عراق پر امریکی حملے کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں، عراق نے اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو معائنہ کے لیے عراق آنے کی اجازت دے دی ہے اور انسپکٹروں نے تفصیلی معائنہ کے بعد رپورٹ دی ہے کہ انہیں ممنوعہ اسلحہ کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن اس کے باوجود امریکہ اور برطانیہ مصر ہیں کہ عراق پر حملہ ہو کر رہے گا۔ ادھر خلیج عرب کے ممالک کی تعاون کونسل نے دوحہ میں ایک اجلاس میں قطر اور دیگر عرب ملکوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو عراق پر حملہ کے لیے اڈے فراہم نہ کریں لیکن روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ دسمبر ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے اسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے حکمران سلطان حماد بن خلیفہ الثانی نے کہا ہے کہ فلسطینی علاقوں کی موجودہ صورت حال اور عراق کے سلسلے میں عرب ریاستیں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہیں۔
جبکہ تیسری طرف اگلے ماہ لندن میں فلسطین کے حوالہ سے بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے جس کے بارے میں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا نہیں بلکہ یاسر عرفات کو ان کے منصب سے ہٹانا اور فلسطین پر امریکہ کی مرضی کی قیادت مسلط کرنا ہے۔ صدر بشار الاسد نے اپنے حالیہ دورۂ لندن میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار اسرائیل استعمال کر رہا ہے لیکن اس کی بجائے فلسطینیوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس تو اپنی جانوں کے سوا کوئی ہتھیار موجود نہیں ہے اس لیے انہیں اپنے تحفظ کے لیے اس ہتھیار کے استعمال سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
صدر بشار الاسد کا واویلا اور قطر کے حکمران کی بے بسی کا یہ منظر دنیا کے ہر ذی شعور اور انصاف پسند شخص کے لیے اضطراب اور بے چینی کا باعث ہے لیکن اس خود کردہ کا کیا علاج ہے کہ عرب حکمرانوں نے گزشتہ ایک صدی سے دوست اور دشمن کی تمیز کرنا چھوڑ رکھی ہے، معاشی، سیاسی اور عسکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بجائے خود کو اسرائیل کے سرپرستوں کی صوابدید اور رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے اور وہ اس بے بسی اور رسوائی کے ماحول میں بھی ’’عرب قومیت‘‘ کے خیمے سے باہر نکلنے اور دنیائے اسلام کے وسیع تناظر میں دوستوں اور دشمنوں کی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے اگر امریکہ کو عراق پر حملہ کے لیے اڈے فراہم کرنے کے مسئلہ پر قطر اس قدر بے بسی محسوس کر رہا ہے تو یہ عربوں کی گزشتہ ایک صدی کی مسلسل پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں، ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور ہمارے دل ان کی اس بے بسی پر تڑپ رہے ہیں لیکن اس سلسلہ میں آخر کیا کیا جا سکتا ہے کہ
ہے جرم ضعیفی کے سزا مرگ مفاجات