مروجہ جمہوریت اور اسلام

   
تاریخ : 
مئی ۱۹۹۰ء

سوال: عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے جمہوری نظام پیش کیا۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ اور کیا موجودہ جمہوریت اسلام کے مطابق ہے؟ (محمد الیاس، گوجرانوالہ)۔

جواب: جمہوری نظام سے مراد اگر تو یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہونا چاہیئے تو یہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمران کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ

’’تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو، اور برے حکمران وہ ہیں جو تم سے بغض رکھیں اور تم ان سے بغض رکھو، وہ تم پر لعنت بھیجیں اور تم ان پر لعنت بھیجو۔‘‘

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ ضروری ہے اور اس عوامی اعتماد کے اظہار کی جو صورت بھی حالات کے مطابق اختیار کر لی جائے اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن جمہوریت کا جو تصور آج کل معروف ہے اور جس میں عوام کے نمائندوں کو ہر قسم کے کُلّی اختیارات کا حامل سمجھا جاتا ہے، یہ اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ۱۴ مارچ ۱۹۲۶ء کو کلکتہ میں جمعیۃ العلماء ہند کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں اسلام اور مروجہ جمہوریت کے درمیان اصولی فرق کو ان الفاظ کے ساتھ واضح کیا ہے:

’’موجودہ جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں کچھ فرق بھی ہے۔ موجودہ جمہوریت کے لیے شریعتِ الٰہی سے واقفیت ضروری نہیں۔ اسلامی جمہوریت کی صدارت کے لیے دوسرے شرائط کے ساتھ شریعتِ الٰہی سے واقفیت ضروری ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ راویوں کی اکثریت اور قلت غلطی اور صواب کا معیار نہیں ہے، بلکہ کتاب و سنت سے قریب ہونا یا نہ ہونا صحت اور خطا کی پہچان ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہمارے ارکانِ سلطنت جس طرح رومن لاء اور یورپین قوانین سے واقف ہیں وہ اسلامی قوانین سے بھی آگاہ ہوں، بلکہ وہ جس طرح قوانینِ یورپ کے ماہر ہیں اگر وہ اسلامی قانون اور اس کے مآخذ سے بھی آگاہ ہوں تو وہ خود علماء ہیں۔ ان کو تنگ خیال ’’ملاؤں‘‘ کی بھی شکایت نہیں رہے گی اور ان کو مذہب یا تمدن کی کشمکش سے نجات مل جائے گی۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter