مذہب اور وحی کی طرف واپسی کا سفر

   
تاریخ : 
۲۷ اپریل ۲۰۱۶ء

چند سال قبل کی بات ہے امریکہ کے سفر کے دوران واشنگٹن ڈی سی میں وہاں کے بعض اہل دانش سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی کہ انسانی سوسائٹی میں مذہب کی طرف واپسی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ خدشہ محسوس ہونے لگا ہے کہ سوسائٹی میں واپسی کے بعد مذہب کہیں اس کے اجتماعی معاملات میں پھر سے دخل اندازی تو نہیں کرے گا؟ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ واقعی مذہب ہے تو ضرور کرے گا اس لیے کہ مذہب صرف فرد کی راہ نمائی نہیں کرتا بلکہ سوسائٹی کی راہ نمائی بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے فرد کی بجائے قوم سے خطاب کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ان کے خطابات کا ذکر ’’یا قوم‘‘ کے عنوان سے جا بجا موجود ہے۔

حتیٰ کہ سب سے آخر میں آنے والے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دائرہ کو وسیع تر کر دیا۔ اور ’’یا قوم‘‘ کی بجائے ’’یا ایہا الناس‘‘ کہہ کر اپنی راہ نمائی کے دائرے میں پوری نسل انسانی کو شامل فرما لیا۔ اس لیے کوئی مذہب اگر واقعتا اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے پاس اپنے پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی اور اس کی تعبیر و تشریح میں پیغمبر کی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود ہیں تو وہ صرف فرد سے بات نہیں کرے گا بلکہ سوسائٹی سے خطاب کرے گا۔ اور فرد و خاندان سمیت سوسائٹی کے تمام معاملات میں نہ صرف راہ نمائی مہیا کرے گا بلکہ اس کی پابندی پر اصرار بھی کرے گا۔

موجودہ صدی کو عام طور پر مذہب کی طرف واپسی کی صدی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دو صدیاں انسانی سوسائٹی نے وحی اور آسمانی تعلیمات سے انحراف میں گزاری ہیں اور اس کے تلخ معاشرتی نتائج و ثمرات کا سامنا کرتے ہوئے اب اہل دانش سوسائٹی میں مذہبی اقدار و روایات کی واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ دو ماہ قبل امریکہ کی ہنٹنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پاکستان تشریف لائے، وہ اہل سنت کے معروف متکلم اور عقائد کے امام ابومنصور ماتریدیؒ پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ ان کے مقالے کا موضوع یہ ہے کہ امام ابو منصور ماتریدیؒ نے عقل اور وحی کے مابین جو توازن قائم کیا ہے اس کی حدود کیا ہیں اور اسے آج کے ماحول میں کس طرح بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس سلسلہ میں ملاقات و گفتگو کے لیے جو فہرست بنا رکھی تھی اس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ چنانچہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہمارے گھر میں ایک نشست ہوئی جس میں عزیزم عمار خان ناصر بھی شریک گفتگو تھا۔ میرے لیے انہوں نے یہ سوال خاص کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کے علم کلام کی تشکیل میں ابومنصور ماتریدیؒ کا بنیادی کام کیا ہے؟

میں نے گزارش کی کہ یونانی فلسفہ و عقلیات کی بنیاد پر معتزلہ نے عقائد و کلام کا جو فلسفہ پیش کیا اور جس نے خلیفہ مامون الرشید اور دوسرے بعض خلفاء کے ذریعہ اپنی برتری کا اظہار بھی کرنا شروع کر دیا، اس کا سامنا علمی دنیا میں امام ابوالحسن اشعریؒ نے کیا اور بہت خوب کیا کہ یونانی فلسفہ اور اس دور کی عقلیات میں مہارت بلکہ کمانڈ حاصل کر کے معتزلہ کے دلائل کا تار و پود انہی کے دلائل سے بکھیر کر رکھ دیا۔ وہ چونکہ مقابلہ پر تھے اور عقل پر وحی کی بالادستی ثابت کر رہے تھے اس لیے تقابل کی فضا میں فطری طور پر وہ توازن قائم نہ رکھ سکے جیسا کہ عام طور پر مناظرہ و مقابلہ میں ہو جاتا ہے۔ امام ابو منصور ماتریدیؒ نے اسے توازن میں لانے کا کام کیا ہے، جو میری طالب علمانہ رائے میں ماتریدیؒ کا اصل کام ہے۔

پروفیسر صاحب موصوف کا کہنا تھا کہ مغرب میں اب اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ عقل کے ساتھ وحی و وجدان کا ربط و تعلق ضروری ہے۔ لیکن مسلم ائمہ میں عقل و فلسفہ اور وحی و وجدان کے درمیان صحیح توازن کا نمائندہ کون ہے؟ اس حوالہ سے ہماری نگاہ امام ابو منصور ماتریدیؒ پر ٹک گئی ہے اور اسی لیے ہم ان پر کام کر رہے ہیں۔

یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے کہ مذہب اور وحی کی طرف واپسی کے رجحانات کا رخ کیا ہے؟ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں سرے سے اس کا ادراک و احساس ہی نہیں ہے کہ دنیا کیا سوچ رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مجھے اپنے علمی مراکز کی بے خبری اور بے حسی دیکھ کر بسا اوقات شیخ سعدیؒ کا یہ مقولہ یاد آجاتا ہے کہ مغربی دنیا کی اعلیٰ دانش ہمارا حال دیکھ کر یہ ضرور گنگناتی ہوگی کہ:

ما بتو مشغول تو با گاؤ وخر

یہ نشست دو تین ماہ قبل کی ہے جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے اور جو مجھے آج اچانک یاد آگئی۔ اس کی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ سوسائٹی میں مذہب کی واپسی کا جو خطرہ امریکہ میں درپیش ہے وہ مشرق میں چین کے لیے بھی خطرہ کی گھنٹی بن چکا ہے۔ چنانچہ ۲۵ اپریل ۲۰۱۶ء کو ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’چینی صدر شی جن پنگ نے ملک کی مذہبی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ اپنی اقدار کو چینی ثقافت اور کمیونسٹ پارٹی سے ہم آہنگ رکھیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بات بیجنگ میں پارٹی کے مذہب کی جانب رویے کے خدوخال بتاتے ہوئے کہی۔ صدر شی نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی خدا سے زیادہ اہم ہے۔ مذہبی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے وابستہ رہیں۔ پارٹی کے کارکن لازمی طور پر بے لچک لادین رہیں اور خود کو بیرون ملک سے آنے والے دینی اثرات سے بچائے رکھیں۔ چین میں لاکھوں بدھ، مسلمان اور عیسائی بستے ہیں۔‘‘

باہر سے آنے والے ’’دینی اثرات‘‘ کا عوامی جمہوریہ چین میں ایک منظر یہ ہے کہ مشرقی پٹی میں بسنے والے کم و بیش آٹھ کروڑ اور مغربی پٹی میں آباد ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں میں دینی بیداری کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ مساجد آباد ہو رہی ہیں، قرآن و حدیث کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور چینی مسلمانوں کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ روابط و تعلقات کا سلسلہ قائم ہو رہا ہے جو ظاہر ہے کہ میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ گلوبلائزیشن کے اس دور کا ایک لازمی حصہ ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا۔ لیکن ہمارا ’’رونا‘‘ یہ ہے کہ کیا ہمیں یعنی مسلمانوں کے دینی و علمی مراکز اور اداروں کو بھی اس کا کسی درجہ میں کوئی احساس ہے؟ ہمیں تو اب یہ بھی معلوم نہیں رہا کہ یہ سوال ہم نے کرنا کس سے ہے؟ فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔

   
2016ء سے
Flag Counter