ ہے تو علامات و شعائر ہمارے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ کلمہ طیبہ، کعبہ، بیت اللہ، امیر المومنین، ام المومنین ، مسجد، مینار، یہ ہماری مسلّمہ علامتیں ہیں۔ ہمارا جھگڑا یہ ہے ہماری شناخت استعمال نہ کریں۔ میں اس کی یہ مثال ایک بار پھر دہراؤں گا کہ پہلی کمپنی سے الگ ہو کر نئی کمپنی بنتی ہے ، غلط صحیح سے قطع نظر، لیکن نئی کمپنی نیا نام، نیا ٹریڈمارک، نیا مونوگرام اور نئی علامات اختیار کرے گی۔ اگر پہلی کمپنی سے جدا ہو کر نئی بننے والی کمپنی نام، مونو اور ٹریڈمارک پہلی کمپنی کا استعمال کرے گی تو یہ عمل فراڈ اور دھوکہ کہلاتا ہے۔ اسی دھوکے کو واضح کرنے کے لیے ہم دنیا کے سامنے یہ موقف واضح کرتے رہتے ہیں۔

یہ اعتراض قادیانیوں کی طرف سے آیا تھا تو میں نے ضروری سمجھا کہ اس کا جواب دے دیا جائے، چنانچہ آج میں نے اپنی گفتگو سے قادیانیوں کے اس مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کو ہدایت دے، میں ان کے لیے ہدایت کا دعاگو رہتا ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں قادیانی حضرات کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار آدمیوں نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا۔ مسیلمہ، اسود عنسی، طلیحہ، اورسجاح نے۔

  1. اسود عنسی حضورؐ کے زمانے میں مقابلے پر آیا اور قتل ہو گیا۔
  2. مسیلمہ حضورؐ کے زمانے میں مقابلے پر نہیں آیا، بعد میں آیا اور قتل ہو ا۔
  3. طلیحہ نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا، مسلمانوں سے دو جنگیں لڑی تھیں اور حضرت عکاشہؓ جیسے صحابی کو شہید کیا تھا۔ جبکہ بعد میں طلیحہ نے توبہ کر کے اسلام قبول کیا اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں قادسیہ کی جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ محدثین کرام ان کا شمار صحابہ میں کرتے ہیں، حضرت طلیحہ بن خویلد اسدیؓ۔
  4. سجاح نے بھی توبہ کر لی تھی۔ وہ نبوت کی دعویدار تھی، فوجیں لے کر مقابلے پر آئی تھی لیکن شکست کے بعد روپوش ہو گئی تھی۔ پھر حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں آئی ، توبہ کی، اسلام قبول کیا ، حضرت معاویہؓ کے حکم پر کوفہ میں آباد ہوئی، وہیں ایک عابدہ زاہدہ خاتون کے طور پر رہی۔ جب فوت ہوئی تو حضرت سمرہ بن جندبؓ کوفہ کے گورنر تھے انہوں نے جنازہ پڑھایا اور تدفین کی، اس طرح سجاحؒ ہماری صالحہ خواتین میں شمار ہوتی ہے۔

میں قادیانیوں سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ کیا مسیلمہ اور اسود کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے؟ طلیحہ اور سجاح کا نقش قدم بھی سامنے ہے۔ میں پھر دعوت دوں گا کہ تھوڑا سا زاویہ نگاہ بدلیں، طلیحہؓ اور سجاحؒ پر بھی غور کر لیں، واپسی کا راستہ کھلا ہے،واپس آئیں، آپ ہمارے بھائی ہوں گے، ہم سینے سے لگائیں گے۔ مغالطے سے نکلیں، امت پر زبردستی مسلط ہونے کی بجائے امت کا حصہ بنیں، ہم آپ کو قبول کریں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter