مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ

   
تاریخ : 
۳ جولائی ۲۰۰۸ء

آج کا کالم چند تعزیتوں کے حوالے سے ہے۔ حضرت مولانا عبد المجید انور ہمارے محترم بزرگ دوستوں میں سے تھے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک زمانے میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال کو پاکستان میں دیوبندی مسلک کے رشیدی ذوق کے ترجمان ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہ اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی نے اس ذوق کی آبیاری کی اور ملک میں دیوبند مسلک کے تعارف اور ترجمانی کے لیے زندگی بھر محنت کی۔ اس محنت کے عروج کے دور میں حضرت مولانا عبد المجید انورؒ، حضرت علامہ غلام رسولؒ اور مولانا مفتی مقبول احمدؒ بھی اسی قافلہ کے افراد اورا س کی جدوجہد میں شریک تھے۔ پھر کسی کی نظر لگ گئی کہ جامعہ رشیدیہ میں تنازعہ ہوا اور یہ قافلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ تنازعہ نے بدقسمتی سے طول اور تلخی کی صورت اختیار کی تو مؤخر الذکر گروہ نے جامعہ علوم شرعیہ کے نام سے الگ مورچہ لگا لیا۔ دونوں ادارے اپنے اپنے انداز میں چلتے رہے اور اب بھی چل رہے ہیں مگر ملک بھر میں دیوبندی مسلک کے تعارف، منادی، اور دفاع کے لیے اس کا وہ کردار بحال نہ ہو سکا جس نے ایک دور میں جامعہ رشیدیہ کو پاکستان میں دیوبندی مکتب فکر کے ترجمان کا مقام دے رکھا تھا۔

میری دونوں طرف کے بزرگوں سے یاد اللہ رہی ہے۔ میرا مزاج یہ ہے کہ کام میں سب کے ساتھ شریک ہونے کی کوشش کرتا ہوں اور باہمی تنازعات سے ہر ممکن طور پر کنی کتراتا ہوں۔ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ میری اس عادت و مزاج کو دیکھ کر بسا اوقات مجھے دیکھتے ہی نعرہ لگا دیا کرتے تھے کہ ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘۔

مولانا عبد المجید انورؒ کے ساتھ بے شمار ملاقاتیں ہوئیں، جلسوں میں رفاقت رہی، انہیں سبق پڑھاتے سنا، پبلک اجتماعات میں ان کے خطابات سے محظوظ ہوا، اور نجی محفلوں میں گپ شپ رہی۔ مجھے ان کے طرز خطابت میں اپنے ایک محبوب بزرگ مولانا محمد علی جالندھری کی خطابت کی جھلک محسوس ہوتی تھی اور میں کبھی کبھی اس کا حظ اٹھایا کرتا تھا۔ چند سال قبل انہوں نے پاکستان سے ترک سکونت کر کے برطانیہ میں رچڈیل کو مسکن بنا لیا تو وہاں بھی ان کی خدمت میں متعدد بار حاضری ہوئی۔ ایک بار فون پر ان کو اپنے برطانیہ آنے کی خبر دی تو پوچھا کہ ’’مزار پر کب حاضری دو گے؟‘‘ وہ یہ فرما رہے تھے کہ میں تو بیماری کی وجہ سے زیادہ سفر نہیں کر سکتا، ملاقات کے لیے تمہیں ہی آنا ہوگا۔ چنانچہ اس سے ایک دو روز بعد میں ’’مزار‘‘ پر حاضر ہوگیا۔ وہ پرانے مدرسین میں سے تھے اور جو شخص مزاجاً مدرس ہو وہ ہر جگہ اپنی دلچسپی کا سامان کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ انہوں نے بھی وہاں چند طلبہ تلاش کر لیے تھے جنہیں درس نظامی کے مختلف اسباق پڑھا کر وہ اپنے ذوق کی تسکین کر لیا کرتے تھے۔

مولانا عبد المجید انورؒ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔ آج کے تصنع اور نمود و نمائش کے ماحول میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی جیسے سادہ منش لوگوں کی جو تھوڑی بہت جھلک دیکھنے میں آجایا کرتی تھی اس کی لو اور مدھم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں، آمین۔

نارروال کے قریب پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کے قصبہ ظفروال میں ایک پرانے بزرگ مولانا عبد الحق ہوتے تھے جنہیں دیکھنے اور ان سے دعائیں لینے کے لیے کبھی کبھی وہاں حاضری ہو جایا کرتی تھی، وہ بھی گزشتہ ہفتہ کے دوران اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں کوشش کے باجود جنازے پر تو نہ پہنچ سکا البتہ تدفین کے بعد دعا میں شرکت ہوگئی۔ وہ پرانے فضلائے دیوبند میں سے تھے۔ گزشتہ روز میں نے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے ان کا تذکرہ کیا تو فرمایا کہ وہ ہمارے ساتھیوں میں سے تھے اور دیوبند میں ہمارے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ مولانا عبد الحقؒ نے ۱۹۴۵ء میں ظفروال کی مرکزی جامع مسجد میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کی ہدایت پر ڈیرہ لگایا اور پھر ساری زندگی وہیں بسر کر دی۔ طبابت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور اچھے حکیم تھے، جبکہ علاقے میں دین و مسلک کی مسلسل خدمت کرتے رہے۔ اب ان کے ایک بیٹے عنایت اللہ ان کے مطب پر ان کی جگہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کے پوتے مفتی محمد عثمان جامعہ اشرفیہ لاہور کے دارالافتاء میں حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جان اور حضرت مولانا مفتی شیر محمد علوی کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔

مولانا عبد الحقؒ کی ولادت اسی علاقہ کے گاؤں چک حکیم میں ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔ جنازے کے موقع پر ہمارے ایک سرگرم ساتھی مولانا افتخار اللہ شاکر آف اونچا کلاں نے بتایا کہ اس دور میں اس علاقہ میں علی پور سیداں کے دو بزرگوں حضرت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوریؒ اور انہی کے ہم نام دوسرے بزرگ حضرت پیر سید جماعت علی شاہؒ ثانی کا حلقہ ارادت بہت وسیع تھا۔ مولانا افتخار اللہ شاکر کے والد جنہیں سائیں میاں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، مولانا عبد الحقؒ کو ان کے لڑکپن میں ساتھ لے کر حضرت پیر سید جماعت علی شاہؒ ثانی کے پاس گئے اور ان کے تعلیمی شوق کا ذکر کیا تو انہوں نے دعا کے ساتھ انہیں دیوبند جا کر تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کی اور اپنی طرف سے بیس روپے بطور خرچ بھی عطا کیے۔ چنانچہ ان کی ہدایت پر مولانا عبد الحقؒ دیوبند چلے گئے اور مسلسل چھ سال تک دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک نارووال اور شکر گڑھ کے اس علاقے میں فضلائے دیوبند کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، شکر گڑھ کے مدرسہ تعلیم القرآن چوک بخاری کے بانی حضرت مولانا عبد الرحیمؒ ہمارے متحرک اور بزرگ ساتھیوں میں سے تھے اور مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیۃ علمائے اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کے دور میں کئی بار شکر گڑھ جانے کا اتفاق ہوا، وہ بتایا کرتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں دارالعلوم دیوبند کے فضلاء موجود ہیں اور بہت سے بزرگوں سے انہوں نے تعارف بھی کرایا۔ وہ فرماتے تھے کہ جتنے فضلائے دیوبند شکرگڑھ کے علاقے میں ہیں، قریب قریب اور کسی علاقے میں نہیں ہیں۔

مولانا عبد الحقؒ کے جنازے کے موقع پر میں نے ان دوستوں سے اس حوالے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک دو فضلائے دیوبند بزرگ باقی ہیں باقی سب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ انہی باقی ماندہ بزرگوں میں ہمارے ایک مخدوم و محترم بزرگ حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب آف ڈسکہ بھی ہیں جو صرف فاضل دیوبند ہی نہیں بلکہ دیوبند کی جرأت و حمیت کا نمونہ بھی ہیں۔ مولانا عبد الحقؒ کا جنازہ انہوں نے پڑھایا۔ قریب قریب علاقے میں میری معلومات کے مطابق فضلائے دیوبند میں سے مولانا فیروز خان کے علاوہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حافظ آباد میں مولانا لالہ عبد العزیز صاحب بقید حیات ہیں جو کسی دور میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھیں، آمین۔

تیسرے بزرگ حاجی جمال دین صاحب ہیں جن کا تذکرہ میں ضروری سمجھتا ہوں۔ جن دوستوں نے والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی تصانیف کے ابتدائی ایڈیشن دیکھے ہیں انہیں ماسٹر اللہ دین مرحوم کا نام ضرور یاد ہوگا جو ہر کتاب پر ’’ناظم انجمن اسلامیہ گکھڑ‘‘ کے طور پر ناشر کی حیثیت سے درج ہوتا تھا۔ ایک عرصہ تک انہوں نے والد صاحب کی کتابوں کی طباعت اور تقسیم و ترسیل کی خدمت سر انجام دی ہے۔ نہایت سادہ اور متدین بزرگ تھے، قیام پاکستان کے وقت انبالہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور گکھڑ میں ڈیرہ لگا لیا تھا۔ ہمارا ان سے گھریلو قسم کا تعلق تھا۔ ان کی منجھلی بیٹی نے والد محترم مدظلہ سے درس نظامی کے ایک بڑے حصے کی تعلیم حاصل کی، وہ ملتان کے ایک محترم بزرگ انجینیئر حاجی عبد الوحید صاحب کی اہلیہ ہیں، ملتان رہائش پذیر ہیں اور ان کی اولاد دینی تعلیم و تدریس میں مصروف ہے۔ حاجی جمال دین صاحب مرحوم ماسٹر اللہ دین صاحب مرحوم کے بڑے داماد تھے، ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ منڈھیالہ تیگہ کے قریب بلال پور میں ان کا قیام تھا، خود زمیندار تھے اور اپنی زمین میں ہی طالبات کا ایک مدرسہ قائم کر رکھا تھا جس میں سینکڑوں طالبات دورۂ حدیث تک تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ اب اسے توسیع دے کر ایک بڑے قطعہ زمین میں مدرسہ کی تعمیر نو کا قصد کیا تھا کہ اچانک بلاوا آگیا۔ ان کے بڑے بیٹے حافظ عبد العزیز میرے حفظ کے ساتھیوں میں سے ہیں اور کویت میں ہوتے ہیں۔

حاجی جمال دین مرحوم ایک متدین زمیندار اور ایک اچھے دینی مدرسہ کے منتظم تو تھے ہی مگر ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی دینی حمیت اور مسلکی غیرت تھی جس کے لیے وہ ہر وقت مضطرب اور بے چین رہتے تھے۔ لال مسجد کے حوالہ سے ان کی بے چینی، اضطراب، اور مسلسل تگ و دو قابل رشک تھی۔ ان کا سب سے بڑا درد یہ تھا کہ دیوبندی علماء متحد کیوں نہیں ہوتے اور اس مقصد کے لیے وہ مختلف بہانوں سے علمائے کرام کی بڑی بڑی دعوتیں کرتے تھے اور انہیں اپنے درد دل سے آگاہ کرتے تھے۔ حاجی جمال دین مرحوم کینسر کے مریض تھے اور انہیں اس کا علم ہو چکا تھا کہ ڈاکٹر صاحبان اب مزید علاج کی افادیت محسوس نہیں کر رہے۔ انہوں نے اس حال میں عمرہ کا سفر کیا اور حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کر کے چند روز قبل واپس آگئے تھے۔ ان کی عمرہ سے واپسی پر ملاقات کے لیے گیا جو ہماری آخری ملاقات تھی۔ تھوڑی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے، ان سے رخصت ہوتے وقت میرا تاثر تو تھا ہی لیکن ان کے چہرے سے بھی یوں لگ رہا تھا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو۔ مجھے بتایا گیا کہ وفات سے چند لمحے قبل تین بار زور سے اللہ اللہ کہا اور ساتھ بیٹھے عزیز سے کہا کہ گواہ رہنا میں اللہ کو یاد کر رہا ہوں۔ اللہ رب العزت انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter