یہ خبر ملک بھر کے دینی، علمی اور مسلکی حلقوں میں انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ اہل سنت کے نامور محقق اور درویش صفت بزرگ عالم دین حضرت مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی کا گزشتہ روز انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق میانوالی کے علاقہ بَن حافظ جی سے تھا اور وہ جامعہ نصرۃ العلوم کے پرانے فضلاء میں سے تھے۔ میں جب مدرسہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی تعلیم کے لیے داخل ہوا تو حافظ مہر محمد ؒ بڑی کلاسوں میں تھے جبکہ ان کے بھائی مولانا حافظ شیر محمد بھی بعد میں آگئے اور وہ میرے مختلف کتابوں میں ہم سبق رہے ہیں۔ ترجمہ قران کریم میں حضرت حافظ صاحب مرحوم کے ساتھ بھی میری رفاقت رہی ہے۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور یہ دونوں بزرگ بھی ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ حافظ صاحب محترمؒ مدرسہ نصرۃ العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی چلے گئے اور محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اہل سنت کے عقائد کی وضاحت اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس و وقار کا تحفظ ان کا خصوصی موضوع تھا اور انہوں نے عدالت صحابہؓ پر جو وقیع مقالہ تحریر کیا، اس سے انہیں پورے ملک میں اس حوالہ سے تعارف حاصل ہوا، جس کے بعد وہ اس میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرکز دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کے ترجمان ماہنامہ ’’تعلیم القرآن‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی کچھ عرصہ سر انجام دیے۔ اس طرح انہیں حضرت شیخ القرآنؒ کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا ذوق تحقیق و مناظرہ کا تھا لیکن وہ یہ سارا کام تحریر کے میدان میں کرتے تھے۔ اہل تشیع کے پیدا کردہ شکوک و شبہات اور اہل سنت کے عقائد و روایات پر ان کے اعتراضات کا علمی و تحقیقی جواب دینا زندگی بھر اُن کا مشغلہ رہا، وہ اس کے لیے کتابی دنیا میں بہت محنت کرتے تھے اور نئے نئے نکات و معارف سامنے لاتے رہتے تھے۔
گوجرانوالہ کے محلہ نور باوا کی ایک مسجد میں کئی برس خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اس دوران مختلف دینی تحریکات میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔ انہوں نے گوجرانوالہ میں تنظیم اہل سنت پاکستان کا حلقہ قائم کرنے کے لیے کچھ عرصہ کام کیا مگر تنظیمی مزاج کے بزرگ نہیں تھے، اس لیے زیادہ مصروفیات کتاب اور تحقیق کے دائرہ میں ہی رہتی تھیں۔ قرآن کریم بہت اچھے لہجے میں پڑھتے تھے اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھ کر بہت لطف آتا تھا۔
امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے ذوق اور اسلوب کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور غالباً ایک یا دو مواقع پر حضرت لکھنویؒ کے مرکز لکھنو میں جانے کی سعادت بھی انہوں نے حاصل کی۔ میری دانست کے مطابق پاکستان میں اس ذوق و اسلوب کے حامل وہ آخری بزرگ باقی رہ گئے تھے۔
انہوں نے اہل سنت کے عقائد کے تحفظ و دفاع اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس کے حوالہ سے بیسیوں کتابیں اور رسالے تحریر کیے جو دینی حلقوں میں ان موضوعات پر بہت معلوماتی ذخیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق کتاب، دلیل، تحقیق اور افہام و تفہیم کی دنیا سے تھا۔ یہ ذوق اب بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کے ماحول بالخصوص اساتذہ و طلبہ کے ذہنی رجحانات میں تحریکی جوش کے غلبہ نے دلیل و کتاب کے ساتھ ہمارا تعلق پہلے ہی بہت کمزور کر رکھا تھا کہ ہم کتاب اور تحقیق کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ بلکہ خالصتاً علمی و فقہی مسائل کو بھی تحریکی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا رجحان ہمارے اجتماعی دینی مزاج کا حصہ بن گیا ہے، جبکہ انٹرنیٹ کی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ نے کتاب فہمی اور تحقیق و استدلال کا رہا سہا ذوق بھی ہم سے چھین لیا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت مولانا حافظ مہر محمدؒ کی جدائی ہمارے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
پاکستان شریعت کونسل کے قیام کے وقت سے وہ ہمارے ساتھ شریک تھے۔ ضعف و علالت اور مصروفیات کے باوجود کونسل کے اجلاسوں میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور وفات کے وقت وہ ہمارے مرکزی نائب امیر تھے۔ انہوں نے پاکستان شریعت کونسل کے عنوان کے ساتھ بہت سے مضامین اور پمفلٹ شائع کیے جن کا بنیادی موضوع ملک میں خلافتِ راشدہ کے نظام کا قیام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس و وقار کا تحفظ و دفاع تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً مطبوعہ خطوط کے ذریعہ حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو ان امور کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے اور علماء کرام کو بھی ان معاملات میں متوجہ کرتے تھے۔
اپنے آبائی گاؤں بن حافظ جی تحصیل میانوالی میں انہوں نے کافی عرصہ سے ’’جامعہ توحید و سنت‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا جس کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ان کے فرزند اور ہمارے عزیز شاگرد مولانا محمد عمر فاروق سلّمہ (فاضل نصرۃ العلوم) سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور راقم الحروف نے ایک موقع پر جامعہ توحید و سنت میں جانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ہماری حاضری پر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی خوشی قابل دید تھی۔
مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کرتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا تحریر کردہ لٹریچر، ان کا قائم کردہ جامعہ توحید و سنت، ان کے فرزند مولانا حافظ محمد عمر فاروق اور ان کے خاندان کی دینی خدمات یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور ان کے ذریعہ حافظ صاحبؒ کی یاد تادیر قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔