ڈاکٹر محمد المسعری سعودی عرب کے معروف دانشور ہیں جو گزشتہ پانچ برس سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ’’لجنۃ الدفاع عن الحقوق الشرعیۃ‘‘ (شرعی حقوق کے دفاع کی کمیٹی) کے نام سے سعودی عوام کے شرعی و سیاسی حقوق کی بحالی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ وہ نومبر ۱۹۴۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد محترم الشیخ عبد اللہ بن سلیمان المسعری کا شمار سعودی عرب کے سرکردہ علماء کرام میں ہوتا ہے جو قضا کے مختلف مناصب پر فائز رہے اور دیوانِ مظالم کے رئیس کے عہدہ پر بھی کام کیا۔ جبکہ ان کے نانا الشیخ محمد عبد الرزاق حمزہؒ امام الحرمین تھے اور انہیں ملک کے اکابر علماء کرام میں شمار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد المسعری نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔ گیارہ سال وہاں رہے اور فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ ۱۹۷۶ء میں وطن واپس آئے اور ریاضی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران اخوان المسلمون، حزب التحریر اور دیگر اسلامی تحریکوں سے متعارف ہوئے جو مختلف عرب ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ و احیا کے لیے کام کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض کے ساتھ انہیں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔
۱۹۹۲ء میں سعودی عرب کے سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے خلیج میں امریکہ کی مسلح مداخلت کے خلاف اور سعودیہ کے داخلی نظام کی اصلاح کے لیے ’’مذکرۃ النصیحۃ‘‘ (خیر خواہی کی یادداشت) کے نام سے شاہ فہد کو ایک عرضداشت پیش کی تو اس پر دستخط کرنے بلکہ اس کے لیے کام کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد المسعری بھی شامل تھے۔ اس عرضداشت کی پاداش میں دیگر علماء کرام اور دانشوروں کے ساتھ وہ بھی گرفتار ہوگئے۔ چھ ماہ جیل میں رہے، پھر کسی ذریعہ سے جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اتنا ہی عرصہ مختلف علاقوں میں سرگرداں رہنے کے بعد یمن کے راستہ سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور یہاں آکر سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ ڈاکٹر المسعری کے مطابق ان کے ساتھ دو سو سے زائد دیگر سرکردہ علماء کرام اور دانشور بھی گرفتار ہوئے جنہوں نے تین چار سال جیلوں میں رہ کر رہائی پائی۔ ان میں سے دو بزرگ علماء الشیخ سلمان عودہ اور الشیخ سفر الحوالی ابھی حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد المسعری سے راقم الحروف کی مختلف مجالس میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز لندن میں ہمارے ایک مشترک دوست جناب شفیق احمد کے ہاں دوپہر کے کھانے پر تفصیلی ملاقات و گفتگو کا موقع ملا جس میں شام کے الشیخ عمر بکری محمد اور عراق کے الشیخ ابوعدی بھی شریک تھے۔ اس موقع پر راقم الحروف کی فرمائش پر انہوں نے مختلف مسائل پر اپنا نقطۂ نظر بیان کیا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد المسعری نے کہا کہ ۱۹۹۶ء میں شاہ فہد کے سامنے خیر خواہی کی یادداشت پیش کرنے سے ہماری بنیادی غرض یہ تھی، جو کہ اب بھی قائم ہے، کہ قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں سعودی عرب کے داخلی و خارجی نظام کی اصلاح کی جائے۔ اس مقصد کے لیے یادداشت میں مختلف قومی شعبوں میں حکومت کی غلط پالیسیوں اور ان کے نتائج کی نشاندہی کرتے ہوئے شریعت اسلامی کے مطابق ان کی اصلاح کے لیے عملی تجاویز دی گئی ہیں جن میں
- سودی نظام کے خاتمہ،
- تمام شعبوں میں شرعی احکام کے نفاذ،
- ملکی سطح پر شرعی عدالت عالیہ کی بحالی،
- عوام کے شہری حقوق کی بحالی،
- ملکی دولت کے ضیاع کی روک تھام،
- تیل سمیت ملک کی تمام پیداوار پر ریاستی کنٹرول کی بحالی، اور
- خلیج سے امریکی افواج کے انخلا
جیسی اہم تجاویز شامل ہیں۔ مگر سعودی حکومت نے ان جائز تجاویز اور مطالبات پر غور کرنے کی بجائے یادداشت پیش کرنے والے علماء اور دانشوروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں علماء کرام اور دانشوروں کی یہ جدوجہد زیرِ زمین چلی گئی ہے۔ اور اگرچہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور پریس آزاد نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر کچھ نظر نہیں آتا مگر سعودی عرب کے پڑھے لکھے لوگوں میں شرعی اور سیاسی حقوق کی بحالی کا شعور بڑھ رہا ہے اور خلیج پر امریکہ کے اقتصادی و عسکری تسلط کے خلاف بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کا اندازہ ہے کہ صورتحال میں نمایاں تبدیلی کے آثار چند برسوں میں واضح طور پر دکھائی دینے لگیں گے۔
ڈاکٹر محمد المسعری نے امریکی استعمار اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے ساتھ آلِ سعود کے تعلقات کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا پس منظر بہت طویل ہے کیونکہ انگریزوں کے ساتھ آلِ سعود کے تعلقات کا آغاز سلفی تحریک کے بانی امام محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کے دور میں ہی ہوگیا تھا جس پر ناراض ہو کر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ الشیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ نے آخری عمر میں عبادت کے لیے اپنے آپ کو اجتماعی کاموں سے فارغ کر لیا تھا اور اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مگر تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور نجد کے حکمران امیر محمد بن سعودؒ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں آلِ سعود نے اصلاح کے لیے شیخ کی دعوت قبول کر لی تھی۔ اور یہ طے پایا تھا کہ آلِ سعود کی حکومت کا نظام الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کے خاندان کے ساتھ مل کر چلایا جائے گا جو ’’آلِ سعود اور آلِ شیخ کے معاہدہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدہ پر امیر محمد بن سعودؓ کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر عبد العزیز بن محمدؒ ان کے جانشین بنے تو الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ ابھی حیات تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خلافتِ عثمانیہ کے خلاف آلِ سعود حالتِ جنگ میں تھے۔
اس جنگ کی بھی ایک مستقل تاریخ ہے، سعودی عرب کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے شائع کردہ ’’تاریخ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ کی صراحت کے مطابق نجد کے علاقہ نے کسی دور میں بھی خلافتِ عثمانیہ کی اطاعت قبول نہیں کی اور ان کے درمیان معرکوں کا سلسلہ صدیوں چلتا رہا۔ حتیٰ کہ حجازِ مقدس اور حرمین شریفین کو خلافتِ عثمانیہ سے چھڑانے کے لیے بھی آلِ سعود نے کئی جنگیں لڑیں جن میں سے ایک جنگ میں انہیں وقتی طور پر کامیابی بھی حاصل ہوئی کہ ایک موقع پر امیر سعود بن عبد العزیز نے حرمین شریفین پر قبضہ کر لیا جو بعد میں ترکوں نے چھڑا لیا۔
چنانچہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگوں میں مدد کے لیے امیر عبد العزیز بن محمدؒ نے برطانوی حکمرانوں سے روابط استوار کیے جس پر الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن جب ناراضگی کا کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا تو انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا۔ ڈاکٹر محمد المسعری کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے انگریزوں کے ساتھ آلِ سعود کے تعلقات مسلسل چلے آرہے ہیں۔ البتہ موجودہ صدی کے آغاز میں جب خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد آلِ سعود نے حرمین شریفین اور حجازِ مقدس کی حکومت سنبھالی تو سلطان عبد العزیز بن سعود مرحوم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ برطانوی استعمار مضمحل ہو رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا اور تازہ دم استعمار امریکہ کے نام سے ابھر رہا ہے تو انہوں نے امریکہ سے تعلقات استوار کر لیے۔ تب سے امریکہ اور آلِ سعود کے گرم جوش تعلقات کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈاکٹر محمد المسعری نے بتایا کہ کویت پر عراق کے حملہ سے پہلے تک سعودی عرب اور خلیج پر امریکی تسلط کی نوعیت اقتصادی تھی اور امریکہ اس خطہ کی اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہوئے انہیں اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق چلا رہا تھا۔ مگر کویت کا تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد امریکہ نے چند دیگر مغربی ممالک کو اپنے ساتھ شریک کرتے ہوئے خلیج عرب میں براہ راست فوجیں اتار دی ہیں۔ اب خلیج پر اقتصادی اور فوجی دونوں لحاظ سے امریکہ کا مکمل تسلط ہے اور خلیجی ممالک کی حیثیت بے بس غلاموں کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت خلیج میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی فوجوں کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے جو خلیج میں موجود ہے مگر پانچ لاکھ کے قریب قریب بالکل تیاری کی حالت میں ہیں جو مختصر نوٹس پر خلیج میں پہنچ سکتی ہیں اور اس فوج کے استعمال کے لیے ضروری اسلحہ کا ذخیرہ پہلے سے خلیجی ممالک میں جمع کر لیا گیا ہے۔ اتنی بڑی مسلح فوج کو صرف خلیج کے لیے وقف کر دینے کی سب سے بڑی غرض اسرائیل کا تحفظ و استحکام ہے۔ اور اس کے ساتھ اس کے اہم اہداف میں تیل کے چشموں پر قبضہ برقرار رکھنا، عربوں کی دولت اور تیل کا مسلسل استحصال، خلیج میں اس سارے سسٹم کا تحفظ کرنے والی کٹھ پتلی حکومتوں کی حفاظت اور اس کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکات اور دینی رجحانات کا راستہ روکنا بھی شامل ہے جو اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک کی شخصی آمریتوں کا تحفظ اور اسلامی رجحانات کی روک تھام امریکہ کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو ہر وقت تیار ہے۔
ڈاکٹر محمد المسعری نے سعودی عرب کے مجاہد رہنما الشیخ اسامہ بن لادن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ عظیم مجاہد ہیں جنہوں نے روسی استعمار کے خلاف مالی اور بدنی جہاد کیا اور اب وہ امریکی استعمار کے مقابلہ پر صف آرا ہیں۔ ان کا اخلاص، جذبۂ جہاد اور قربانی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وہ ہر وقت ان کی کامیابی و سلامتی کے لیے دعاگو رہتے ہیں، لیکن اس اس حوالہ سے دو باتیں کہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ امریکی استعمار اور مغربی ثقافت کے خلاف جنگ میں اصل مورچہ فکر و نظریہ اور عقیدہ و فلسفہ کا ہے اور بندوق کی حیثیت اس کے معاون کے طور پر ثانوی ہے۔ کیونکہ فکر و فلسفہ اور عقیدہ و نظریہ کے استحکام کے بغیر ہتھیار کی جنگ میں اگر کامیابی ہو بھی جائے تو وہ ناکامی میں بدل جایا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہتھیار کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہا بلکہ فکر و فلسفہ کی آبیاری اور ذہن سازی و تربیت کی ضرورت کا ذکر کر رہا ہوں کہ اسے فوقیت اور اولیت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے تقاضوں کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خلیج کی کشمکش میں اصل فریق آلِ سعود اور خلیج کی وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے امریکہ کو یہاں بلایا ہے اور اس کا تسلط قائم کرنے کا ذریعہ بنی ہیں۔ امریکہ ہمارا دشمن ہے اس میں کوئی شک نہیں، مگر امریکہ کو یہاں لانے والی حکومتیں اور ان کا سسٹم اس سے بھی زیادہ عرب عوام کا دشمن ہے۔ اور جب تک یہ حکومتیں اور ان کا نظام تبدیل نہیں ہوتا خلیج کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس لیے سب سے زیادہ ضرورت نظام کی تبدیلی اور قرآن و سنت کے واضح اصولوں پر مبنی مکمل شرعی نظام کے نفاذ کی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد ہی ہم کفر کے سیاسی، تہذیبی، اقتصادی اور فوجی تسلط سے نجات حاصل کر سکیں گے۔ ڈاکٹر المسعری نے کہا کہ یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی کسی اور شخصیت کو امریکہ دشمنی کے عنوان سے آگے لا کر اسامہ بن لادن اور دیگر مجاہدین کو مطمئن کرنے کی تدبیر ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ موجودہ سسٹم اور نظام کو بچانے کی چال ہوگی جس سے اسامہ بن لادن اور دیگر مشائخ اور علماء کو چوکنا رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہماری اصل جنگ نظام کی تبدیلی اور مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی جنگ ہے اور ہمیں اپنے اصل اہداف کو کسی حالت میں نگاہوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے بارے میں ڈاکٹر محمد المسعری کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم یہودی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی تھی اور اپنے قیام کے بعد سے اب تک وہی کام کر رہی ہے۔ اس لیے مسلمان ممالک کے اس میں شامل ہونے اور شامل رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا منشور اور چارٹر کفر کے قوانین پر مبنی ہے اور سیکولرازم کا علمبردار ہے جس کی قرآن و سنت کی رو سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ میں شمولیت کا مطلب یہودیت اور عالمی کفر کے ساتھ اتحاد ہے، اس لیے مسلم ممالک کو اقوام متحدہ سے الگ ہو کر اپنی الگ اقوام متحدہ تشکیل دینی چاہیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم ممالک کفر کے عالمی نظام میں شریک ہونے سے بچ جائیں گے اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ عالمی سطح پر توازن کی قوت ان کے ہاتھ میں آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت نے اقوام متحدہ میں شامل نہ ہو کر درست کیا ہے مگر ابھی اس سلسلہ میں ان کی پالیسی دوٹوک اور واضح نہیں ہے۔ انہیں کھلے طور پر کہہ دینا چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں شمولیت کے خواہشمند نہیں ہیں بلکہ حالات مناسب ہونے پر عالم اسلام کی الگ اقوام متحدہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس معاملہ میں طالبان تنہا نہیں ہوں گے بلکہ اس وقت بھی دنیا میں سویٹزرلینڈ ایک ایسا ملک ہے جو اقوام متحدہ کا رکن نہیں ہے۔ اور اگرچہ اقوام متحدہ کے بہت سے شعبوں کے دفاتر اور مراکز جنیوا میں ہیں جن سے سویٹزرلینڈ مالی مفادات حاصل کر رہا ہے لیکن خود سویٹزرلینڈ اقوام متحدہ کا رکن نہیں ہے اور اس سلسلہ میں سوئس حکومت کا موقف یہ ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کے منشور اور ڈھانچے سے اتفاق نہیں ہے اس لیے وہ اس میں باضابطہ طور پر شامل نہیں ہوں گے ۔
طالبان حکومت کے بارے میں ڈاکٹر المسعری نے کہا کہ طالبان مخلص لوگ ہیں، مجاہد ہیں اور ان کی حکومت ایک اسلامی حکومت ہے جس کی وہ حمایت کرتے ہیں اور اس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ لیکن طالبان کی حکومت کا نظام اور بہت سے اہم معاملات میں اس کی ترجیحات واضح نہیں ہیں جس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ طالبان کو اپنا نظام باقاعدہ طور پر تشکیل دینا چاہیے، اس کا اعلان کرنا چاہیے اور اس کے لیے عالم اسلام کے دانشوروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ طالبان نے اپنے داخلی نظام کی بنیاد فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری پر رکھی ہے مگر میرے خیال میں انہیں فتاویٰ عالمگیری کی بجائے اس کے مرتب کرنے والے حکمران سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کی پیروی کرنی چاہیے جنہوں نے اس وقت کے منتخب اربابِ علم و دانش کو جمع کر کے اس دور کے تقاضوں کے مطابق فتاوٰی عالمگیری کے نام سے ایک نظام مرتب کرایا اور اسے نافذ کیا۔ یہ ایک مسلم حکمران کی پہلی ذمہ داری ہے اور آج افغانستان کے امیر ملا محمد عمر کو یہی حیثیت حاصل ہے۔ انہیں سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کی طرح حاکمِ وقت کی حیثیت سے اربابِ علم و دانش کو جمع کرنا چاہیے اور فتاوٰی عالمگیری کی طرز پر آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق مکمل اسلامی نظام مرتب کرانا چاہیے۔
ڈاکٹر محمد المسعری نے کہا کہ میں ملا محمد عمر اور ان کے رفقاء کو دو باتوں کا مشورہ دوں گا۔ ایک یہ کہ اپنا دائرہ کار کسی ایک فقہی مذہب تک محدود نہ رکھیں بلکہ قرآن و سنت کو اصل سرچشمہ قرار دیتے ہوئے تمام فقہی مذاہب سے ضرورت کے مطابق استفادہ کریں۔ اور اصحابِ علم و فن سے استفادہ میں بخل سے کام نہ لیں بلکہ اگر کسی معاملہ میں غیر مسلم اہلِ فن کی ضرورت پڑ جائے تو ان سے استفادہ سے بھی گریز نہ کریں۔ اور دوسرا مشورہ یہ ہے کہ اپنی پہچان پر کسی ایک مسلک کی چھاپ نہ لگنے دیں، ان کا دیوبندی ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے اور انہیں اس پر فخر بھی ہونا چاہیے لیکن عالمی سطح پر ان کی پہچان اس حوالہ سے نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں انہیں دو مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں۔ سعودی حکومت نے اپنی پہچان سلفی اور وہابی تحریک کے حوالہ سے کرائی ہے اور ریاستی پالیسی کی ترجیحات میں اس کو نمایاں جگہ دی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ تمام تر کوششوں کے باوجود عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں کا اس درجے کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی جس کی وہ ہمیشہ خواہشمند رہی ہے۔ اسی طرح ایران نے کامیاب انقلاب کے بعد اپنی پہچان پر اثنا عشری چھاپ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی تمام تر دعوؤں اور تگ و دو کے باوجود عالم اسلام میں اپنی تنہائی اور اجنبیت کو کم نہیں کر سکا۔ طالبان کو اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس کا نہ صرف انہیں نقصان ہوگا بلکہ عالمی سطح پر نفاذِ اسلام کی جدوجہد اور اسلامی تحریکات کی حمایت میں وہ جو کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا کر سکتے ہیں وہ کمزور پڑ جائے گا۔ اس لیے طالبان کو اپنے فکر و عمل کا دائرہ وسیع رکھنا چاہیے تاکہ عالم اسلام کی اسلامی تحریکات کو ان سے رابطہ رکھنے اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہشمند مسلمان حکومت کو ان سے استفادہ کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ڈاکٹر محمد المسعری نے کہا کہ کارگل سے واپسی کے اسباب کچھ بھی ہوں مگر اس میں پاکستان کو سخت نقصان پہنچا ہے اور بی جے پی کو اس سے تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اگر بھارت کے انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کر لی تو انتخابات کے بعد پاکستان پر ایک اور وار ہوگا جس طرح کا وار ۱۹۷۰ء کے پاکستانی انتخابات کے بعد ہوا تھا۔ سندھ کے حالات درست نہیں ہیں اور ایم کیو ایم کے ساتھ حکومت کے تصادم سے حالات اسی رخ پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں جس رخ پر سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اگر دشمن اس میں کامیاب ہوگیا تو یہ عالم اسلام کا بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ کیونکہ یہ اب صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پاکستان کی بقا اور استحکام پورے عالم اسلام کی ضرورت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کارگل اور کشمیر کے حوالہ سے بھارت اور امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں پاکستان کی حکومت نے اس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی شدید ضرورت ہے اور ایک بہت بڑا موقع ضائع کر دیا ہے جس سے پاکستان کی ساکھ کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔ ڈاکٹر محمد المسعری نے کہا کہ پاکستان کے پاس بھارت سے معاملہ طے کرنے کے لیے خالصتان کا کارڈ موجود تھا جسے وہ اچھے طریقے سے استعمال کر سکتا تھا مگر سابقہ حکومت نے اسے برباد کر دیا۔ اس کے بعد کارگل کا کارڈ موجودہ حکومت نے ضائع کر دیا ہے جبکہ سندھ کا کارڈ بھارتی حکومت کے پاس بدستور موجود ہے۔
سعودی عرب کے جلا وطن اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر محمد المسعری کی تمام باتوں سے راقم الحروف کا اتفاق ضروری نہیں ہے مگر صحافتی اصولوں کا تقاضہ ہے کہ ان کی باتوں کو اسی طرح پیش کیا جائے جس طرح انہوں نے کہی ہیں یا جس طرح وہ انہیں پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔