قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک حالیہ مضمون میں موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت آرڈیننس اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے معاملات پر بھی بحث کی ہے۔ محترمہ کا موقف ہے کہ پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینا چاہئیں بلکہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ جبکہ ہماری معلومات کے مطابق خود حکومت پاکستان نے بھی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اس کے لیے حالات کو سازگار بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ مگر دینی اور قومی نقطۂ نظر سے یہ موقف درست نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس معاملہ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اسلام اور پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کرنے کی بجائے عالمی استعمار کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کیونکہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کا اصولی مطلب ایٹمی پروگرام پر عالمی اداروں کی نگرانی اور کنٹرول کو قبول کرنا ہے۔ وہ عالمی ادارے جو اقوام متحدہ کے ٹائٹل کے ساتھ صرف اور صرف امریکی مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور انہیں دنیا پر امریکہ کی چودھراہٹ مسلط کرنے اور اس کے نیو ورلڈ آرڈر کی عملداری کے سوا اور کسی بات سے دلچسپی نہیں ہے، اس لیے کوئی باشعور مسلمان اور محب وطن پاکستانی اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے (افغان) طالبان کے اسلامی اقدامات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے حالیہ اقدامات پر بھی نکتہ چینی کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ:
’’پاکستان ایک مسلم ریاست ہے جو اعتدال پسند ملکوں کے جھرمٹ میں ہے، یہ جھرمٹ بحر اوقیانوس میں انڈونیشیا سے شروع ہو کر ملیشیا، بنگلہ دیش، ترکی، اردن اور مصر سے ہوتا ہوا بحر الکاہل کے ساحلوں پر مراکش میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ مالاکنڈ میں ایک چھوٹی سی چنگاری جنگل کی آگ کی طرح درہ خنجراب سے ہوتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ تک پھیل سکتی ہے۔ طالبان برانڈ طرز زندگی کا رائے ونڈ کے جنوب میں کوئی وجود نہیں۔ یہ تنگ نظری اور متعصبانہ نظام اس دھرتی کے لیے قابل قبول نہیں ہے جہاں اسلام کا پیغام صوفیوں اور اولیاء کے ذریعے پھیلا ہے جن کے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہوئے نغمے حضرت فرید گنج شکرؒ کے مزار، ملتان کی خانقاہوں، اوچ شریف، شاہ عبد اللطیفؒ بھٹائی، سچل سرمستؒ اور لال شہباز قلندرؒ کے مزاروں پر گائے اور سنے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک کثیر الاقساط معاشرہ ہے جو ایران اور افغانستان کی صورتحال سے مختلف ہے جہاں یک رنگی پائی جاتی ہے۔ ایک خاص متعصبانہ نظام قائم کرنے کی کوشش سے جنوبی پاکستان شمالی پاکستان سے جدا ہو جائے گا۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۷ فروری ۱۹۹۹ء)
محترمہ بے نظیر بھٹو اچھی طرح جانتی ہیں کہ مالاکنڈ میں شرعی قوانین کے نفاذ کا جو ڈھانچہ دیا گیا ہے وہ مروجہ نو آبادیاتی سسٹم کے نیٹ ورک کے اندر ہے اس لیے اس سے ملک میں طالبان طرز کے اسلامی انقلاب یا تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ چھوٹے سے چھوٹے امکان کو بھی نظرانداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور انہوں نے اس ’’چنگاری‘‘ کو جس طرح ’’شعلہ جوالہ‘‘ بنا کر پیش کیا ہے اس کی روشنی میں ملک کے حکمران طبقات کی سوچ کے ساتھ ساتھ ان کی آئندہ عزائم کی جھلک اور جنوبی پاکستان میں سرائیکی، سندھی، مہاجر اور بلوچی قومیتوں کے نام پر اٹھائے جانے والے طوفان کے اصل رخ کا بھی بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جس فکر و دانش کی نمائندگی کر رہی ہیں اس کے نزدیک سوسائٹی میں اسلامی احکام و قوانین کی پابندی کا اہتمام اور اس میں ریاستی اداروں کا کردار ’’تعصب‘‘ کہلاتا ہے اور قرآن و سنت کے قواعد و ضوابط سے آزاد معاشرہ اور اسلام کی بجائے مغربی فلسفہ و نظام کی نمائندگی کرنے والے ریاستی ادارے ’’اعتدال پسند‘‘ کے میڈل کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ منطق نئی نہیں بلکہ گزشتہ تین سو برس سے مغرب ہمیں یہی سبق پڑھانے میں مصروف ہے اس لیے ہمیں ان کی طرف سے مغرب کی ترجمانی پر کوئی تعجب نہیں ہے۔ البتہ اس ترجمانی اور نمائندگی میں صوفیائے کرامؒ اور اولیائے عظامؒ کو بلاوجہ گھسیٹنا اور انہیں ’’فری سوسائٹی‘‘ کے علمبردار کے طور پر پیش کرنا سراسر زیادتی ہے۔ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ، شاہ عبد اللطیفؒ بھٹائی، لال شہباز قلندر اور دیگر صوفیائے کرام ہماری تاریخ کا قابل فخر سرمایہ ہیں مگر ان کا میدان غیر مسلم معاشرہ کو اسلام سے متعارف کرانے، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے اور فرد کی بحیثیت فرد اصلاح کا میدان تھا۔ اس کے تقاضے وہی تھے جو انہوں نے کمال حکمت و تدبیر سے پورے کیے اور اس میدان میں آج بھی ان کی تعلیمات اور اسوہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مگر ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل، اسلامی ریاست کا قیام اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا میدان اس سے مختلف ہے، اس کے تقاضے اس سے بالکل الگ ہیں اور اس کے قائدین بھی قطعی طور پر مختلف بزرگ ہیں۔ یہ میدان حضرت عمر بن الخطابؓ، عمر بن عبد العزیزؒ اور اورنگزیب عالمگیرؒ کا میدان ہے اور اس میں انہی کی راہنمائی کام آئے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے گزارش ہے کہ وہ معاملات کو گڈمڈ نہ کریں اور فوج کے کمانڈر کو عدالت کا جج اور پولیس کے افسر کو ڈپلومیٹ اور سفارتکار بنانے کی کوشش نہ کریں کہ یہ فطرت اور انصاف کے تقاضوں سے انحراف اور اسلام کے اجتماعی کردار سے بغاوت ہے۔