سوڈان افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے جو ان دنوں امریکی عتاب کی زد میں ہے۔ سوڈان کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ دنوں دہشت گرد ملک قرار دے دیا ہے جس کے بعد اس کی اقتصادی ناکہ بندی کا مرحلہ آسان ہو گیا ہے۔ جبکہ خود امریکہ نے تقریباً دو ماہ قبل سوڈان میں اپنا سفارتخانہ بند کر کے عملہ واپس بلا لیا ہے۔ اور اب باقی ممالک کو سوڈان سے قطع تعلق کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۹ مارچ ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سوڈان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گزشتہ سال مصر کے صدر حسنی مبارک پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے ملزموں کو اس نے پناہ دے رکھی ہے اور وہ انہیں مصر کے حوالے نہیں کر رہا۔ جبکہ سوڈانی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ ملزم سرے سے سوڈان میں موجود ہی نہیں ہیں۔
مگر واقفِ حال حضرات کا کہنا ہے کہ اصل قصہ یہ نہیں ہے بلکہ تقریباً ۷ سال قبل جنرل عمر حسن البشیر کی قیادت میں رونما ہونے والے انقلاب کے بعد انقلابی حکومت کی پالیسیاں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی ناراضگی کا اصل باعث ہیں۔ یہ انقلاب جس کی فکری قیادت اسلامک فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر حسن ترابی کے ہاتھ میں ہے، سوڈان میں بتدریج اسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشی خود کفالت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیشہ قحط کی کیفیت سے دوچار رہنے والا سوڈان انقلابی حکومت کی زرعی پالیسی اور سوڈانی عوام کی محنت کی بدولت گندم برآمد کرنے والے ممالک میں شمار ہونے لگا ہے۔ اور اس کے ساتھ ملک میں شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کا سلسلہ بھی شور مچائے بغیر خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔
یہ بات امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہے اور مصر جیسے وفادار ملک کے پڑوس میں معاشی طور پر خود کفیل اسلامی نظریاتی ریاست کا وجود مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے لیے کباب کی ہڈی بنتا نظر آ رہا ہے۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے سوڈان کو دہشت گرد ملک قرار دلوا کر اسے اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت سوڈانی بھائیوں کو آزمائش کے اس مرحلہ میں استقامت اور باوقار سرخروئی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔