دینی، علمی اور جماعتی حلقوں کے لیے یہ خبر انتہائی صدمہ کا باعث ہوگی کہ آزاد کشمیر کے بزرگ اور مقتدر عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب (تاریخ وفات: ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء) فاضل دیوبند طویل علالت کے بعد گزشتہ جمعہ کے روز راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مفتی صاحب مرحوم آزاد کشمیر کے علاقہ تھب تحصیل باغ کے رہنے والے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالمی کے ہم سبق تھے۔ متبحر عالم، نکتہ رس مفتی اور نیک دل بزرگ تھے۔ آزاد کشمیر میں سرکاری طور پر افتاء کا محکمہ قائم ہوا تو مفتی صاحب مرحوم اس سے منسلک ہو گئے اور ایک عرصہ تک ضلع مفتی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
تحریک آزادیٔ کشمیر میں سرگرمی کے ساتھ دلچسپی رکھتے تھے اور مختلف مراحل میں آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں عملاً شریک رہے۔ آزاد کشمیر کے قیام کے بعد وہاں کے علماء نے ریاست میں اسلامی قوانین کے اجراء ونفاذ کے لیے جو نتیجہ خیز جدوجہد کی، اس میں مرحوم پیش پیش رہے اور وہ بھی ان قائدین میں شامل تھے جن کی قیادت میں آزاد کشمیر میں رسوائے زمانہ عائلی قوانین کے خلاف جدوجہد کی گئی۔
مفتی صاحب مرحوم حضرت الشیخ مدنی نور اللہ مرقدہ کے تلمیذ ہونے کے ساتھ ان کے سیاسی افکار اور جدوجہد کے بھی امین تھے اور آزاد کشمیر میں جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی تشکیل وتنظیم میں اس جذبہ کے ساتھ تمام عمر سرگرم عمل رہے۔ سرکاری ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے اس جذبہ میں کسی دور میں بھی نرمی یا جھجھک محسوس نہیں کی گئی اور بلاشبہ وہ ان گنے چنے بزرگوں میں شامل ہیں جن کی ذاتی توجہات اور شخصی اثر ورسوخ کو جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی تنظیم وتشکیل میں بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل رہی ہے۔
راقم الحروف کو گزشتہ آٹھ دس برس سے آزاد کشمیر کے دینی وجماعتی اجتماعات میں مسلسل شرکت کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مفتی صاحب مرحوم علالت، کمزوری اور مصروفیات کی پرواہ کیے بغیر جوانوں سے زیادہ حوصلہ کے ساتھ جماعتی کاموں میں حصہ لیتے رہے اور ان کا حوصلہ وعزم ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے بھی قابل رشک رہا۔
مولانا مفتی عبد المتین مرحوم آزاد کشمیر کے متعدد دینی مدارس کی سرپرستی فرماتے تھے۔ راولا کوٹ، نعمان پورہ اور باغ کے مدارس کے ساتھ ان کا سرپرستی اور معاونت کا تعلق بار بار دیکھنے میں آتا رہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے گاؤں تھب میں مدرسہ امداد الاسلام کے نام سے تعلیم قرآن کا ایک مدرسہ قائم کیا جس کی افتتاحی تقریب اور اس کے بعد سالانہ تقریبات میں مجھے بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔
مرحوم نے متعدد شادیاں کیں مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہے، لیکن ان کے بھائی عبد الحئی صاحب اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے باوجود دینی ذوق کے حامل ہیں اور ان سے بجا طور پر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ حضرت مفتی صاحب کی دینی روایات بالخصوص ان کے قائم کردہ مدرسہ امداد الاسلام تھب کی بقا وترقی کے لیے موثر خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔
مفتی صاحب مرحوم کچھ عرصہ سے علیل تھے۔ مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ گزشتہ ماہ مظفر آباد میں جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کے مرکزی کنونشن کے موقع پر مجھے سی ایم ایچ مظفر آباد میں ان کی خدمت میں حاضری اور عیادت کی سعادت حاصل ہوئی۔ علالت اور کمزوری کے باوجود حسب سابق تپاک سے ملے۔ جماعتی خلفشار اور بعض حضرات کے رویہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ حضرت درخواستی مدظلہ اور حضرت والد محترم مدظلہ کی خیریت دریافت کرتے رہے۔ مظفر آباد سے انھیں راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لایا گیا جہاں وہ گزشتہ جمعہ کے روز خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
نماز جنازہ تھب میں ہفتہ کے روز آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین، جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کے سربراہ اور مفتی صاحب مرحوم کے ہم سبق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خاں مدظلہ العالی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں آزاد کشمیر کے سرکردہ علماء، جمعیۃ کے راہ نماوں اور ہزاروں دیگر مسلمانوں نے شرکت کی اور نماز جنازہ کے بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سربراہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم، ناظم عمومی حضرت مولانا عبید اللہ انوردامت برکاتہم، حضرت مولانا محمد اجمل خان صاحب اور حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صاحب مدظلہ نے اپنے تعزیتی پیغامات میں حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے اور ان کی دینی وقومی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین