چند ماہ قبل کچھ دوست گوجرانوالہ کے شہریوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے جناب ایس اے حمید کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے تو اس بات پر مشورہ ہوا کہ شہریوں کی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا فورم تشکیل دیاجائے جو سیاسی گروہ بندی، برادری ازم اور انتخابی جھمیلوں سے الگ تھلک رہتے ہوئے خالصتاً شہری بنیادوں پر لوگوں کی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے کوشش کر سکے۔ اس کا ذکر اس کالم میں اس سے قبل بھی کرچکاہوں۔ اس موقع پر یہ طے ہو گیا کہ یہ فورم سیاسی گروہ بندیوں، فرقہ وارانہ ترجیحات، انتخابی کشمکش اور برادری ازم سے ہٹ کر ہوگا، اس کے لیے شہر کے تمام طبقوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور شہریوں کو درپیش اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بلاتفریق جدوجہد کی جائے گی۔ مگر فورم کے نام پر اختلاف رائے موجود تھا، جناب ایس اے حمید اور ان کے بعض دوستوں کا خیال تھا کہ یہ فورم ’’گوجرانوالہ بچاؤ تحریک‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے کیونکہ شہر کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے جو مزید بگڑتی جارہی ہے، شہر کا حال یہ ہے کہ تھوڑی سی بارش کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا اور گلیاں اور سٹرکیں جوھڑ بن جاتی ہیں، نیز شہر کی آمدنی اور وسائل شہر پر خرچ نہیں ہو رہے، اس لیے اس جدوجہد کو ’’گوجرانوالہ بچاؤ تحریک‘‘ کا نام دیناضروری ہے۔
میری رائے یہ تھی کہ ’’بچاؤ‘‘ میں کسی حد تک منفی تاثر پایا جاتا ہے اس لیے اس کی بجائے ’’گوجرانوالہ بناؤ تحریک‘‘ کے عنوان سے کام شروع کیا جائے اس میں ’’بچاؤ‘‘ کا پہلو بھی موجود ہوگا اور اس کے بعد شہر کی تعمیر وترقی کے لیے کام کا تصور بھی اس کا حصہ ہوگا۔ تھوڑی بہت بحث وتمحیص کے بعد دوستوں نے میری رائے قبول کرلی اور شرکاء محفل نے جن میں بعض سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، ایوان صنعت و تجارت، مرکزی انجمن تاجران اور ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندگان اور بعض کونسلر حضرات بھی شریک تھے ،شہری مسائل کے لیے ’’گوجرانوالہ بناؤ تحریک‘‘ کے نام سے کام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کا اخبارات میں اعلان کر دیا۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ شہر کے مسائل کا ایک بار تفصیلی جائزہ لے کر ’’بریفنگ رپورٹ‘‘ مرتب کی جائے تاکہ متعلقہ محکموں اور حضرات سے اس بنیاد پر مسائل و مشکلات کے حوالے سے بات کی جائے اور رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ مگر ہم ابھی روایتی سست روی کے ساتھ اس بارے میں سوچ بچار ہی کر رہے تھے کہ ’’بناؤ‘‘ کی بجائے ’’بچاؤ‘‘ کے پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت پیش آگئی۔ وہ اس طرح کہ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ شہر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا جس کے تحت گوجرانوالہ شہر کو چار حصوں میں بانٹ کر چاروں حصوں کو نئے نام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے:
- شہر کا ایک حصہ گیارہ میل دور واقع قصبہ قلعہ دیدار سنگھ کے ساتھ ملحق ہو کر اب ’’قلعہ دیدار سنگھ ٹاؤن‘‘کہلائے گا۔
- دوسرا حصہ شہر سے سیالکوٹ کی جانب دس میل دور واقع بستی سے منسوب ہو کر ’’نندی پور ٹاؤن‘‘ کہلائے گا۔
- تیسرا حصہ اسی روڈ پر شہر سے باہر واقع بستی اروپ کے نام سے ’’اروپ ٹاؤن‘‘ ہوگا۔
- چوتھا حصہ شہر کے ایک نواحی محلہ کے نام سے ’’کھیالی ٹاؤن’’ پکارا جائے گا۔
گویا گوجرانوالہ شہر کی تاریخی اور روایتی حیثیت اس طرح ختم ہوجائے گی کہ گوجرانوالہ شہر کے عنوان سے اس کا کوئی تعارف باقی نہیں رہے گا اور یہ تعارف شہر کی بجائے اب ڈسٹرکٹ کے نام سے ہوگا جس میں شہر کا کوئی امتیاز موجود نہیں رہے گا۔ اس آرڈر کے بعد ’’گوجرانوالہ بناؤ تحریک‘‘ کے دوست ایک بار پھر جناب ایس اے حمید کی رہائش گاہ پر مجتمع ہوئے اور صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لیا اور اس بار ایس اے حمید کا استدلال غالب رہا کہ ’’بناؤ‘‘ کی بات تو بعد میں ہوگی ابھی ’’بچاؤ‘‘ کا مرحلہ درپیش ہے کہ ان کے بقول حکمران مسلم لیگ کی سیاسی اغراض اور چند سیاسی خاندانوں کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’’گوجرانوالہ شہر‘‘ کی جداگانہ شناخت ختم کی جارہی ہے۔ چنانچہ طے پایا کہ اس سلسلے میں ’’گوجرانوالہ بچاؤ تحریک‘‘ کے نام سے ہی آواز اٹھائی جائے اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکٹھایا جائے تاکہ شہر اور شہریوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا راستہ روکا جاسکے۔
چنانچہ ہائی کورٹ میں جانے کی تیاری جاری ہے اور راقم الحروف نے اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب چودھری پرویز الٰہی کو ایک عریضہ ارسال کیا ہے جس میں گوجرانوالہ شہر کی اس تقسیم کے حوالے سے اپنے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے ان سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔ خط کا متن اس امید کے ساتھ قارئین کے خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ انصاف پسند دوست گوجرانوالہ کے شہریوں کو اس ناانصافی سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔
بگرامی خدمت محترم المقام چودھری پرویز الٰہی صاحب، وزیر اعلیٰ پنجاب، لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی!
گزارش ہے کہ گوجرانوالہ شہر کو چار ٹاؤنز میں تقسیم کرنے سے جو صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتاہوں:
- اس تاریخی شہر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے نواحی قصبوں اور بستیوں قلعہ دیدار سنگھ، اروپ، نندی پور اور کھیالی کے ناموں سے منسوب کر دیا گیا ہے جس سے ’’گوجرانوالہ شہر‘‘ کی حیثیت سے اس کی تاریخی شناخت ختم ہوگئی ہے۔
- اس فیصلے میں شہر کے مختلف طبقوں کی نمائندگی کرنے والوں مثلاً دینی وسیاسی جماعتوں، ایوان صنعت وتجارت، قومی، صوبائی اور بلدیاتی سطح کے منتخب عوامی نمائندوں، تجارتی انجمنوں، پیشہ وارانہ تنظیموں، بار ایسوسی ایشن اور سماجی اداروں میں سے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یکطرفہ طور پر عوامی رائے معلوم کیے بغیر اسے مسلط کر دیا گیا ہے۔
- گوجرانوالہ شہر کی گلیوں، سٹرکوں، صفائی، سیوریج سسٹم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگر ضروریات کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے جس کے بارے میں عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے شہر کے وسائل اور آمدنی شہر کی ضروریات کی بجائے دوسرے علاقوں میں خرچ ہو رہے ہیں۔ اس تقسیم سے یہ تاثر زیادہ گہرا ہوگا جس سے شہری اور دیہاتی کی تفریق کو تقویت حاصل ہوگی اور پبلک اتحاد متاثر ہوگا۔
- انتہائی زیادتی کی بات یہ ہوئی ہے کہ شہر کی تقسیم کا آرڈر بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے ساتھ جاری کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں اطمینان سے سوچنے، مختلف طبقوں کو باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی لائحہ عمل طے کرنے اور اس پر مؤثر احتجاج کا موقع نہ مل سکے۔
میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ اس فیصلے پر فوری طور پر نظر ثانی کی جائے اور شہر کے مستقبل کا فیصلہ شہر کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر ازسرِنو کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور گوجرانوالہ کے شہری جو پہلے ہی شہر ی مسائل اور ضروریات کے حوالے سے مظلوم ہیں مزید ظلم سے محفوظ رہ سکیں۔
شکریہ ! والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ