بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ میں نے انسان کو پیدا کیا ہے، بہت سی صلاحیتیں دی ہیں، اور دونوں گھاٹیوں میں جدھر بھی جانا چاہے، جانے کا اختیار دیا ہے۔ ’’الم نجعل لہ عینین‘‘ کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟ ’’ولسانا‘‘ زبان دی ہے، ’’شفتین‘‘ ہونٹ دیے ہیں گفتگو کے لیے، ’’وھدیناہ النجدین‘‘ دو گھاٹیاں ہیں، ہم نے دونوں دکھا دی ہیں۔ اِدھر جاؤ تمہاری مرضی، اُدھر جاؤ تمہاری مرضی۔ اِدھر جاؤ گے تو آخر میں جنت ہو گی، اُدھر جاؤ گے تو آخر میں جہنم ہو گی۔ پھر صرف یہ دکھائی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ انسان کو یہ اختیار ملا ہے اور یہ صلاحیت ملی ہے کہ نیکی کے راستے پر چلنا چاہے تو چل سکتا ہے، اور گناہ کے راستے پر چلنا چاہے تو چل سکتا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر آدمی کے ساتھ پیدا ہوتے ہی ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے مستقل موت تک، اور ایک شیطان مقرر ہوتا ہے مستقل موت تک۔ جس کو قرآن پاک نے قرین کہا ہے ’’قال قرینہ‘‘ جو مستقل ساتھی ہے۔ دو قرین ہوتے ہیں انسان کے ساتھ اور ہمارے عملیات والے اس کو ہمزاد کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی روایت ہے، فرشتے کی ڈیوٹی تب لگتی ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اور عورت اکٹھے ہوتے ہیں اور عورت کے رحم میں نطفہ قرار پاتا ہے تو وہ تین مراحل سے گزرتا ہے، چالیس دن تک وہ نطفہ رہتا ہے، پھر چالیس دن تک لوتھڑا رہتا ہے، پھر چالیس دن تک بوٹی کی کیفیت میں رہتا ہے۔ پھر اس کی تخلیق ہوتی ہے۔ تین چلّوں یعنی چار مہینوں کے بعد اس کو شکل دی جاتی ہے اور اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے ’’خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاما فکسونا العظام لحما‘‘ (المؤمنون ۱۴)
جب روح پھونکی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے کی ڈیوٹی اس وقت سے لگ جاتی ہے۔ روح کا تعلق قائم ہونے سے پہلے یعنی کنکشن ملنے سے پہلے ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے کہ اس کے مرنے تک تم اس کے ساتھ رہو گے۔ ’’ان احدکم یجمع خلقہ فی بطن امہ اربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذٰلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذٰلک، ثم یرسل الیہ الملک فینفخ فیہ الروح، ویؤمر باربع کلمات: بکتب رزقہ، واجلہ، وعملہ، وشقی او سعید‘‘۔
وہ فرشتہ کیا کرتا ہے؟ وہ اللہ سے پوچھتا ہے ’’ما عمرہ؟‘‘ یا اللہ! یہ کتنی دیر کے لیے جا رہا ہے؟ ساٹھ سال، ستر سال، پچھتر سال، اس کی عمر کتنی ہو گی؟ اللہ پاک بتا دیتے ہیں۔ یہ پینتیس سال رہے گا یا پچھتر سال رہے گا، یہ طے ہو جائے گا۔ ’’ما شغلہ؟‘‘ یہ کیا کرے گا؟ اس کی مصروفیات کیا ہوں گی، مشغلہ کیا ہو گا۔ اللہ پاک بتا دیں گے کہ یہ کام کرے گا، دکان کرے گا یا ملازمت کرے گا یا کھیتی باڑی کرے گا یا انجینئر ہو گا۔ ’’ما رزقہ؟‘‘ اس کو رزق کتنا ملے گا؟ اس کا کوٹہ کتنا ہے، اللہ پاک منظوری دیں گے کہ اتنا ہو گا۔ ’’اشقی ام سعید؟‘‘ یہ کس کیٹیگری میں ہو گا؟ اِدھر ہو گا یا اُدھر ہو گا؟
یہ چار سوال فرشتہ کرتا ہے روح ڈالنے سے پہلے۔ اس کی عمر کتنی ہے؟ اس کا پروفیشن کیا ہو گا؟ اس کا رزق کتنا ہے؟ اور کس کیٹیگری میں ہو گا؟ اللہ پاک بتاتے ہیں اور فرشتہ اس کی فائل بناتا ہے اور وہ سیل ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اور اس فرشتے کے سوا کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ یہ ٹاپ سیکرٹ فائل ہے جس کو آج کی سائنس جین کہتی ہے۔ سائنس چودہ سو سال کی محنت کے بعد اس تک پہنچی ہے، ہمارے سائنسدان کہتے ہیں کہ ہر انسان کی کوئی جین ہے لیکن اس کا کوڈ ہم سے نہیں کھل رہا، جس دن ہم جین کا کوڈ کھول سکے اور اندر فائل میں کیا ہے وہ پڑھ سکے تو ہم بتا دیں گے کہ عمر کتنی ہے، بیمار کب ہونا ہے، وغیرہ۔ لیکن وہ کوڈ نہیں کھلے گا۔
میں نے یہ اس لیے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو فرشتے کی فائل بتایا ہے، آج کی سائنس اسے جین کہتی ہے، جو ٹاپ سیکرٹ ہے، اللہ کو معلوم ہے اور اس فرشتے کو معلوم ہے جس نے ساتھ رہنا ہے، لیکن اس کی پابندی یہ ہے کہ اس نے اس کو لیک نہیں کرنا۔ اس فائل کو کوئی ہیک نہیں کر سکتا، لیک بھی نہیں ہو گی، کسی کو پتہ نہیں ہے لیکن موجود ہے اور طے شدہ ہے۔ اس فرشتے کی ڈیوٹی تو وہی ہے کہ ماں کے پیٹ میں بھی جب بچہ حرکت کرنا شروع کرتا ہے تو فرشتہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔
شیطان کی ڈیوٹی پیدا ہونے کے بعد لگتی ہے، یہ بھی بخاری کی روایت ہے، حضورؐ نے فرمایا، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان کا نمائندہ جو (بڑے) شیطان کی طرف سے مقرر ہوتا ہے، وہ اسے مَس کرتا ہے، چھوتا ہے تو وہ چیختا ہے۔ یہ جو روتا ہے تو کنکشن لگنے سے روتا ہے۔ شیطان کی ڈیوٹی ادھر سے لگ جاتی ہے، یہ بھی موت تک رہتا ہے۔ ’’قال قرینہ ھذا ما لدی عتید‘‘، ’’قال قرینہ ربنا ما اطغیتہ‘‘ دونوں کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ یہ ایک سسٹم ہے، یہ اس کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے، وہ اس کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے کہ صرف دو شخصیتیں شیطان کے مَس سے بچی ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ محترمہ نے جب نذر مانی تھی کہ یا اللہ! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ آپ کے لیے وقف کر دوں گی تو کہا تھا ’’انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم‘‘ (اٰل عمران ۳۶) یا اللہ! یہ جو بچہ پیدا ہو گا اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان سے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام اس مَس سے بچے ہیں، باقی ہر انسان کو شیطان نے مَس کیا ہے۔ مریم علیہا السلام کی اولاد ابھی تک تو ایک ہی ہے جو عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ وہ جب تشریف لائیں گے تو شادی ہو گی اور اولاد ہو گی، لیکن ابھی تک بس ماں بیٹا ہی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ بھی ہے؟ فرمایا، میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ پاک نے مجھے اس پر کنٹرول دے دیا ہے۔
یہ دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں، قیامت کے دن دونوں رپورٹ پیش کریں گے، یہ قرآن پاک میں ہے ’’قال قرینہ ھذا ما لدی عتید‘‘ (ق ۲۳) فرشتہ یہ کہے گا، یا اللہ! یہ اس کا سارا ریکارڈ ہے، وہ سامنے رکھ دے گا۔ اور شیطان کہے گا ’’قال قرینہ ربنا ما اطغیتہ ولکن کان فی ضلال بعید‘‘ (ق ۲۷) یا اللہ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا، یہ گمراہ خود ہوا ہے، میں نے صرف اس کو راستہ بتایا تھا، یہ اپنی مرضی سے اس پر چلا ہے، اس میں میرا قصور کوئی نہیں ہے، وہ اپنی براءت کا اظہار کرے گا۔
ہر انسان کے ساتھ یہ سلسلہ موجود ہے، لیکن میں کہنا کیا چاہ رہا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی ہے کہ وہ اعمال کرو جو اِس کو سپورٹ کریں، اُس کو سپورٹ نہ کریں۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ فرشتے کے قریب رہے یا شیطان کے قریب رہے۔
اللہ کا ذکر زیادہ کرے گا تو فرشتے کے قریب رہے گا۔ نماز کی پابندی زیادہ کرے گا تو فرشتے کے قریب رہے گا۔ خیر کے اعمال کرے گا تو فرشتے کا ساتھ ہو گا اور وہ دخیل ہو گا معاملات میں۔ اور اگر غلط کام کثرت سے کرے گا تو اُدھر ہو گا۔ اختیار انسان کے پاس ہے، اس کے پاس دونوں آپشن موجود ہیں۔ اس کی مرضی ہے، کلمہ پڑھے، نیک اعمال کرے، خیر کے کام کرے، نیکی کے کام کرے، اِس کیمپ میں رہے۔ اور اس کی مرضی ہے کفر کے، نا فرمانی کرے، بدمعاشی کرے، اُس کیمپ میں رہے۔ دونوں سپورٹ کریں گے۔
اللہ پاک نے فرمایا کہ ہدایت اس کو ملتی ہے جو خود ہدایت چاہتا ہے ’’یہدی الیہ من ینیب‘‘(الشوریٰ ۱۳)۔ اب ہمارے کرنے کا کام کیا ہے؟
ہم جتنا زیادہ اللہ کے قریب ہوں گے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوں گے، جتنا اللہ کا ذکر زیادہ کریں گے، جتنا قرآن پاک کی تلاوت زیادہ کریں گے، جتنا نماز کی پابندی کریں گے، خیر کے اعمال کریں گے، اس کے ساتھ جوڑ زیادہ ہو گا اور وہ ہمیں سپورٹ کرے گا۔ اور جتنا اپنی خواہشات پر چلیں گے، گناہوں کے اعمال زیادہ کریں گے تو ہمارا کیمپ وہ ہو گا۔ دونوں میں سے جس کا داؤ چلا اس نے استعمال کرنا ہے۔ اِس کا داؤ چلے گا یہ استعمال کرے گا، اُس کا داؤ چلے گا وہ استعمال کرے گا۔ اور یہ قرآن اور حدیث میں ہے۔
ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ خیر کے اعمال، فرائض کی پابندی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اللہ کا ذکر، قرآن پاک کی تلاوت، درود شریف، اور سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی تلقین فرمائی وہ ہے استغفار۔ استغفار سے اور لاحول سے شیطان بھاگتا ہے۔ شیطان کو دور رکھنے کا سب سے مؤثر وِرد کیا ہے؟ استغفار اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ جتنا زیادہ استغفار کریں گے، شیطان سے دور رہیں گے۔ جتنا زیادہ درود شریف پڑھیں گے، فرشتے کے قریب رہیں گے۔ جتنی زیادہ نمازیں پڑھیں گے اور حلال حرام کا فرق کریں گے، فرشتے کے قریب رہیں گے۔ اللہ پاک ہمیں خیر کے اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور مرتے دم تک اسی کیمپ میں رکھے (آمین)۔