چکوال پولیس، مدنی مسجد اور جنرل (ر) عبد المجید ملک

   
۳۱ اکتوبر ۱۹۹۸ء

گزشتہ دنوں دارالعلوم حنفیہ چکوال میں سلسلہ نقشبندیہ حبیبیہ کے سالانہ روحانی اجتماع میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا تو اس موقع پر تھوڑی دیر کے لیے ہم مدنی مسجد میں بھی گئے جو ان دنوں چکوال پولیس کے ایک آپریشن کی وجہ سے خاصی شہرت اختیار کر گئی ہے۔ اسلام آباد کے علماء مولانا عبد الخالق، مولانا قاری میاں محمد نقشبندی اور مولانا محمد رمضان علوی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم نے مدنی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی، چکوال پولیس کی ’’فتوحات‘‘ کا معائنہ کیا اور وہاں موجود احباب سے حالات معلوم کیے۔

مدنی مسجد چکوال کے خطیب بزرگ عالم دین مولانا قاضی مظہر حسین ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے پرانے فضلاء میں سے ہیں، حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے خلیفہ مجاز ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے مسجد کی خطابت اور دینی درسگاہ کی سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی عمر پچاسی برس کے لگ بھگ ہے اور وہ ایک دینی جماعت ’’تحریک خدام اہل سنت پاکستان‘‘ کے بانی و امیر ہیں، اہل سنت کے عقائد کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں لیکن امن اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے انتظامیہ سے ہرممکن تعاون کرتے ہیں اور تشدد اور لاقانونیت سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہیں ان کے دیگر رفقاء کے ہمراہ چکوال کے ڈی ایس پی چوہدری محمد یوسف مرحوم کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور وہ تادم تحریر جیل میں ہیں۔ جبکہ پولیس نے ان کی گرفتاری کے موقع پر مدنی مسجد اور اس کے ساتھ ملحقہ دو دینی مدارس مدرسہ اظہار الاسلام اور مدرسہ تعلیم النساء کو جس افسوسناک اور شرمناک انداز میں کاروائی کا نشانہ بنایا وہ ایک مستقل داستان ہے جس کے کچھ حصے کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔

اس سلسلہ میں سرکاری موقف یہ ہے کہ چکوال کے غربی محلہ میں منعقد ہونے والی ایک محفل قوالی پر مولانا قاضی مظہر حسین کے رفقاء نے ان کے کہنے پر حملہ کیا اور اس موقع پر فائرنگ کی جس سے ڈی ایس پی چوہدری محمد یوسف جاں بحق ہوگئے اور انہیں قاضی صاحب موصوف کے نواسے ضیاء الحسن نے گولی ماری۔ جبکہ قاضی صاحب کے رفقاء کا موقف یہ ہے کہ اس واقعہ کے ساتھ قاضی صاحب کا تعلق صرف اتنا ہے کہ محفل قوالی سے قبل اس محلہ کے کچھ حضرات ان سے ملے کہ اس محفل کے انعقاد پر محلہ کے لوگوں کو اعتراض ہے اور جھگڑے کا خدشہ ہے اس لیے وہ انتظامیہ سے بات کریں کہ یہ محفل منعقد نہ ہونے دی جائے۔ قاضی صاحب نے انتظامیہ سے بات کی اور ذمہ دار افسران نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اس محفل کو رکوا دیں گے۔ اس سے زیادہ اس واقعہ کے ساتھ مولانا قاضی مظہر حسین کا ان کے رفقاء کے بقول کوئی تعلق نہیں۔ اور وقوعہ کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ محفل کا انعقاد ہوا جس پر اسی محلہ کے دو گروہوں میں جھگڑا ہوا اور پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے مجمع کو منتشر کر دیا۔ اس موقع پر کوئی فائرنگ نہیں ہوئی البتہ مجمع کے منتشر ہونے کے پندرہ بیس منٹ بعد صرف ایک گولی چلی جس سے ڈی ایس پی مذکورہ جاں بحق ہوگئے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ گولی چار فٹ کے فاصلے سے چلائی گئی اور ایک ہی گولی لگی ہے۔ چوہدری محمد یوسف مرحوم کے بارے میں قاضی صاحب کے رفقاء کا موقف یہ ہے کہ وہ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، جمعہ اکثر قاضی صاحب کے پیچھے پڑھتے تھے، اس روز چھٹی پر تھے اور محفل میں سول کپڑوں میں شریک تھے اور ان کے ساتھ مولانا قاضی مظہر حسین یا ان کے کسی ساتھی کا کسی نوعیت کا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔

قاضی صاحب کے بائیس سالہ نواسے ضیاء الحسن کے بارے میں ایف آئی آر میں درج ہے کہ ڈی ایس پی مرحوم کو اس نے گولی ماری اور اے سی صاحب کے بقول اسے موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ مگر قاضی صاحب کے رفقاء کا کہنا ہے کہ وہ سرے سے اس محفل میں شریک ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسے وہاں سے گرفتار کیا گیا ہے بلکہ اسے صبح نماز فجر کے بعد قاضی مظہر حسین صاحب کے کمرہ سے پکڑا گیا جہاں وہ رات کو اپنے نانا کے پاس سویا تھا۔

ان دونوں میں سے کون سا موقف درست ہے اس کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن اس حوالہ سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ چکوال پولیس نے مولانا قاضی مظہر حسین اور ان کے رفقاء کی گرفتاری کے لیے صبح نماز فجر کے وقت جو آپریشن کیا وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ ہم نے مدنی مسجد اور مدرسہ اظہار الاسلام میں پولیس کاروائی کی جو نشانیاں خود دیکھی ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر شاید نامناسب نہ ہو۔ مسجد کے پنکھے توڑے گئے ہیں، چندہ کا گلہ توڑ کر پیسے نکالے گئے ہیں، مسجد کے اندرونی ہال میں چھت پر جانے والا دروازہ توڑ دیا گیا ہے، بچوں کو قرآن کریم پڑھانے والے قاری صاحبان کے ڈیسک توڑ کر ان میں سے پیسے اور رجسٹر نکال لیے گئے ہیں، مسجد کی بتیاں توڑی گئی ہیں، مدرسہ کے صحن میں کھڑی تحریک خدام اہل سنت کی ویگن کے شیشے توڑے گئے ہیں، مدرسہ کے دفتر میں ڈیسک توڑ کر رقوم اور ریکارڈ نکال لیا گیا ہے، کتابوں کی الماریاں توڑی گئی ہیں، معصوم بچوں کا سامان او رکتابیں اٹھا کر پھینک دی گئی ہیں اور مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جن کی اکثریت چودہ سال سے کم عمر بچوں پر مشتل ہے گرفتار کیا گیا اور ان میں سے بڑے طلبہ کی چھانٹی کر کے انہیں تھانے میں روک لیا گیا جبکہ آٹھ سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو چکوال سے بیس کلومیٹر بھیس چوک میں ننگے پاؤں چھوڑ دیا گیا۔ بھیس نامی بستی اس چوک سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،بھیس سے تعلق رکھنے والے حاجی افتخار احمد صاحب نے بتایا کہ انہیں مدنی مسجد پر پولیس کے آپریشن کی اطلاع صبح آٹھ بجے فون پر ملی اور وہاں سے حالات معلوم کرنے کے لیے شہر کی طرف روانہ ہوئے تو بھیس چوک میں انہوں نے دیکھا کہ ایک سو کے لگ بھگ معصوم بچے ننگے پاؤں پیدل بھیس کی طرف آرہے ہیں، ان کے قریب ہو کر معلوم کیا تو وہ مدنی مسجد کے طالب علم تھے جنہیں وہ اپنے ساتھ بھیس لے گئے۔

اس کے علاوہ پولیس مدرسہ تعلیم النساء کا دروازہ توڑ کر اس میں داخل ہوئی جس میں تقریباً ساڑھے تین سو طالبات رہائش پذیر ہیں، بچیوں کو تھپڑ مارے گئے اور انہیں تلاشی لینے کے علاوہ خوفزدہ اور ہراساں کیا گیا۔ چکوال پولیس کے اس تشدد آمیز اور افسوسناک طرزعمل کے نتیجے میں یہ دونوں مدرسے بند ہوگئے ہیں جہاں طلبہ اور طالبات خوف و ہراس کی وجہ سےا پنے گھروں میں جا چکے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ سردست منقطع ہے۔ سچی بات ہے کہ مدنی مسجد اور مدرسہ اظہار الاسلام میں ٹوٹی ہوئی الماریاں، ڈیسک، دروازے اور ادھر ادھر بکھرا ہوا سامان دیکھ کر یوں لگا جیسے ہم مسلمان ملک میں نہیں بلکہ افریقہ کے کسی جنگل میں کھڑے ہیں جہاں کسی وحشی قبیلے نے دشمن قبیلے پر قابو پا کر انتقام اور نفرت کے جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کی ہے۔

چکوال وفاقی وزیر امور کشمیر جنرل (ر) عبد المجید ملک صاحب کا انتخابی حلقہ ہے جو اپنی سنجیدگی اور سماجی خدمات کے باعث احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، مولانا قاضی مظہر حسین ان کے سیاسی معاونین میں سے ہیں، گزشتہ انتخابات میں قاضی صاحب نے ان کی حمایت کی اور اہتمام کے ساتھ اپنے حلقہ کے ووٹ انہیں دلوائے۔ حتیٰ کہ بلدیاتی الیکشن کے موقع پر قاضی صاحب کے رفقاء کو جنرل مجید ملک سے یہ شکایت پیدا ہوئی کہ امیدواروں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے اس لیے قاضی صاحب کے بعض پرجوش عقیدت مندوں نے کچھ حلقوں میں جنرل صاحب کے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی تیاری کر لی مگر قاضی صاحب نے انہیں سختی کے ساتھ اس کام سے روکا اور جنرل صاحب کے امیدواروں کی مکمل حمایت کی۔ مگر جنرل مجید ملک صاحب کے حلقہ میں یہ سب ہوا اور ان کی موجودگی میں ہوا کیونکہ یہ بات کنفرم ہے کہ موصوف اس دن چکوال میں تھے اور صبح کے واقعہ کے بعد کچھ حضرات ان سے ملے اور انہیں ساری صورتحال بتائی جس پر انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ کوشش کریں گے کہ ایف آئی آر میں مولانا قاضی مظہر حسین کا نام نہ آئے۔ لیکن اس کے باوجود پچاسی سالہ قاضی مظہر حسین صاحب کو قتل کا ملزم ٹھہرایا گیا اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اب یہ وضاحت کرنا جنرل عبد المجید ملک صاحب کے ذمہ ہے کہ چکوال پولیس نے اس ساری کاروائی کے دوران انہیں اندھیرے میں رکھا اور انہیں بتائے بغیر سارے مراحل ازخود طے کر لیے یا سب کچھ ان کے علم میں تھا اور بعض حلقوں کے بقول وہ خود اس ساری کاروائی کی نگرانی کرتے رہے۔

بہرحال مدنی مسجد چکوال میں دو ہفتے قبل ہونے والے پولیس آپریشن کے حوالہ سے اپنے مشاہدات اور تاثرات ہم نے عرض کر دیے ہیں۔ ہمیں ڈی ایس پی چوہدری محمد یوسف مرحوم کے قتل پر انتہائی افسوس ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہوئے ان کے قاتلوں کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ مدنی مسجد اور مدرسہ اظہار الاسلام کے طلبہ اور طالبات پر پولیس کا تشدد اور توڑپھوڑ بھی ہمارے نزدیک اسی طرح افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور ہم تحریک خدام اہل سنت کے اس مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں کہ ہائیکورٹ کے جج کے ذریعے ان تمام واقعات کی کھلی عدالتی تحقیقات کرائی جائے تاکہ چوہدری محمد یوسف مرحوم کے قتل کے ملزم بے نقاب ہوں اور مسجد و مدرسہ کی بے حرمتی کے ملازم بھی سامنے آئیں۔ ہمیں امید ہے کہ جنرل (ر) عبد المجید ملک اس مطالبہ کی حمایت کریں گے اور اسے منظور کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے کیونکہ اگر وہ خود اس کاروائی کے محرک نہیں ہیں تو ان کے اپنے دامن کی صفائی کا بھی اس کے سوا اور کوئی باوقار طریقہ نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter