روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۴ مئی ۲۰۰۵ء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے اسے ختم کر دینا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نافذ قوانین کا اسلامی تعلیمات سے کوئی ٹکراؤ نہیں اس لیے وفاقی شرعی عدالت جیسے اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کا قیام جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ وہ اپنی صوابدید پر یا حکومت یا کسی شہری کے توجہ دلانے پر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے اور جو قانون قرآن و سنت کے متصادم پائے اسے ختم کرنے اور اس کی جگہ اسلامی قانون نافذ کرنے کے لیے حکومت کی راہنمائی کرے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے قیام کے بعد اب تک متعدد قوانین کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ان کی اصلاح کے لیے حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں لیکن چونکہ وفاقی شرعی عدالت کو آخری اتھارٹی کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور اس کے اوپر سپریم کورٹ کا نظام موجود ہے اس لیے وفاقی شرعی عدالت کے اکثر فیصلے اوپر سپریم کورٹ میں آکر یا تو ختم ہو جاتے رہے ہیں اور یا اب تک معلق پڑے ہوئے ہیں۔ سودی قوانین کے خاتمے کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ اس کی سب سے نمایاں مثال ہے مگر کچھ حلقے وفاقی شرعی عدالت کے کردار کو مؤثر بنانے اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی بجائے سرے سے وفاقی شرعی عدالت کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت چونکہ ایک دستوری ادارہ ہے جو پاکستان کے اسلامی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے اور پاکستان میں اسلامی قوانین و احکام کے عملی نفاذ کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے یہ ادارہ عالمی سیکولر حلقوں کی نظر میں قابل اعتراض ہے اور وہ اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں تاکہ پاکستان کے عدالتی اور قانونی معاملات میں شرعی اصولوں کی کارفرمائی کا تصور موجود نہ رہے اور پاکستان کے تشخص کو سیکولر رنگ میں پیش کیا جا سکے۔ مگر حیرت ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی دستور کے تحت حلف اٹھا کر سالہا سال ملازمت کرنے کے بعد اسی دستور کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف صف آرا ہونے میں بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم صاحب سے گزارش ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اسی دستور کا حصہ ہے جس کی وفاداری کا حلف اٹھا کر انہوں نے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دیے تھے، نیز اس دستور میں ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو گارنٹی دی گئی ہے وفاقی شرعی عدالت اس پر عملدرآمد کی ایک شکل ہے، اس لیے انہیں اس کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اسے مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کی تجاویز دینی چاہئیں کہ ایک باشعور شہری کی حیثیت سے ان کی یہی ذمہ داری بنتی ہے۔