تاجروں کی ہڑتال اور ٹیکسوں کی وصولی کے نئے نظام کے بارے میں عوامی تاثرات اور رجحانات کے حوالے سے کچھ گزارشات گزشتہ کالم میں پیش کی تھیں، آج اسی شعبہ زندگی کے بارے میں اسلامی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے چند معروضات پیش خدمت کی جا رہی ہیں۔
ٹیکس لگانا اور اسے وصول کرنا ہر حکومت کا حق سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نظام مملکت نہیں چل سکتا، لیکن اس سلسلہ میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو تا ہے:
- ایک یہ کہ ٹیکس عوام کی قوت برداشت سے باہر نہ ہو،
- اور دوسرا یہ کہ ٹیکس کے عوض حکومت پر عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس میں کوئی کوتاہی روا نہ رکھی جائے۔
ورنہ حکومت کے پاس ٹیکس وصول کرنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس سلسلہ میں اکثر اوقات یورپی ملکوں کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں کے تاجر، صنعتکار اور عوام اپنی حکومتوں کو بھاری ٹیکس دیتے ہیں، لیکن مثال دینے والے دوست ان سہولتوں کو بھول جاتے ہیں جو ان ممالک کی حکومتیں ان بھاری ٹیکسوں کے عوض اپنے عوام کو فراہم کرتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب عوام کو صحت، تعلیم، امن عامہ، صفائی، آمد رفت اور جان و مال کے تحفظ کے شعبوں میں سہولتیں حاصل ہوں گی اور وہ ان معاملات میں اپنی بہت سی ذمہ داریوں سے بھروسے اور اعتماد کے ساتھ سبکدوش ہو جائیں گے تو ان کا ٹیکس ادا کرنے کو بھی جی چاہے گا اور پھر ٹیکس نہ دینے اور سرکاری واجبات ادا نہ کرنے پر ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت کرے گا۔
اس سلسلہ میں ایک اسلامی روایت ہمارے سامنے ہے کہ فاتح مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو ایک مرحلہ پر مصر میں اپنے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی صورت پیش آئی تو یہ سوال سامنے آگیا کہ اس علاقہ کے غیر مسلم عوام سے جزیہ کے نام پر جو ٹیکس وصول کر رکھا ہے وہ تو ان کی جان و مال کے تحفظ کے عوض ہے جس کی ذمہ داری ہم یہاں سے چلے جانے کی صورت میں پوری نہیں کر سکیں گے، اس لیے اس ٹیکس کی رقم کا استعمال ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے علاقہ چھوڑنے سے پہلے تمام غیر مسلموں کو جمع کیا اور جزیہ کی رقم انہیں یہ کہہ کر واپس کر دی کہ چونکہ ہم تمہاری حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اس مقصد کے لیے تم سے لیا ہوا ٹیکس (جزیہ) تمہیں واپس کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کام صرف ٹیکس وصول کرنا نہیں ہے بلکہ ٹیکس کے عوض عوام کو وہ سہولتیں فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے جن کی فراہمی کے وعدہ پر عوام سے ٹیکس وصول کیے گئے ہیں۔ ورنہ حکومت ٹیکس وصول کرنے کے اخلاقی جواز سے محروم ہو جائے گی۔
اسی طرح یہ بھی اسلامی روایات کا حصہ ہے کہ جب بھی کسی مسلم مملکت پر کوئی مشکل وقت آیا تو اس کا حل ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی بجائے بے جا ٹیکسوں کو ختم کرنے اور عوام کو اس معاملہ میں سہولتیں فراہم کرنے کی صورت میں تلاش کیا گیا۔ اس سلسلہ میں دو تین تاریخی واقعات کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب امیر المومنین بنے تو قومی خزانے کا کم و بیش اسی فیصد حصہ مقتدر لوگوں کے قبضے میں تھا اور بیت المال خالی ہو چکا تھا۔ مگر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جہاں نادہندگان سے قومی خزانے کی رقوم اور اثاثے واپس لینے کی بے لچک پالیسی اختیار کی وہاں عوام پر عائد شدہ بے جا ٹیکس ختم کر دیے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول صفحہ ۳۷ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یمن کے حاکم نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو اطلاع دی کہ اگر ان کی ہدایات کے مطابق زمین کی پیداوار کا صرف شرعی حصہ وصول کیا جائے تو آمدنی بہت کم ہو جائے گی۔ اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے لکھا کہ فصل کے مطابق رقم وصول ہونی چاہیے خواہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ سارے یمن سے صرف ایک مٹھی غلہ وصول ہو، میں اس پر راضی ہوں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چنگی ساری مملکت سے معاف کر دی اور عمال کو لکھا کہ وہ نجس ہے، لوگوں نے نام بدل کر اس کو جائز بنا لیا ہے۔ چند شرعی محاصل کے علاوہ ہر طرح کے ناجائز محاصل اور بیسیوں ٹیکس جو سابق فرمانرواؤں اور عمال حکومت نے ایجاد کیے تھے، انہوں نے یکسر معاف کر دیے۔
اس طرح جب تاتاریوں کی یورش کے مقابلہ میں مسلمان حکومتیں لرزہ براندام تھیں اور تاتاری یلغار ہر طرف بڑھتی جا رہی تھی تو شام کے حکمران الملک الاشرف نے اس وقت کے سب سے بڑے عالم دین شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ سے اصلاح احوال کے لیے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ارکان سلطنت اور اہلکاران حکومت رنگ رلیاں منا رہے ہیں، شراب کے دور چل رہے ہیں، گناہوں کا ارتکاب ہو رہا ہے، نئے نئے محاصل اور ٹیکس مسلمانوں پر لگائے جا رہے ہیں، آپ کے لیے خدا کے حضور میں سب سے افضل عمل پیش کرنے کا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ان سب گندگیوں کو دور کریں۔ یہ نئے نئے ٹیکس بند کریں، تمام ظالمانہ کاروائیاں روک دیں اور اہل معاملہ کی داد رسی کریں۔ الملک الاشرف نے اسی وقت ان سب چیزوں کی ممانعت کے احکام جاری کیے۔
ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی غازی ظہیر الدین بابرؒ کے بارے میں بھی تاریخ میں آتا ہے کہ جب ہندؤں کے لشکر جرار کے مقابلہ میں بابر نے اپنے لشکر کی بے سروسامانی اور جوانوں کے چہروں پر اس کے اثرات دیکھے تو مولانا محمد حسین آزادؒ کے بقول ظہیر الدین بابرؒ نے قرآن کریم ہاتھ میں لے لیا، شراب سے توبہ کی، مسلمانوں کے سارے محصول معاف کر دیے، داڑھی منڈوانے سے توبہ کر لی، شراب خانے کو ڈھا کر وہاں مسجد تعمیر کرانے کا حکم دیا اور پھر اس عزم اور ایمان کے ساتھ میدان میں اترا کہ تعداد کی کمی او ربے سروسامانی کے باوجود اس نے کافروں کو شکست دے کر جنوبی ایشیا میں ایک عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔
چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ملکی معیشت کی اصلاح، ٹیکسوں کی وصولی اور دیگر ضروری امور کے بارے میں بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں، تجزیوں اور فارمولوں کا ضرور مطالعہ کریں لیکن اس کے ساتھ اس باب میں اسلامی روایات کے مطالعہ کے لیے بھی تھوڑا سا وقت نکال لیں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ رہنمائی کی اصل روشنی ہمیں یہیں سے حاصل ہوگی اور