امت کی فکری رہنمائی کے تقاضے

   
مسجد خدیجۃ الکبریٰ، ڈی ایچ اے، کراچی
۴ نومبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ ہمیں آج کی ملاقات کا موقع بخشا، نماز اکٹھے ادا کی ہے، اور کچھ باتیں دین کی کہنے سننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے، یہ اللہ کا فضل ہے، اللہ تعالیٰ ہماری ملاقات قبول فرمائیں، اور کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں۔

ابھی مولانا صاحب فکری ضروریات کی بات کر رہے تھے، یہ فکری ضروریات کیا ہوتی ہیں؟ دینی ضروریات تو ہم سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی باتیں، فکری ضروریات کیا ہوتی ہیں؟ امت میں پیدا ہونے والے فتنوں سے آگاہی اور ان سے بچنے کے راستے تلاش کرنا، یہ فکری رہنمائی کہلاتی ہے۔ حالات پر نظر رکھنا، آنے والے خطرات کو محسوس کرنا اور نشاندہی کرنا کہ یہ خطرہ آ رہا ہے، متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرنا، اس کا حل نکالنا۔ اس کو میں یوں تعبیر کیا کرتا ہوں جیسے کسی بھی ملک میں ماحولیات کا محکمہ ہوتا ہے، وہ ہوا پہ نظر رکھتے ہیں، پانی پہ نظر رکھتے ہیں، بادلوں پہ نظر رکھتے ہیں، زمین پہ نظر رکھتے ہیں، جراثیم پہ نظر رکھتے ہیں، وائرس پہ نظر رکھتے ہیں، بتاتے رہتے ہیں کہ یہ وائرس آ رہا ہے، یہ جراثیم پیدا ہو رہے ہیں اور یہ ختم ہو رہے ہیں؛ پانی پر، ہوا پر، فضا پر، زمین پر نظر رکھتے ہیں اور جو خطرات محسوس ہوتے ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ خطرہ آ رہا ہے، کرونا آ رہا ہے، ڈینگی آ رہا ہے؛ اب ہمارے ہاں پنجاب میں سموگ ہے، اس سے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہر ملک میں محکمہ ماحولیات ہوتا ہے جو حالات اور موسم پہ نظر رکھتا ہے اور آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے۔

اسی طرح علماء میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے لوگ اٹھائے ہیں جو یہ ماحولیات والا کام کرتے ہیں۔ مولانا صاحب نے بات چھیڑ دی ہے تو میں اس کے ایک دو واقعات عرض کروں گا۔ دین کے ہر شعبے میں ہمارا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ہوتا ہے۔ حدیث کے یاد کرنے میں آئیڈیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، قرآن پاک کی تفسیر اور تعبیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مسائل کے استنباط اور احکام کے استخراج میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شجاعت اور قضا میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، غیرت اور حمیت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حیا اور سخاوت میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور تصدیق اور کمٹمنٹ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی نمایاں شخصیت آئیڈیل ہوتی ہے، تو اِس فکری شعبے کی آئیڈیل شخصیت کون سی ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کے دو واقعے عرض کروں گا۔

بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں، مجلس بیٹھی ہوئی تھی، امیر المؤمنین سوال کیا کہ تم میں سے آنے والے فتنوں کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کس کو زیادہ یاد ہیں؟ خرابیاں کیا پیدا ہوں گی، فتنے کون سے کھڑے ہوں گے، کیسے ہوں گے، اور کیا کرنا ہے؟ حذیفہؓ کہتے ہیں ’’انا‘‘۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ تم کہو گے ’’انا‘‘، میں تمہارے ذوق کو جانتا ہوں۔ ان کا ذوق کیا تھا؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں ’’كان الناس يسالون رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم عن الخير وكنت اسالہ عن الشر‘‘ باقی صحابہ کرامؓ کا معمول اور ذوق یہ تھا کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں زیادہ پوچھا کرتے تھے، اور میں شر کی باتیں زیادہ پوچھا کرتا تھا، شر کے بارے میں، کہ یا رسول اللہ! شر کیسے پیدا ہو گا، فتنے کیسے کھڑے ہوں گے، ہم نے کیسے نمٹنا ہے، کیا کرنا ہے۔

چنانچہ احادیث کی کتابوں میں آپ کو فتنوں کے حوالے سے زیادہ روایات انہی سے ملیں گی، بہت سی روایات ہیں۔ ایک واقعہ یعنی یہ محسوس کرنا کہ آنے والا فتنہ کیا ہے۔ یہ بھی بخاری شریف کی ہی روایت ہے، حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجاہد تھے، جرنیل تھے اور جہاد کا سفر کرتے، روس اور ایران کے درمیان آذربائیجان کے علاقے میں کمانڈر بھی تھے اور علاقے کے گورنر بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ میں ایک دن اپنے خیمے میں فجر کی نماز پڑھ کر بیٹھا تھا، میرے ساتھ والے خیمے میں لڑائی ہو گئی، آواز آئی کہ لوگ لڑ رہے ہیں، میں اٹھ کر گیا، دیکھا تو دو آدمی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ میں نے چھڑایا، کیا کر رہے ہو، خیر ہے، صبح صبح کیوں لڑتے ہو؟

اب لڑائی سنیں کیا ہے۔ ایک نے کہا حضرت میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور صحیح پڑھ رہا ہوں، یہ مجھے غلط بتا رہا ہے کہ یوں نہیں یوں پڑھو۔ اس نے کہا حضرت یہ غلط پڑھ رہا ہے میں صحیح بتا رہا ہوں۔ اب قراءت میں جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ سب لوگ تو عادی ہو گئے ہیں کہ قاری صاحب مختلف لہجوں میں مختلف قراءتوں میں پڑھتے ہیں، پہلے زمانے میں یہ نہیں ہوتا تھا۔ تلفظ کا فرق اور لہجے کا فرق ہوتا ہے، یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ جیسے ہمارے کئی پشتون بھائی بیٹھے ہوئے ہیں۔ پشتو اور پختو۔ چہنہ اور کہنہ۔ یہ ہر زبان میں ہوتا ہے۔ وہ ایسا ہی کوئی جھگڑا تھا۔ وہ عجمی تھے۔ زبان والوں کو فرق نہیں پڑتا۔ پٹھان کو پشتو اور پختو میں کوئی فرق نہیں لگتا، کہنہ اور کہنہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن دوسرے آدمی کو فرق پڑتا ہے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ پشتو کہہ رہا ہے، یہ پختو کہہ رہا ہے۔ قراءت کا اختلاف یہی ہے۔

اب وہ جو پڑھ رہا تھا، یہ روک رہا تھا، اس پہ لڑائی تھی، وہ کہتا ہے میں صحیح پڑھ رہا ہوں، یہ کہتا ہے میں صحیح بتا رہا ہوں۔ ایک نے کہا جی میں کیسے غلط پڑھ سکتا ہوں؟ میرے استاذ ہیں ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ، میں نے قرآن پاک ان سے پڑھا ہے، انہوں نے مجھے ایسے ہی پڑھایا تھا۔ دوسرے نے کہا میں کیسے غلط بتا سکتا ہوں؟ میں نے قرآن پاک پڑھا ہے ان سے بڑے قاری حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انہوں نے ایسے ہی پڑھایا تھا۔ جھگڑا لمبا ہو گیا۔ حضرت حذیفہؓ نے پوچھا، تم سناؤ کیا پڑھ رہے تھے؟ کہا، میں یہ پڑھ رہا تھا۔ فرمایا، ٹھیک پڑھ رہے تھے۔ دوسرے سے پوچھا، تم کیا بتا رہے تھے؟ اس نے کہا، میں یہ بتا رہا تھا۔ فرمایا، ٹھیک بتا رہے تھے۔

بات وہی کہنہ کہنہ کی تھی، جو زبان والوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، بعد والوں کے لیے دونوں الگ الگ لفظ ہیں۔ جھگڑا اس بات پر ہو رہا ہے۔ خیر، حضرت حذیفہؓ نے بتایا کہ تم بھی ٹھیک پڑھ رہے تھے، تم بھی ٹھیک پڑھ رہے تھے، کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ۔ کہتے ہیں کہ مجھے فکر لاحق ہوا کہ عربوں کو تو مسئلہ نہیں ہے، عجمی لوگ ایک ایک لفظ پہ لڑیں گے، مریں گے، ایک دوسرے کو ماریں گے، اس کو سنبھالنا چاہیے۔ اس کو کہتے ہیں فکر۔

مدینہ منورہ جب گئے، امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ تھا، ان سے جا کر صورتحال عرض کی کہ حضرت، یہ جھگڑا ہوا تھا، عجمی تھے، چونکہ ان کو فرق کا پتہ نہیں تھا تو لڑ پڑے تھے۔ قرآن پاک تو عجمیوں میں پھیل رہا ہے، یہ ایک ایک لفظ پہ لڑیں گے، اس کا کوئی انتظام کر لیں۔ لفظ اس طرح ہیں کہ امت کو سنبھال لیں اس سے پہلے کہ ایک ایک لفظ پہ لوگ آپس میں لڑیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا، تمہاری بات ٹھیک ہے، تم نے جس خطرے کی نشاندہی کی ہے، وہ خطرہ ٹھیک ہے۔ شوریٰ بلا لی۔

قرآن پاک تلفظ کے لحاظ سے قریش کے تلفظ پر اترا ہے، قریش کی لغت پہ، لیکن عربوں کو باقی لغتوں میں پڑھنے کی اجازت تھی۔ وہی سات قراءتیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا، عربوں کے لیے تو ٹھیک ہے، عجمیوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ قرآن پاک سب سے پہلے کس نے لکھوایا تھا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔ ایک سٹینڈرڈ نسخہ موجود و محفوظ تھا جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا تھا اور حضرت عمرؓ نے اصرار کر کے لکھوایا تھا، وہ ایک الگ قصہ ہے۔

حضرت عثمانؓ نے ایک کمیٹی بنا دی۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلا بھی لکھا تھا، وہ موجود تھے، ان سے کہا کہ دوبارہ لکھو اور قریش کی لغت پر لکھو جس پہ نازل ہوا ہے، باقی تلفظ نکال دو۔ ’’انزل علی لسان قریش‘‘ قریش کی لغت پر لکھو اور باقی تلفظات کی گنجائش ختم کر دو۔ اچھا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی نہیں ہیں، انصاری ہیں، تو ساتھ دو قریشی لگا دیے، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور ایک دوسرے بزرگ، کہ یہ ساتھ ہوں گے۔ اسی قرآن پاک کو دوبارہ قریش کی لغت پہ لکھنا ہے جس پر نازل ہوا ہے۔ اس کو مصحفِ عثمانی کہتے ہیں۔ قرآن پاک لکھوایا، اس کے پانچ چھ نسخے تیار کروائے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں بھجوائے کہ یہ اسٹینڈرڈ نسخہ ہے، قیامت تک یہی چلے گا۔

(حدثنا ابو الیمان، حدثنا شعیب، عن الزہری، واخبرنی انس بن مالک، قال: فامر عثمان زید بن ثابت وسعید بن العاص وعبد اللہ بن الزبیر وعبد الرحمن بن الحارث بن ہشام ان ینسخوہا فی المصاحف، وقال لہم: ’’اذا اختلفتم انتم وزید بن ثابت فی عربیۃ من عربیۃ القرآن، فاکتبوہا بلسان قریش، فان القرآن انزل بلسانہم ففعلوا‘‘ [صحیح البخاری: رقم ۴۹۸۴])

میں بات کیا کر رہا ہوں کہ ایک خطرے کی بو محسوس کی تو متعلقہ حضرات تک بات پہنچائی اور اس کے سدباب کا انتظام کیا۔ خطرات محسوس کرنا، ان کی نشاندہی کرنا، متعلقہ لوگوں کو بتانا، بریف کرنا، اور اس کے سدباب کی کوئی نہ کوئی تدبیر نکالنا۔ ابھی مصحفِ عثمانی کی بات چل رہی ہے تو میں اس پر ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کے نسخے لکھوائے، جو چھ سات نسخے دنیا کے مختلف کناروں پر بھجوائے، ان میں سے دو اوریجنل نسخے آج بھی موجود ہیں۔ نقل نہیں، اصل۔ ایک توپکاپی میوزیم استنبول میں ہے، وہ نسخہ جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ خود شہید ہو گئے تھے، جس پر خون کے نشانات بھی موجود ہیں۔

اللہ کی قدرت، ایک دفعہ ہم تین ساتھی تھے، حضرت مولانا ضیاء القاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ، اور میں، ہم تینوں لندن جاتے ہوئے استنبول دو دن رکے، نیت یہ تھی کہ قرآن پاک کے نسخے کی زیارت کریں گے اور استنبول میں ہی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک پر حاضری دیں گے۔ ہم تینوں استنبول میں ٹھہرے، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر پر حاضری کی سعادت تو مل گئی لیکن قرآن پاک کی زیارت نہیں کر سکے، توپکاپی میوزیم مرمت کے لیے ایک ہفتے کے لیے بند تھا، اور ہمارے پاس چوبیس گھنٹے کا ٹرانزٹ ویزا تھا۔

دوسرا نسخہ برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے۔ برٹش میوزیم میں انڈیا آفس لائبریری ہے، بہت بڑا ریکارڈ ہے، کئی دفعہ گیا ہوں۔ ہمارے مخدوم محترم بزرگ گزرے ہیں حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ہمارے اکابر میں سے تھے، کتابت کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا اور کتاب کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا، ہمارے بزرگان کرام میں سے تھے، اولیاء کرام میں سے تھے، ایک مرتبہ ان کے ساتھ مجھے برٹش میوزیم میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جو بات میں عرض کرنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ نسخہ میں نے ہاتھوں میں یوں اٹھا کر دیکھا، اب بھی وہ جملہ میرے سامنے ہے ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘، قرآن پاک کا یہ نسخہ عثمان بن عفان نے لکھا ہے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

اس پر کئی بادشاہوں کی مہریں ہیں۔ ترکی بادشاہ سلطان سلیم اول کی مہر ہے، ایرانی بادشاہ اسماعیل صفوی کی مہر ہے، مغل بادشاہ جہانگیر کی مہر ہے، شاہجہان کی ہے، اور بہادر شاہ ظفر کی ہے۔ احساسات ہوتے ہیں۔ میں نے قرآن پاک کا نسخہ یوں ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے، آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں، یا اللہ، تو کتنا بے نیاز ہے کہ قرآن پاک کے اوریجنل نسخے کی حفاظت کن سے کروا رہا ہے۔ حفاظت کون کر رہا ہے، برٹش میوزیم کا خرچہ کون دے رہا ہے، نیٹ ورک کس کا ہے؟ ہمارے پاس ہوتا تو پتہ نہیں کیا حشر کرتے۔ اور صرف حفاظت نہیں کروا رہا بلکہ جس طاقچے میں وہ رکھا ہوا ہے وہاں ایک لسٹ لکھی ہوئی ہے، پوری ’’سندِ متصل‘‘ ہے۔ ہماری حدیث کی سند نیچے سے اوپر چلتی ہے، وہ اوپر سے نیچے ہے۔ لکھا تھا کہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ اوتومان (عثمان) سے، وہاں سے چلتے چلتے، وہاں سے وہاں گیا، وہاں سے وہاں گیا، اور ہم نے جب انڈیا پہ قبضہ کیا ہے ۱۸۵۷ء میں تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی لائبریری سے اٹھا کر ہم یہاں لے آئے تھے۔

میں نے یہ اس لیے بتایا ہے کہ حالات سے باخبر رہنا، ان کی نشاندہی کرنا، ان کا حل تلاش کرنا، یہ بھی دین کا شعبہ ہے، میں اس کو حذیفی ذوق کہا کرتا ہوں، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے امام تھے۔ اسی مناسبت سے میں آج کی صورتحال پر ایک حدیث عرض کروں گا۔

کنز العمال میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے زمانوں کے بارے میں پیش گوئیاں فرمائی ہیں، یہ حدیث کا مستقل موضوع ہے کہ یہ ہو گا، یہ ہو گا، اور یہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’یاتی علی النّاس الزمان لا تطاق المعیشۃ فیہ الا بالمعصیۃ فاذا کان کذالک الزمان فعلیکم بالھرب الی اللہ والٰی کتاب اللّٰہ و الی سنۃ نبیہ‘‘ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ گناہ کے بغیر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہو گا، زندگی کا جو بھی گناہ اختیار کرے گا گناہوں سے پُر ہو گا، ملازمت کریں گے، تجارت کریں گے، زراعت کریں گے، کاروبار کریں گے، جو بھی کریں گے، گناہوں کے راستے ہوں گے۔ جملہ یہ ہے کہ گناہوں کے بغیر زندگی بسر کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔

کیا خیال ہے، آج ہمارا وہ زمانہ نہیں ہے؟ کوئی شعبہ گناہوں سے خالی ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں ہماری زندگی کے جتنے شعبے بھی ہیں، کوئی شعبہ حرام سے بالکل پاک ہے؟ ہمیں ساری باتوں پر اطمینان ہو کہ یہ حلال ہے، طیب ہے، اس میں حرام کی ملاوٹ نہیں ہے، کوئی شعبہ ہے ہمارا ایسا؟ حرام نے ہی ہم سب کو گھیرا ہوا ہے۔ حلال اور حرام ہمارے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حرام ہے تو یار کیا کریں مجبوری ہے۔ سب سے بڑا بہانہ کہ مجبوری ہے، کام نہیں چلتا جی، کرنا پڑتا ہے، گزرا نہیں ہوتا جی، یہ سادہ سا بہانہ ہے ہمارا۔ لیکن حرام کیا ہے اور حرام کے ہم پر اثرات کیا ہیں؟

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں معروف بزرگ ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اکابر صحابہؓ میں سے ہیں، ان کے بارے میں ایک بات مشاہدے میں تجربے میں آگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ یہ کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں کچھ بھی نہیں لگتے لیکن ’’لو اقسم علی اللہ لابرہ‘‘ اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ لاج رکھ لیتے ہیں۔ دیکھنے میں اشعف، اغبر، ظاہری پوزیشن یہ ہوتی ہے کہ کوئی اپنے دروازے پر کھڑا نہ ہونے دے۔ اللہ کے ہاں مقام یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ کی قسم کھا لیں یا اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ لاج رکھ لیتے ہیں۔ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں ایک بات مشاہدے میں آ گئی کہ بابا جی کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ پوری فرما دیتے ہیں۔ اس کو ہماری شرعی اصطلاح میں کہتے ہیں مستجاب الدعوات، جس کی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ ان سے ایک صاحب ملے کہ حضرت، آپ کے بارے میں مشاہدہ بھی ہے، تجربہ بھی ہے، شہرت بھی ہے کہ آپ کی بات اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں کہ بابا جی کے منہ سے کوئی لفظ نکل جائے تو کام بن جائے گا۔ وجہ کیا ہے؟ کہتے ہیں، یار جو باقی لوگ کرتے ہیں میں بھی وہی کرتا ہوں، ایسا تو نہیں کہ میں کوئی خاص وظیفہ کرتا ہوں، ہاں، ایک بات ہے کہ جب سے کلمہ پڑھا ہے، جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس حلق کے اندر ایک لقمہ بھی ایسا نہیں گیا جس کے بارے میں تسلی نہ ہو کہ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہے۔ یہ درمیان میں کوئی دس پندرہ سال بنتے ہیں۔ کہہ دینا بہت آسان ہے، ہم تو چوبیس گھنٹے کی تسلی نہیں دے سکتے، ہم تو ایک ہفتے کی تسلی نہیں دے سکتے کہ کیا کھایا تھا اور کہاں سے آیا تھا اور کیسے آیا تھا۔ اور وہ کتنی تسلی دے رہے ہیں۔

ہر کمال کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے، وجہ کے بغیر کمال کوئی نہیں ہوتا۔ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ بلال! میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے، کیا کرتے ہو؟ ہماری زبان میں، کون سا وظیفہ پڑھتے ہو یار۔ فرمایا، تم مدینہ منورہ میں چلتے ہو، میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے، کون سا عمل کرتے ہو؟ یا رسول اللہ! جو باقی کرتے ہیں، میں تو وہی کرتا ہوں، ہاں، ایک بات ہے، وضو کے بعد دو رکعتیں لازماً‌ پڑھتا ہوں، کبھی ناغہ نہیں کیا۔ وضو کے بعد دو رکعتیں سنت ہے، مستحب ہے، پڑھ لینا ثواب ہے، نہ پڑھنے کا گناہ بھی نہیں ہے۔ کہا، میری عادت ہے کہ وضو کے بعد میں دو رکعتیں ضرور پڑھتا ہوں۔ اسے تحیۃ الوضو کہتے ہیں۔ فرمایا، یہی عمل ہے۔ یعنی ہر کمال کے پیچھے کوئی نہ کوئی نیکی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔

سب سے پہلی نحوست حرام سے کیا ہوتی ہے؟ دعائیں قبول ہونا بند ہو جاتی ہیں۔ دعا کی قبولیت کے لیے حلال سب سے بنیادی سبب ہے۔ اور یہ بات جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمائی ہے کہ ایک آدمی آتا ہے، بیت اللہ کا طواف کرتا ہے، غلاف پکڑ کر دعائیں کرتا ہے، آہ و زاری کرتا ہے، دعائیں مانگتا ہے لیکن ’’ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فانیٰ يستجاب لذلك؟‘‘ (صحیح مسلم: رقم ۲۷۶۰) کھانا اس کا حرام کا ہے، پینا اس کا حرام کا ہے، پہننا اس کا حرام کا ہے، دعا کہاں سے قبول ہو گی؟ فرمایا جس جسم کی نشوونما حرام سے ہوئی ہے اس کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ میری دعائیں بھی قبول ہوں گی۔ دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا سبب کیا ہے؟ حلال۔

آج ہماری ایک بہت بڑی وجہ، میں یہ نہیں کہتا کہ واحد وجہ، اور وجوہات بھی ہیں، لیکن بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ حلال حرام کا فرق مٹ گیا ہے، عملاً‌ تو مٹ گیا ہے، ذہنوں سے بھی مٹ گیا ہے۔ ہمارے خیال میں بھی یہ نہیں آتا کہ یار پتہ کرو کہ یہ حلال بھی ہے یا نہیں۔ ایک ہے کہ ذبح ہوا ہے یا نہیں، ایک ہے کہ آیا کہاں سے ہے؟ بکری حلال ہے لیکن چوری کی ہو تو حرام ہے۔ گندم حلال ہے لیکن دھوکے سے لی ہے تو حرام ہے۔ دودھ حلال ہے طیب ہے لیکن کسی کا چھینا ہے تو حرام ہے۔ ایک یہ ہے کہ چیز حلال ہے یا حرام؟ اور ایک ہے کہ حلال ذریعے سے آئی ہے یا حرام ذریعے سے؟ ہم ہر چیز بھول گئے۔

ہماری عام شکایت ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ جتنی دعائیں ہم مانگ رہے ہیں قبول ہو رہی ہیں؟ سبب پہ غور کریں۔ آج کی ہماری مصیبتیں ہماری تکلیفیں ہمارے مصائب ہمارے آلام۔ اگر ہم اپنے حلال حرام پر قابو پا لیں اور تھوڑا کھائیں لیکن حلال کھائیں تو دعاؤں کی قبولیت کا راستہ کھلے گا۔ اور ہماری اس وقت سب سے بڑی ضرورت دعا کی قبولیت کی ہے، اسباب کی دنیا میں ہم بالکل بے بس ہو چکے ہیں۔ اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے؟ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ اراکان میں کیا ہو رہا ہے؟ اس بے بسی کے عالم میں ہم اپنے بھائیوں کی مدد نہیں کر پا رہے۔ ہماری صورتحال کیا ہے؟ ہم جو کر سکتے ہیں وہ کر نہیں رہے، اور جو کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے۔ اس سے بڑی بے بسی کوئی ہو گی؟ ہمیں اپنے اعمال پہ غور کرنا چاہیے، اپنی کوتاہیوں کا حساب لگانا چاہیے، اور ایک بات ان میں سے یہ ہے کہ کم از کم اپنے حلال حرام پر اگر ہم قابو پا لیں تو شاید ہماری دعاؤں کی قبولیت کا کوئی راستہ کھل جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔

2016ء سے
Flag Counter